Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ ہر انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
اور یہ کہ ہر انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے 39 ؎ ” انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے “ آیت زیر نظر مفسرین کے درمیان ایک معرکتہ الآرا بن کر رہ گئی ہے اور اس پر عجیب عجیب بحثیں اٹھائی گئی ہیں اور بات سے بات نکالتے ہوئے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے لئے متداول تفاسیر کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ کہیں عذاب وثواب کی بحث ہے کہ آیا مرنے والوں کو زندوں کا بھیجا ہوا ثواب ملتا ہے یا نہیں ؟ اور کہیں دنیوی زندگی پر بحث ہے کہ انسان کے لئے اپنی اپنی کمائی کا اصول قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور کسی ایک کی کمائی میں دوسرے کا کوئی حق نہیں اس آیت میں اس طرح کی وضاحت کی گئی ہے اور پھر اس پر اشتراکیت کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اس طرح ثابت کیا گیا ہے کہ ہر انسان صرف اسی چیز کا حق دار ہے جو اس نے اپنی محنت اور کوشش سے ہاصل کی ہو اور اپنے اس نظریہ پر قرآن کریم کی اس آیت کو پیش کی ا ہے۔ ہمارے خیال میں اس طرح کی ساری بحثیں اختراعی ہیں اور قرآن کریم کی یہ آیت ان بحثوں کی متحمل نہیں ہے۔ پیچھے سے جو مضمون چلا آ رہا ہے اس پر غور کرنے اور آگے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کو اپنے اصل مقام سے اٹھا کر باہر رکھا گیا ہے اور اس کے بعد اپنی من مانیوں کے لئے اس کو دلیل بنایا گیا ہے اور اس طرح قرآن کریم کی کتنی آیات ہیں جن کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا ہے حالانکہ ان بحثوں کا وہاں کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف تھی کہ انسان کے اندر جو طاقتیں وار قوتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں سے جس کے لئے انسان کوشش کرتا ہے اس کو حاصل کرلیتا ہے اور باقی ساری طقتیں اور قوتیں خفتہ رہتی ہیں اور بیدار نہیں ہوتیں جس کا صاف اور سیدھا مطلب جو بندہ یا بندہ ہے جو جس چیز کی تلاش کرتا ہے یقینا اس کو پا لیتا ہے اور اس طرح یہ بھی کہ اگر اس کی سعی و کوشش فقط اس دنیوی زندگی کے لئے ہوتی ہے تو اس کو اس دنیوی زندگی میں ملتا ہے اور اگر اس کی کوشش آخرت کے لئے بھی ہوتی ہے تو وہ آخرت کے آرام و آسائش کو بھی حاص کرلے گا اللہ کے ہاں اندھا کھاتہ اور اندھیر نگری نہیں ہے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جاتا بلکہ ہر انسان جتنی کوشش کرتا ہے اور جس چیز کی کوشش کرتا ہے اس کو مل جاتی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاملہ میں چور نہ ہو کہ کرے کچھ اور کہے کچھ یا عملی محنت و مشقت نہ کرے اور صرف زبانی جمع تفریق کرتا رہے اور یہ بھی کہ دوسروں کے سہارے زندہ رہنے کی کوشش نہ کرے بلکہ محنت و مشقت کا عادی ہو پھر جس کام کے لئے وہ محنت کرے گا اس کو حاصل کرلی گا۔ مثلاً ایک شخص دنیوی کاروبار کے لحاظ سے حداد ہے اور دوسرا نجار تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حداد حدادی کے لئے پیدا ہوا تھا اور نجار نجاری کے لئے یا حداد میں حدادی کی صلاحیتیں ودیعت تھیں اور نجار میں نجاری کی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نجاری پیشہ اختیار کرنے والے نے اس کے لئے کوشش وسعی کی اور اس کو حاصل کرلیا اور دوسرے نے حدادی کے لئے محنت و کوشش کی تو وہ حداد ہوگیا اگر ان کی کوشش اس کے بالکل برعکس ہوتی تو نتجہا بھی بالکل اس کے برعکس برآمد ہوتا اس پر ساری محنتوں اور کوششوں کو پرکھتے چلے جائو تو اس نتیجہ پہنچو گے کہ صلاحیتیں ہر طژرح کی انسان میں اللہ نے ودیعت کردی ہیں پھر انسان جس طرح کی سعی و کوشش کرتا ہے اس طرح کا نتیجہ حاصل کرلیتا ہے اور جو نجار ہے وہ حداد ہو سکتا تھا اور جو حداد ہے وہ نجار ہو سکتا تھا اور اب بھی ہو سکتا ہے معاملہ صرف کاوش و محنت کا ہے جس کو قران کریم نے (سعی) سے تعبیر کیا ہے اور یہی حال آخرت کے معاملات کا ہے کہ جو شخص آخرت کی فکر کرتا ہے اور پھر اس کے لئے کوشش و سعی کرتا ہے وہ یقینا آخرت میں کامیاب ہوگا اور جس نے اس کی فکر ہی کبھی نہیں کی وہ مہض دنیا ہی کا ہو کر رہ گیا ہے تو اس کے لئے قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ (مومالہ فی الآخرۃ من خلاق) (البقرہ 2 : 200) اور زیر نظر آیت میں ذکر آخرت ہی کی سعی و کوشش کا ہے۔ اشتراکی ذہن کے مالکوں نے کو اہ مخواہ بحث شروع کی ہے اور اس دور میں دوسری گمراہیوں کے ساتھ یہ گمراہی بھی عام ہے کہ جو شخص جس بات کو اپنانا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کریم کی آیات کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور کسی نہ کسی طرح سے الٹا سیدھا کر کے اپنے مطلب کی بات نکال ہی لیتا ہے۔ آپ کو کبھی اتفاق ہوا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خاندانی منصوبہ بندی والوں نے ‘ بینکاروں نے احتکار کرنے والوں نے ‘ انشورنس والوں نے ‘ لاٹریاں ڈالنے والوں نے اقساط پر چیزیں فروخت کرنے والوں نے ‘ ادھار بیچنے والوں نے ‘ نقد کی قیمتیں الگ اور ادھار کی قیمتیں الگ رکھنے والوں نے ‘ بیمہ کرنے والوں نے ‘ سٹہ بازوں نے ‘ نیلام کرنے والوں نے ‘ نیالمگ ھر والوں نے ‘ اشیاء کی قیمت کے ساتھ مفت چیزیں دینے والوں نے ‘ انعما کی پرچیاں نکالنے والوں نے بانڈ بھرنے والون نے ‘ سینما گھر چلانے والوں نے کتاب و سنت سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے اور باقاعدہ آیات قرآنی اور احادیث ان کے جواز کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ ان شعبدہ بازوں نے جنہوں نے ثواب پہنچانے کے ٹھیکے لے رکھے ہیں انہوں نے بھی اس آیت قرآنی سے استدلال کر کے اپنے کاروبار کو چمکایا ہے اور قرآن خوانی ‘ تیسرے ‘ ساتویں ‘ دسویں ‘ اور چالیسویں کی رسومات کے ادا کرنے کے لئے جواز کے طریقے اس آیت کے تحت بیان کئے ہیں اور قوم کی ایسی مت ماری ہے کہ پوری قوم کی قوم کو اس کام پر لگا دیا ہے بلکہ فی زمالنا اسلام نام ہی ان رسومات کے ادا کرنے کا رکھ دیا گیا ہے اور جو ان رسومات کو ادا نہ کرے اس کو مسلمان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے پیر کرم شاہ صاحب نے ان کے جواز کے لئے اپنے مکتبہ فکر کو خوش کرنے کے لئے خوب زور لگایا ہے اور ہمارے سید مودودی صاحب (رح) نے بھی اس کے جواز میں گفتگو کی ہے اور سواد اعظم کو امام اعظم کے فتویٰ سے اچھی طرح آگاہ کیا ہے تاکہ ” خلافت و ملوکیت “ کے سارے داغ دھبے صاف ہوجائیں اور وقتی مصلحت بہت ساری بحثوں کا خود بکود قل قمع کر دے تاہم اس موضوع سے ہم درگزر کر رہے ہیں کیونکہ اس کی وضاحت پیچھے بہت سے مقامات پر کی جا چکی ہے خصوصاً غزوۃ الوثقی جلد ہفتم ص 196 تا 210 ملاحظہ کریں۔
Top