Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 2
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
تمہارا رفیق (محمد رسول اللہ : ﷺ نہ بہکا اور نہ راہ سے بےراہ ہوا
یقینی بات یہ ہے کہ تمہارا رفیق نہ بہکا ہے اور نہ راہ سے بھٹکا ہے 2 ؎ جس بات کے لئے پیچھے قسم کھائی گئی ہے وہ اس جگہ بیان کی جا رہی ہے کہ تمہارا ساتھی ‘ تمہارا دوست ‘ تمہارا جانا پہچانا آدمی (محمد رسول اللہ ﷺ نہ بھٹکا ہے اور نہ ہی بہکا ہے۔ (صاّحبکم) صاحب۔ ساتھی۔ والا اور رفیق و دوست صحبتہ سے جس کے معنی ساتھ دینے کے ہیں۔ ساتھ دینے والا صاحب ہو انسان ہو یا حیوان۔ مکان ہو یا زمان اور اس امر میں فرق نہیں کہ مصاحبت یعنی باہم ساتھ رہنا بدن سے ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت و ہمت کہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے اور عرف میں ” صاحب “ صرف اس کو کہا جائے گا کہ جو کثرت کے ساتھ رہا ہو اور کسی شے کے مالک کو بھی ” صاحب “ کہہ دیا جاتا ہے اور اس طرح اس کو بھی جو اس شے میں تصرف کا مالک ہو۔ اور (کم) ضمیر جمع مذکر حاضر اور اس جگہ (کم) کا خطاب کفار کی جانب ہے اور ” صاحب “ سے مراد نبی اعظم و آخر ﷺ ہیں۔ امام راگب رحمتہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس جگہ صاحب کہہ کر کفار کو اس امر پر تنبیہہ کرنا ہے کہ تم ان کے ساتھ رہ چکے ہو اور ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کا ظاہر و باطن سب تم پر واضح اور عیاں ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہو اور پھر بھی تم نے اس میں کوئی خرابی اور دیوانگی نہیں پائی ہے۔ (صاحبکم) کا لفظ آپ ﷺ کے لئے قرآن کریم میں تین جگہ استعمال ہوا ہے ایک بار اس جگہ اور ایک بار قبل ازیں سورة سبا کی آیت 46 میں اور ایک بار سورة التکویر کی آیت 22 میں اور اسی طرح (صاحبھم) کا لفظ بھی ایک بار آپ ﷺ کی ذات اقدس کے لئے سورة الاعراف کی آیت 184 میں آیا ہے۔ (صل) کا مادہ ض ل ل ہے اور (ضل) کے معنی گمراہ ہوا ‘ بہکا ہوا ‘ بھٹکا ہوا ‘ راہ سے دور جا پڑا ‘ کھو گیا ‘ ضائع ہوگیا ‘ گم ہوگیا ‘ ہلاک ہوگیا ‘ ضلال سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (غوی) کا اصل مادہ ع و ی ہے واحد مذکر غائب ‘ ماضی معروف غنی اور غوابۃ مصدر غوابتہ کے معنی ہیں بہک جانا ‘ بےراہ ہوجانا۔ (قاموس) نادان ہونا۔ (راغب) ناکام ہونا۔ (تاج لسان) اور پھر (صل) اور (عوی) میں فرق کیا رہا ؟ فرق یہ ہے کہ (ماضل) ضلالت کی نفی ہے یعنی ہمارا رسلو محمد رسول اللہ ﷺ سیدھی راہ سے نہیں پھرا یعنی کسی عملی گمراہی میں مبتلا نہیں ہوا۔ اور (ماھوی) برے عقیدے کی نفی کی گئیے کہ ہمارا رسول اللہ ﷺ کا اعتقاد و علم بھی بالکل درست ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ گویا ان دو طریقوں سی نفی کر کے آپ ﷺ کی طمیت پر مہر ثبت فرما دی ہے کہ اس سے زیادہ واضح اور صاف الفاظ میں کسی کی عصمت و پاکیزگی کا بیان ممکن ہی نہیں ہے۔ عصمت انبیاء کرام کا عقیدہ واضح ہے جس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں ہے لیکن اکثر اس کے معنی گناہ ہی سے بچنے کے کئے اور سمجھے جاتے ہیں لیکن قرآن کریم نے اس جگہ نہ یہ کہ نبی کریم کو صرف گناہ سے محفوظ قرار دیا ہے بلکہ آپ ﷺ کے عمل اور عقیدہ کو بھی معصوم بتایا ہے اور کسی غلطی کے شائبہ سے اس کو منزہ اور پاک بیان فرمایا ہے اس لحاظ سے آپ ﷺ کو عقیدہ اور عمل دونوں کی معصومیت کا ایک جگہ ساتھ ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت آپ ﷺ کی عصمت پر سو دلیلوں سے بھی زیادہ وزنی دلیل بیان کردی ہے اور آپ ﷺ کی بعثت کے بعد یا کم از کم یہ کہ اس سورت کے نزول کے بعد اس بات کا اعلان تحدی کے طور پر کردیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نبوت و رسالت آنے کے بعد نہ تو گمراہ ہوئے اور نہ ہی کبھی ہوں گے اور رہی نبوت سے پہلے کی تلاش تو اس کے نتیجہ ہی میں یہ اعزاز آپ ﷺ کو حاصل ہوا ہے اس لئے آپ ﷺ کا وہ عمل بھی چونکہ تلاش حق کے لئے تھا اس لئے اس کو مستحسن ہی کہا جاسکتا ہے اور آپ ﷺ کی عصمت کا کمال یہ ہے کہ وہ الزامات جو غیروں نے مخالفین ومعاندین نے آپ ﷺ پر لگائے یا قیامت تک جو لگائے جانے والے تھے سب کی نفی فرما دی گئی جیسا کہ سورة الفتح میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ آپ ﷺ کے پیچھے لگائے جانے والے اعتراضات و الزامات سے بھی آپ ﷺ کو بری الذمہ قرار دیا گیا اور یہ وہ اعزاز ہے جو آپ ﷺ کے سوا کسی دوسرے نبی و رسول کو بھی نہیں دیا گیا۔ کسی ایک لگائے گئے الزام کے بعد نفی کی جاتی تو اس کا مفہوم یہ نکل سکتا تھا کہ اس ایک مخصوص الزام کی تردید کی جا رہی ہے لیکن جب بات عام کی گئی اور آپ ﷺ پر کسی بھی لگائے گئے الزام یا ضلالت وغوایت کے ذکر کرنے کے علاوہ ہی نفی کردی تو گویا مکمل طور پر نفی کردی گئی اور واضح کردیا کہ آپ ﷺ کبھی بھی نبوت آنے کے بعد کسی ایک امر میں بھی ضلالت و گمرہای اور غوایت کے مرتکب نہیں ہوئے اور نہ آنے والی زندگی میں اس کا کوئی شائبہ موجود ہے اس طرح گویا وہ باتیں جو انہوں نے آپ ﷺ کی طرف سادگی سے منسوب کردی ان سب کی نفی بھی کردی گئی کہ کسی نے آپ ﷺ پر تقسیم کے معاملہ میں کمی بیشی کا ذکر کردیا اور کسی نے صلح کے معاملہ میں جھک جانے کا ذکر کیا اور کہیں قیدیوں کو چھوڑنے اور اجازت نہ دینے کا موقع پر اجازت دے دینے اور کسی نے ایک کام نہ کرنے کے باوجود کردینے یا کرنے کے باوجود نہ کرنے کا ذکر کیا حالانکہ قرآن کریم نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے بعد اس طرح کی ہر لغزش کی نفی کردی اور اس طرح صرف دو الفاظ (ماضل) اور (ماعوی) بول کر ایک بحر بیکراں کو زے میں بند کردیا۔ سبحان اللہ و بحمد سبحان اللہ العظیم۔
Top