Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی مصیبت زمین پر نہیں اور نہ تمہاری ذات پر مگر وہ (علم الٰہی کی) اس کتاب میں لکھی ہوئی ہے اس سے قبل کہ ہم اس کو پیدا کریں بلاشبہ یہ اللہ پر بالکل آسان ہے
رب کریم کے قانون کی وضاحت اور علم الٰہی کی وسعت کا بیان 22 ؎ ( اصاب) کی اصل ص و ب ہے جس کا معنی پہنچنے کے ہیں ( اصاب) وہ پہنچا ، وہ آ پڑا ، اس نے پا لیا ۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (مصیبۃ) بھی اسی مادہ ص و ب ہی سے ہے۔ اسم فاعل واحد مؤنث مرفوع نکرہ اصابۃ مصدر غم ، تکلیف ، دکھ ، سختی پہنچانے والی ہرچیز کو مصیبت کہتے ہیں دراصل ( مصیبۃ) صفت کا صیغہ ہے اور اسی کے معنی میں بہت وسعت ہے ۔ صیب جس کے منی بارش کے ہیں اور وہ بھی مادہ سے ہے یعنی ص و ب (نبراھا) جمع متکلم مضارع برء مصدر ہے اور اصل اس کی ب ر ا ہے۔ ہم ان کو پیدا کریں ۔ باری پیدا کرنے والا الذی خلق الخلق اس دنیوی زندگی میں انسان کو کیسے کیسے حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ؟ اپنی زندگی ہی پر غور و فکر کرلو اگر تمہاری عمر اس وقت چالیس سال سے اوپر کو چلی جا رہی ہے تو اپنے بچپنے سے لے کر اس وقت تک کی پختہ عمر تک اپنے ہی حالات کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک بار گھما کر دیکھو گے تو تیس بتیس سال کی سر گزشت چند سیکنڈوں میں تمہاری سامنے آجائے گی اور اب بٹن آن (Button on) ہوگیا ۔ ذرا غور کرتے جائو تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آتا جائے گا ۔ غور کرو کہ بچپن کی شرارتیں ، امرد ہونے کے اوقات اور پھر جوانی کی رعنائیاں ، اپنے بچہ ہونے کی ضد ، گیند بلے کا دور ، کالج و یونیورسٹی کا زمانہ ، محبت اور پیار کی پینگیں ، کاروبار کا انتخاب ، کمائی کی دھن ، آئیڈیل کا انتخاب ، باپ بننے کی خواہش ، بیٹے کی مبارکبادیاں اور اب اولاد کی شادیوں کی فکر ، ایک ایک حالت پر غور کرتے جائو کہ تم کو کہاں کہاں ٹھوکر لگی اور تم کہاں کہاں رکے اور پھر کس طرح دوبارہ زندگی کی امنگیں پیدا ہوئیں اور تم کو اس تھوڑے سے دور میں کیا کیا کرنا پڑا ؟ دس منٹ کے اس منظر (Scene) میں تم سب کچھ ملاحظہ کر جائو گے ۔ اب غور کرو کہ تم کو اپنی کسی حالت کا اس حالت کے پیش آنے سے پہلے علم تھا ؟ اس حالت کے گزر جانے کے بعد تم کو وہ حالت کتنی مدت تک یاد رہی اور کس طرح یاد رہی اور پھر تم کس حال کو بھول گئے اور کونسا حال یاد رکھا اور اب جس دور سے تم گزر رہے ہو تمہاری خواہشات کیا ہیں اور ابھی کن کن حالات سے آگے کو گزرنا ہے ، آپ کو کچھ معلوم نہیں ، مجھے کچھ معلوم نہیں اور ہم میں سے کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں لیکن جس جس حالت سے بھی آپ دو چار ہوئے ہیں ، میں دو چار ہوا اور ہم میں سے ایک ایک فرد جس حالت سے دو چار ہوا وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود ہے ایک بار پھر غور کرو کہ ان حالات میں کتنی ہی باتیں ہیں جو ہمارے اپنے وجود ، جسم اور جان سے متعلق ہیں لیکن ہم کو کچھ علم نہیں تھا کہ یہ مصیبتیں ہم پر اپنے ہی جسم و جان سے وارد ہوجائیں گی لیکن وہ وارد ہوئیں اور ہم کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب علم الٰہی میں اسی طرح موجود تھیں اور جو موجود تھیں وہ واقع ہو کر رہیں اس لیے کہ ان کو واقع ہونا ہی تھا۔ لاریب یہ کسی کے ٹالے ٹل نہ سکی تھیں تعجب ہے کہ انسان جب کسی مصیبت میں گھر جاتا ہے حالانکہ اس مصیبت میں گھرنے کا اصل باعث وہ خود ہی ہوتا ہے لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ میں اس کا باعث کیسے بن گیا اس لیے وہ ادھر ادھر دھکے کھاتا ہے اور اس مصیبت اور دکھ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس وقت اس کو بالکل بھول جاتا ہے کہ ہر مصیبت قانون الٰہی کے مطابق آتی ہے اور قانون الٰہی کے مطابق ہی وہ پیچھا چھوڑتی ہے ۔ وہ اپنی ہی قوت و ہمہ کے نرغے میں آجاتا ہے اور وہ اس کو در در پھراتی ہے ۔ کبھی پیروں کے پاس ، کبھی نجومیوں کے پاس ، کبھی ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والوں (Pdlmit) کے پاس ، کبھی جنات کے تسخیر کرنے والوں کے پاس ، کبھی تعویذ اور گنڈے کرنے والوں کے پاس اور بہت ہی کم ہوتے ہیں جو ایسے حالات سے دو چار ہونے کے بعد بھی ایک اللہ ہی کے دروازے پر پڑے رہے اور ہر حالت میں اس پر انحصار رکھیں ۔ اس جگہ پہنچ کر بڑوں بڑوں کے پائوں میں لغزش آجاتی ہے اور ایک کی قوت و ہمہ دوسرے کو متاثر کردیتی ہے۔ کوئی صاحب پوچھ سکتے ہیں کہ علم نجوم ، علم دست شناسی ، علم الاعداد اور اسی طرح تعویذ اور گنڈوں کا تعلق علوم سے نہیں ہے ؟ تو ہم جواب دیں گے کہ بالکل علوم سے ہیں اور یہ ایسے ہی علوم ہیں جیسے جادو اور کہانت ، دھوکہ اور فریب ، کذب و افتراء ، چوری اور نقب زنی ، جو اور قمار بازی ، قال اور شگون وغیرہ سب علوم ہیں پھر آپ اپنے دل ہی سے پوچھ لیں کہ آپ کا دل ان میں سے کس کس علم پر جمتا ہے ؟ رہی شریعت الٰہی تو وہ دن میں سے ایک ایک کی تردید کرچکی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ان سارے لوگوں کے لیے جو ان علوم کو سیکھتے ہیں کفر و فسق کا فتویٰ دیا ہے اور تفصیل اس کی ہمارے پمفلٹ ” جادو کیا ہے ؟ “ میں مل جائے گی ۔ اختصا اس کا یہ ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد ہے : (من اتی عرافا فسالہ عن شی ، فصدقہ بما یقول لم تقبل لہ صلوۃ اربعین یوما) (صحیح مسلم عن بعض ازواج النبی ﷺ عن ابی ہریرہ ؓ عن النبی ﷺ قال من اتی کاھنا فصدقہ بما یقول فقد کفر بما انزل علی محمد ﷺ) رواء ابودائود) ( من اتی عرافاً او کاھنا فصدقہ بما یقول فقد کفر بما انزل علی محمد ﷺ ( لابی یعلی بسند جید عن ابن مسعود مثلہ موقوفا ً ) لیس منا من تطیر الو تطیر لہ او تکھن اوتکھن لہ او سحر او سحرلہٗ و من اتی کاھنا ً فصلفہ بما یقول فقد کفر بما انزل علی محمد ﷺ (رواہ الزار بسند جید عن عمان بن حصین ؓ مرفوعا ً ) صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کی بعض ازواج مطہرات ؓ سے مروی ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا کہ ” جس شخص نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ پوچھا اور اس کی تصدیق کی تو اس کی چالیس رو تک نماز قبول نہ ہوگی “۔ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” جو شخص کسی کاہن اور نجومی کے پاس کوئی سوال پوچھنے کے لیے گیا اور پھر اس کے جواب کی تصدیق بھی کی تو اس نے شریعت اسلامیہ کا انکار کیا “ ۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا کہ ” جو شخص کسی نجومی اور کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے شریعت محمدیہ کا انکار کردیا “۔ یہ روایت مسند ابو یعلی میں سند جید سے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے اسی طرح موقوفاً مروی ہے اور حضرت عمران بن حصین ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص خود فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے یا خود کاہن بنے یا اس کے لیے کوئی دوسرا شخص کاہن تجویز کرے یا جو شخص خود جادوگر ہو یا اس کے لیے کوئی دوسرا شخص جادوگر تجویز کے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے شریعت محمدیہ سے کفر کا ارتکاب کیا “۔ زیر نظر آیت کا مطلب و مفہوم ایک بار پھر سن لو اور یاد رکھو کہ ” کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوئی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے اس کو لکھ نہ دیا ہو اور یہ اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ہے بلکہ بہت آسان ہے “ یہ بات سم سے کیوں کی جا رہی ہے ؟ اس کا ذکر آنے والی آیت بہت وضاحت سے پیش کر رہی ہے۔
Top