Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 26
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق اَرْسَلْنَا نُوْحًا : بھیجا ہم نے نوح کو وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کو وَجَعَلْنَا : اور بنایا ہم نے۔ رکھا ہم نے فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا : ان دونوں کی اولاد میں النُّبُوَّةَ : نبوت کو وَالْكِتٰبَ : اور کتاب کو فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ : تو بعض ان میں سے ہدایت یافتہ ہیں وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
اور بلاشبہ ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب قائم کردی پھر ان (کی امت) میں کچھ ہدایت یافتہ بھی ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہی رہے
مسیح (علیہ السلام) آئے اور ان کی قوم نے رہبانیت اختیار کرلی اور بعد میں منحرف ہو گئے 27 ؎ (قفیا) کا مادہ قو ہے جمع متکلم فیہ ماضی معروف قفیۃ مصدر ۔ پیچھے بھیجنا ، پیچھے کردینا اور اسی سے قفا ہے جس کے معنی گردن کے ہیں یعنی سر کا پچھلا حصہ ( گدی) (اثارھم) ان کے نشانات ، انکے قوموں کے نشان ، ان کے پیچھے پیچھے ، انار مضاف ھم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الٰہیہ۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد در اولاد میں جب تک نبوت جاری رہی ہم رسولوں کو بھیجتے رہے اور سب کے بعد سلسلہ نبی اسحاق ابن مریم کو بھیجا اور ان کو انجیل جیسی کتاب بھی دی لیکن بنی اسحاق کے سلسلہ کی جب نبوت ختم کردی گئی تا ہم ان لوگوں کے دلوں میں شفقت اور رحمت موجود تھی لیکن جوں جوں ہی صدر اول کے لوگ اس دنیا سے رخصت ہونے لگے اور ان کے ساتھ ان کی صفات یعنی شفقت و رحمت بھی ختم ہونے لگی اور اس کے بعد آنے والوں نے رہبانیت کو گھڑ لیا اور ہم نے رہبانیت ان پر لازم نہیں کی تھی مگر ہاں ! جو کچھ انہوں نے کیا وہ اس ناطہ کے ساتھ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنا چاہتے ہیں تا ہم انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی گھڑی ہوئی رہبانیت میں نئی نئی بدعات گھڑنا شروع کردیں اور وہ پہلی رہبانیت پر بھی قائم نہ رہے اور اسی طرح ہوتے ہوتے انہوں نے پورے دین کا نقشہ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا اور بدعات کا نام دین ہوگیا ۔ آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ ہم نے ایک کتاب بنام ” ذلک عیسیٰ ابن مریم “ کا ذکر کیا ہے جس کی طباعت کا ارادہ اس تفسیر عروۃ الوثقیٰ سے پہلے بنایا تھا لیکن جب تفسیر کا کام شروع ہوگیا تو ہم نے محولہ بالا کتاب کے کچھ حصیعروۃ الوثقیٰ جلد دوم میں دے دیئے اور بعض کو ہم جگہ جگہ دیتے آ رہے ہیں لیکن مسیحی تعلیمات ، مسیحی فرقوں کی مسیحیت کے عقائد جو بعد میں بنا لیے گئے ۔ مسیحیت اور کفارہ ، مسیحیت کی رسمیں ، مسیحی یورپ کا کلب کی اخلاقی حالت اور معافی نامے اور مارٹن لو تھر کے بعد کے مصلحین کا مختصر تذکر اور بہت سے دوسرے عنوانات کو چھوڑ دیا گیا تھا اور ارادہ میں تھا کہ سورة الحدید میں چونکہ رہبانیت کے گھڑنے اور پھر اس پر بھی قائم نہ رہنے کا ذکر ہے وہاں اس کی ایک مختصر سی جھلک دکھائی جانے لگی جس کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس طرح کی بدعات اور دین میں نئی نئی رسومات کے پیدا کرنے کی اصل حقیقت بتائی جائے تاکہ وہ ان بدعات سے باز رہیں لیکن افسوس کہ آج کل ہم مسلمانوں میں وہی فرقہ بندی اور وہی مختلف عائد کا کھچڑ اور اسی طرح کی رسمیں پیدا ہوگئی ہیں اور اب انہوں نے دین کی اصل جگہ حاصل کرلی ہے ۔ گویا جس کا مقصد کے لیے قرآن کریم نے ان کی رہبانیت اور پھر اس میں غلو در غلو کا ذکر کیا تھا اس پر مسلمانوں نے قطعاً نظر نہ رکھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن بیماریوں کا شکار مسیحیت ہوئی تھی آج انہی بیماریوں میں قوم مسلم مبتلا ہے تا ہم تقابل کر کے غور کیا جاسکتا ہے اس لیے اس جگہ عیسائیت کے متذکرہ بالا عنوانات کے متعلق ” ذلک عیسیٰ ابن مریم “ کے کچھ حصے پیش کیے جاتے ہیں شاید قارئین کے لیے مفید ہوں اور قارئین ان کو دیکھ اور پڑھ کر اپنی اور اپنی قوم کی اصلاح کے لیے کوئی کوشش کرسکیں ۔ وما توفیقی الا باللہ علہ توکلت والیہ انیب۔ تعلیمات مسیح (علیہ السلام) توحید کی تعلیم :۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان کیا ہے وہ واحد ویگانہ ہستی ہے جس کی عبادت کرنا فرض ہے ، مقدس کتاب میں لکھا ہے : ” پھر ابلس ( یسوع) کو ایک اونیچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی سب سلطنتیں اور ان کی شان و شوکت اسے دکھائی اور اس سے کہا کہ اگر تو جھلک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا ۔ یسوع نے اس سے کہا اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔ “ ( متی باب : 4 : 10 ، 11) انجیل کی یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہٗ لا شریک ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں اور وہی معبود حقیقی ہے ، اسی کے سامنے سرجھکانا چاہئے۔ ’ ایک فقیہہ نے یسوع سے پوچھا کہ سب حکموں میں اول کون سا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرائیل سن ! خداوند خدا ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند خدا سے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ ۔ دوسرا یہ کہ تو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔ ان سے بڑا اور کوئی حکم نہیں ۔ فقیہ نے اس سے کہا : اے استاد بہت خوب ! تو نے سچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اسکے سوا اور کوئی نہیں ۔۔ جب یسوع نے دیکھا کہ اس نے دانائی سے جواب دیا تو اس نے کہا تو خدا کی بادشاہی سے دور نہیں ۔ ( مرقل 14 (22 ، 28) ” اور دیکھو ایک عالم شرع اٹھا اور یہ کہہ کر اس کی آزمائش کرنے لگا کہ اے استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں ۔ اس نے اس سے کہا : تورات میں کیا لکھا ہے ، تو کیا پڑھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔ اس نے اس سے کہا : تو نے ٹھیک جواب دیا ، یہی کر تو جیئے گا ۔ “ ( الوقا 10 : 25 تا 28) اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ انسان تجھ خدائے واحد اور بر حق کو جانے اور مسیح کا تیرا بھیجا ہوا ( یعنی رسول یقین کرے) (یوحنا : 17 : 3) خدا کی صفات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک ازلی بادشاہ یعنی غیر مرئی واحد خدا (اقیمتیمیس 17 : 1) کی تعلیم ہے جو اول و آخر ہے جس کی ” ان دیکھی صفتیں یعنی اس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی چیزوں کے ذریعہ سے۔ صاف نظر آتی ہے۔ “ ( رومیوں 20 : 1) ( عبرانیوں 13 : 4) ” وہ قادر مطلق ہے اس کے کام بڑے اور عجیب ہیں “ ( مکاشفہ 3 : 15) وہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ اس نے ساری چیزیں پیدا کیں ۔ ( مکاشفہ 11 : 4) ” وہ انسانوں کا روز قیامت میں حساب کرے گا “ ( رومیوں باب 2 آیات 5 ، 6) خدا رحمدل ہے۔ ” خدا کی حمد ہو جو رحمتوں کا باپ ہے “ ( کر فتھیون 3 : 1) خدا ظالم بھی ہے۔ ” ہمارا خدا بھسم کردینے والی آگ ہے “ (استثناء : 24/4 ، عبرانیوں 29/12) ” جس خدا نے دنیا اور اس کی ساری چیزوں کو پیدا کیا ، وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا ، نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھ سے خدمت لیتا ہے ، کیونکہ وہ تو خود سب کی زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔ اور اس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کے لیے پیدا کی اور ان کی معیادیں اور سکونت کی حدیں مقرریں ۔ تاکہ خدا کو ڈھونڈیں ۔ شاید کہ ٹٹول کر اسے پائیں ہر چند کہ وہ ہم میں سے کسی سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے رسول تھے۔ اناجیل سے یہ بات عیاں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو رسول کہا ہے کتاب مقدس میں لکھا ہے : ” یسوع نے آنکھیں اٹھا کر کہا : اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تو نے میری سن لی اور مجھے تو معلوم تھا کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے مگر ان لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں ۔ میں نے کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تو ہی نے مجھے بھیجا ہے “۔ (یوحنا ، 41 ، 42) اس آیت میں حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنے تیئیں خدا کا مقر بندہ اور رسول بیان کیا ہے ، جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت بخشتا ہے۔ ’ ’ یسوع ‘ ‘ نے پکار کر کہا کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔ “ (یوحنا 12 : 44) ” میں نے جو کچھ کہا اپنی طرف سے نہیں بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اس نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں اور میں جانتا ہوں اس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے “۔ (یوحنا : 12 : 49 ، 50) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں ، جو کچھ وہ کہتے اور بولتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت کہتے اور بولتے ہیں ۔ ( یوحنا 13 : 20) ” میں تم سے سچ مچ کہتا ہوں کہ جو میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے ۔ وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے “۔ ” جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا میں ویسا ہی کرتا ہوں “۔ (یوحنا 14 : 31) ” اور جب یسوع گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہوا تو سارے شہر میں ہلچل پڑگئی اور لوگ کہنے لگے یہ کون ہے بھیڑ کے لوگوں نے کہا یہ کلیل کے ناصرہ کا نبی یسوع ہے “۔ ( متی 21 : 11) توبہ کی تلقین : حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہود کو توبہ اور استغفار کرنے کی بہت تلقین فرمائی اور کہا کہ انسان توبہ کے ذریعہ ہی اپنے گناہوں کے دھبوں کو دھو سکتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر نبی نے انسان کے روحانی اور اخلاقی اصلاح کا کیمیا نسخہ توبہ ہی بتایا ہے ، کتاب مقدس میں لکھا ہے : ” اس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے “۔ (متی : 4 : 17) توبہ سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ ” جس طرح ایک گڈریا ایک گمشدہ بھیڑ کو واپس پا کر خوش ہوتا ہے میں تم سے کہتا ہوں کہ اسی طرح ننانوے راست بازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک توبہ کرنے والے گناہ گار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہوگی ۔ “ (الوقا 15 : 7) توبہ سے ہی جنت حاصل ہوتی ہے۔ ” یسوع نے ان سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول لینے والے اور کسبیاں تم سے پہلے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یوحنا راست بازی کے طریق پر تمہارے پاس آیا اور تم نے اس کا یقین نہ کیا مگر محصول لینے والوں اور کسبیوں نے اس کا یقین کیا اور تم یہ دیکھ کر پیچھے بھی نہ پچھتائے کہ اس کا یقین کرلیتے “۔ ( متی 21 : 31) ” یسوع نے ایک بچے کو پاس بلا کر اسے ان کے بیچ میں کھڑا کیا اور کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان میں ہرگز داخل نہ ہو گے ) (متی 18 : 2 ، 3) نجات اعمال پر ہے : ہر نبی نے نجات حاصل کرنے کے لیے ایمان اور خدا کے احکام کی پابندی پر زوردیا ہے ۔ اسی اصول کی تبلیغ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے کی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اعمال صالح کے بجا لانے پر زوردیتے ہوئے فرمایا : ” جب تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرتے تو کیوں مجھے خداوند خداوند کہتے ہو۔ جو کوئی میری پاس آتا اور میری باتیں سن کر ان پر عمل کرتا ہے میں تمہیں جتاتا ہوں کہ وہ کس کی مانند ہے۔ وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے گھر بناتے وقت زمین گہری کھود کر چٹان پر بنیاد ڈالی جب رو آئی دھار اس گھر سے زور سے گری مگر اسے ہلا نہ سکی ۔۔ لیکن جو سن کر عمل میں نہیں لاتا وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے زمین پر گھر کو بےبنیاد بنایا ، جب دھار اس پر زور سے گری تو وہ فی الفور گر پڑا اور وہ گھر بالکل برباد ہوا “ (الوقا 6 : 26 تا 49) ” اور دیکھو کہ ایک شخص نے پاس آ کر یسوع سے کہا : اے استاد ! میں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پائوں ۔ اس نے کہا تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے۔ نیک تو ایک ہی ہے یعنی خدا ، لیکن اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے توحکموں پر عمل کر ۔۔۔ اس نے کہا : میں نے ان سب احکام پر عمل کیا اب مجھ میں کس بات کی کمی ہے ؟ یسوع نے اس سے کہا : اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے ، تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا “۔ ( متی 25 : 46) گناہ جہنم کا موجب ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جس طرح احکام الٰہی کی پیروی کرنے کو ابدی اور حقیقی زندگی کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے ۔ اسی طرح گناہ کا جہنم کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں : اور ریا کار فقیہو اور فریسیو۔۔۔ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو ۔۔۔ اے سانپو ! اے افعی کے بچو ! تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے ؟ (متی 22 : 29 ، 33) فرشتے بد کاروں کو اس کی بادشاہی میں سے جمع کریں گے اور ان کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے ، وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا ۔ اس وقت راست باز لوگ اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے “ ( متی 12 : 41 ، 43) ” اے سانپ کے بچو ! تم برے ہو کر کیونکر اچھی باتیں کہہ سکتے ہو ۔ کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی منہ پر آتا ہے ۔ اچھا آدمی اچھے خزانے سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور برا آدمی برے خزانے سے بری چیزیں نکالتا ہے اور میں تم سے کہتا ہوں جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دن اس کا حساب دیں گے کیونکہ تو اپنی باتوں کے سبب سے راست باز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصور وار ٹھہرایا جائے گا “۔ ( متی 12 : 34 ، 37) ” جو مجھ سے اے خداوند کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہت میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔۔ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی ۔ اے بدکارو ! میرے پاس سے چلے جائو ۔ پس وہ جو کوئی میری باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ عقل مند ہے۔۔۔ اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ بیوقوف ہے۔ (متی 6 : 21 تا 26) ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے جو نجات کا ذریعہ کفارہ ٹھہرا لیا ہے وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے فرمودات کے خلاف ہے ، نجات کا دارومدار صرف ایمان اور احکام الٰہی کی پیروی اور گناہوں سے اجتناب پر ہے۔ اخلاقی تعلیم : اس عہد کے یہودی خدا کو محض منتقم خیال کرنے لگ گئے تھے جو باپ دادا کے گناہوں کی سزا اولاد کی تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے خدا کی محبت پر بہت زور دیا ۔ اسے بنی آدم کا باپ کہا ۔ خدا کی محبت کو بعض اچھوتی تمثیلوں کے ذریعہ بیان کیا اور یہود کو عفو ودر گزر کرنے کی تعلیم دی ، فرماتے ہیں : ” مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں ، جو حلیم ہیں ، جو راست بازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ، جو رحم دل ہیں ، جو پاک دل ہیں ، جو صلح کراتے ہیں ، جو راست بازی کے سبب ستائے گئے ہیں ۔ “ ( متی 5 : 1 تا 10) ” اس وقت پطرس نے پاس آ کر اس سے کہا : اے خداوند ! اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو میں کتنی دفعہ اسے معاف کروں ، کیا سات بار ؟ یسوع نے اس سے کہا میں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک ۔ پس آسمان کی بادشاہی اس بادشاہی کی مانند ہے جس نے اپنے نوکروں سے حساب لینا چاہا ۔۔۔۔ مالک نے ترک کھا کر اسے چھوڑ دیا اور اس کا فرض بخش دیا ۔ جس شخص نے اپنے بھائی کا سود ینار نہ بخشا تھا اس کے مالک نے خفا ہو کر اس کو جلادوں کے حوالے کردیا کہ جب تک تمام فرض ادا نہ کرے قید میں رہے۔ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اسی طرح کرے گا ، اگر تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کو دل سے معاف نہیں کرے گا “۔ ( متی : 18 : 21 تا 25) ” تم میں سے ایسا کونسا آدمی ہے کہ اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے ؟ پس جب کہ تم برے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا ؟ پس جو تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کرو کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے “ ( متی 7 : 9 تا 12) ” اے ہمارے باپ ! تو جو آسمانوں پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے ، تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو ۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے اور جس طرح ہم نے اپنے قصور واروں کو معاف کیا ہے تو بھی ہمارے قصور معاف کر اور ہمیں آزمائش میں نہ لا۔۔ اس لیے کہ اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا اور اگر تم نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصو رمعاف نہ کرے گا ۔ ( متی 6 : 9 تا 10) اخلاقی تعلیم کا اصول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس خلق حسنہ کو اللہ کے ہاں مقبول قرار دیتے ہیں جو ریا کاری اور دکھاوے سے پاک ہو ، فرماتے ہیں : ” خبردار اپنے راست بازی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لیے نہ کریں ، تمہیں تو تمہارے پاس جو آسمان میں ہے تمہارے لیے کچھ اجر نہیں ہے۔ پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نر سنگانہ بجوا ، جیسا ریا کار عبادت خانوں اور کو چوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جائے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدہ میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا “۔ ( متی باب 6 ؟ آیات 1 تا 3) معاشرتی تعلیم حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل محبت کا پودا مرجھا چکا تھا۔ آپ نے اس پودے کو از سر نو شاداب کیا اور معاشرے کی بنیاد محبت پر رکھی۔ شریر کا مقابلہ نہ کرنے کی تعلیم اور تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور میں تم سے کہتا ہوں جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا ، اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدر عدالت کی اور جو کوئی اسے احمق کہے گا وہ آتش جہنم کا سزا وار ہوگا ۔ تم سن چکے ہو کہ تم سے کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ، لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کر نام بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی نالش کر کے تیرا کرتہ لینا چاہتا ہے تو تو چغہ بھی اسے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا ، جو کوئی تجھ سے مانگے اسے دے اور جو کوئی تجھ سے قرض چاہے اس سے منہ نہ موڑ ( متی 5 : 21 ، 24) پڑوسی کی عزت کرنے کی تعلیم ” تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمنوں سے عداوت ، لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان میں ہے بیٹے ٹھہرو “۔ (متی 5 : 43 ، 44) غیر محرم عورت کی طرف بری نظر سے دیکھنا : ” تم اگلے لوگوں سے سن چکے ہو کہ زنا بہت پاپ ہے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ جو شخص پرائی عورت کی طرف بری نظر سے دیکھتا ہے وہ دل میں زنا کا مرتکب ہوچکا ۔ اس لیے اگر تمہاری آنکھ یا ہاتھ ایسی حرکت کرے تو اسے کاٹ کر پھینک دے “۔ (متی 5 : 29) ماں باپ کی عزت کرنے کی تعلیم ” تم لوگ خدا کے حکم تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین پر برقرار رکھتے ہو ، خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزت کرو اور جو کوئی ماں باپ کو برام کہے وہ جان سے مارا جائے ۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں باپ سے یہ کہہ کر میری جو خدمت تمہارے کام آسکتی تھی انہیں میں خدا کی نذر کرچکا ہوں ۔ اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں یا باپ کی کوئی خدمت نہ کرے “ (متی 5 : 3 ، 9) غرباء کو خیرات اور صدقہ دینے کی تعلیم ایک دولت مند شخص حضرت مسیح (علیہ السلام) کے پاس آیا اور پوچھا کہ اے نیک استاد ! میں کون سا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پائوں ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا : اگر تو کامل ہونا چاہے تو جا کے سب کچھ جو تیرا ہے بیچ ڈال اور محتاجوں کو دے ، تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا۔ تب آ کے میرے پیچھے ہو لے “ ( متی 19 : 2) مسیحی فرقے عیسائیت کے آغاز میں بنیادی اختلافات رونما ہوگئے تھے۔ یعقوب حواری اور پولوس کا اختلاف ۔ یعقوب اور دیگر حواری نجات کے لیے ایمان اور عمل صالح کو لازمی قرار دیتے ہیں ، مگر پولوس عمل اور شریعت کی پابندی کو لعنت قرار دیتا ہے اور آزاد روی کا درس دیتا ہے ۔ اس کا یہ فتویٰ کہ مسیح پر ایمان لانے کے بعد انسان ہر گناہ سے پاک اور حقیقی نجات کا وارث ہوجاتا ہے ۔ گویا پولوس کے نزدیک صرف مسیح پر ایمان لانا ہی نجات کے لیے کافی ہے ، ایمان لانے کے بعد انسان جو چاہے کرے اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ نہیں کرے گا ۔ مسیحی فرقوں کی تفصیل یہ ہے : 1۔ ابیونی فرقہ : ان کے دو فریق تھے ۔ دونوں کا یہ اعتقاد تھا کہ حضرت مسیح بشر تھے۔ ان میں سے اکثر ایسے لوگ تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خود دیکھا اور ان سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو مافوق الفطرت مانتے تھے ، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ یوسف نجار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ ضرور تھے لیکن حضرت مریم کا حمل روح القدس کے ذریعہ ہوا ۔ یہ فرقہ اس بات کا بھی معقد تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب پر چڑھ جانے کی وجہ سے تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بن گئے ہیں ۔ مسٹر جے۔ ایم رابرٹسن نصرانی اور ابیونی فرقہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” یہ لوگ مسیح کی خدائی کا انکار کرتے تھے اور پولوس کو رسول تسلیم نہ کرتے تھے ۔ “ (History of Christianity (London) 1913: page:5) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار ارینوس سے نقل کر کے بیان کرتا ہے ” ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ مسیح ایک انسان تھے جسے معجزات دیئے گئے تھے۔ یہ لوگ پولوس کے بارے میں یہ تعلیم نہ کرتے تھے کہ وہ موسوی دین سے برگشتہ ہو کر عیسائی ہوگیا تھا اور یہ لوگ خود موسوی شریعت کے احکام اور رسموں یہاں تک کہ ختنہ پر بھی مضبوطی کے ساتھ کاربند تھے “۔ (برٹانیکا ص 881 ، جلد 7) یہ فرقہ صرف متی کی عبرانی انجیل کو مانتے تھے جس میں نسب نامہ نہ تھا۔ 2۔ مارکیونی اور ناستک فرقے مارکیونی فرقہ اپنے بانی مارکیونی کے نام سے مشہور ہوا ۔ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ، خارق عادت ، پیدائش در مرکرجی اٹھنے کا قائل نہ تھا۔ ناستک کے لفظی معنی دانا کے ہیں ۔ ان پر فیشا غورث ، افلاطون اور زر تشت کی تعلیم کا اثر تھا۔ سینٹ پال کے منکر تھے۔ مسیح کو روح تسلیم کرتے تھے ۔ توراۃ کی صرف پہلی پانچ کتابوں کو تسلیم کرتے تھے۔ تمام انبیاء بنی اسرائیل کو گناہ گار تسلیم کرتے تھے۔ ڈوسیٹی :۔ یہ لوگ یسوع مسیح کو کلمہ خدا تسلیم کرتے تھے ۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اچانک ایک مکمل اور جو اس سال انسان کی صورت میں ظاہر ہوگئے ۔ ان کی انسانی صورت فریب نظر تھی ۔ وہ روح خالص تھے ، ان میں جسمانیت کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ ارتمن :۔ یہ فرقہ عیسیٰ سے دو سو سال بعد پیدا ہوا۔ یہ فرقہ مسیح کی الوہیت کا منکر تھا۔ پلوس شمشاطی کلیسا انطاکیہ کا لارڈ پاری اسفوف اس فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ 3۔ مونٹانس کا گروہ : 170؁ء میں یہ دعویٰ کیا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے جس فامر قلیطہ کے آنے کی خبر دی ہے وہ میں ہوں ۔ اس کے بعد اور لوگوں نے بھی یہی دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہلایا۔ 4۔ مانے کا فرقہ تیسری صدی عیسوی میں مانی نے ملک ایران میں مجوسی اور عیسوی مذہب سے مرکب ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالی ، یہ فرقہ کتاب الاعمال حواریوں کو نہیں مانتا۔ 5۔ نو ویشین کا فرقہ یہ فرقہ پولوس کو نہیں مانتا تھا ، دو سو پچاس عیسوی میں پیدا ہوا اور پانچ سو عیسوی تک موجود رہا۔ 6۔ اریوس کا فرقہ اس فرقہ کا بانی اریوس (256 ء تا 236 ء) تھا ۔ وہ لیبیا کا رہنے والا تھا اور اسکندریہ میں پادری تھا۔ اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگرچہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے تھے لیکن وہ الوہیت کے اس مقام پر فائز نہیں ہیں جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ ان کو امتنوم اول یعنی خدا نے پیدا کیا۔ وہ پیدائش سے قبل معدوم تھے۔ اس وجہ سے وہ اپنے باپ کی طرح غیر قانونی اور ابدی نہیں ہیں ۔ باپ کی ذات ابدی اور لازوال ہے۔ جس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء ۔ لیکن بیٹے کی ابتداء ہے ، باپ بیٹے سے پہلے موجود تھا۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ باپ بیٹا دونوں ابدی ہیں اور دونوں ایک ہی صفات کے مالک ہیں ۔ اس عقیدہ کی تردید میں کئی مجلسیں بلائی گئیں ، جن میں پہلی کونسل نیفہ 325 ء میں منعقد ہوئی ۔ اس کونسل نے اس عقیدہ کو کفر قرار دیا ، دوسری کونسل قسطنطنیہ میں 381؁ء میں منعقد ہوئی اس مجلس میں بھی اس فرقہ کو ملحد اور کافر قرار دیا گیا ۔ 7۔ اپولی نیرین اس کا بانی اپولی نیریس (Appoli Naris) تھا۔ اس کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں البتہ اس نے 392؁ء میں انتقال کیا ۔ اس کا فرقہ کا عقیدہ تھا کہ یسوع مسیح انسانی جسم میں ضرور نمودار ہوا ، لیکن ان میں الوہیت اور بشریت ایسی ملی ہوئیھی کہ ایک کو دوسری سے الگ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ان کے جسم میں روح کی جگہ کلمۃ اللہ نے لی لی تھی ۔ اس لیے مسیح خالص کلمہ الٰہی تھا۔ اس فرقہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت پر زیادہ زوردیا ۔ پانچویں صدی عیسوی میں یہ فرقہ بالکل معدوم ہوگیا ۔ 8۔ پولسی فرقہ : پانچویں صدی عیسوی میں پولسی فرقہ پیدا ہوا ۔ اس فرقہ کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ خدا نہ تھے بلکہ فرشتہ تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا چناچہ وہ کنواری مریم کے پیٹ سے ایک انسان کی شکل میں پیدا ہوئے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک مخصوص جلال دیا تھا اس لیے وہ ” خدا کے بیٹے “ کہلائے۔ اس فرقے کے اثرات زیادہ تر ایشیائے کو چک اور آرمینیا کے علاقوں میں رہے۔ ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ص 397 ج 1) 9۔ نسطوری فرقہ پانچویں صدی کے وسط میں نمودار ہوا جس کا لیڈر قسطنطنیہ کا استف نسطوریوس (م 451) تھا۔ اس نے عقیدہ حلول کو حل کرنے کے لیے ایک نیا فلسفہ پیش کیا ۔ اس نے اس نئے فلسفہ میں حضرت مسیح کو دو قرار دے کر ان کے لیے دو حقیقتیں ثابت کیں ۔ ایک انسانی اور ایک خدائی ، نسطوریوس نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا بھی تھے اور انسان بھی ۔ اور ان کی ذات میں دو شخصیتیں جمع تھیں ۔ ایک بیٹا اور ایک مسیح ، ایک ابن اللہ اور ایک ابن آدم ۔ بیٹا خالص خدا ہے اور مسیح خالص انسان ۔ رومن کیتھولک چرچ کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک شخصیت اور دو حقیں “ ہیں ، اس کے برعکس نسطوریوس کا یہ نظریہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ” دو شخصیتیں اور دو حقیقتیں “ تھے۔ 431؁ء میں جو شہر افس میں مجلس منقعد ہوئی تھی وہ اس فرقہ کے عقائد سے متعلق تھی ۔ نسطوریوس نے بےدینی کے خلاف ایک زبردست مہم جاری کی۔ اور آریوسی کے عقائد رکھنے والوں پر ظلم و تشدد کیا ۔ نسطوریوس پر کئی بار مقدمہ چلایا گیا اور اسے جلاوطن بھی کیا گیا ۔ جلا وطنی کی حالت میں وفات پائی۔ رومی حکومت کے زیر نگین علاقوں میں اس فرقہ کو بالکل نیست و نابود کردیا گیا ۔ البتہ عرب ، شام اور مصر میں اس فرقہ نے ترقی کی۔ بعد میں یہ فرقہ کئی شاخوں میں بٹ گیا ۔ ایک فرقہ رومن کیتھولک سے منسلک ہوگیا جو کا لدی عیسائی کہلائے۔ دوسرا اپنے قدیم عقائد اور خیالات پر قائم رہا۔ نسطوریوس کے خلاف جو جرم عائد کیا گیا تھا اس کا خلاصہ ڈاکٹر بیدون پیکر (Bethune Baker) ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : ” اس نے ہمارے خداوند کی خدائی اور انسانی حقیقتوں میں اس قدر امتیاز برتا کہ وہ دو مستقل وجود بن گئے۔۔۔ اس نے حکمۃ اللہ کو یسوع اور ابن اللہ کو ابن آدم سے الگ شخصیت قرار دے دیا “۔ 10۔ یعقوبی فرقہ چھٹی صدی میں یعقوبی فرقہ (Jacobie Church) ظاہر ہوا ۔ جس کے اثرات اب تک شام اور عراق میں ملتے ہیں ۔ اس فرقہ کا بانی یعقوب بروعانی (Jocobie Baradeus) تھا۔ اس کا نظریہ اریوس اور نسطوریوس دونوں کے برعکس تھا۔ نسطوریوس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وجود میں دو شخصیتوں کا قائل تھا۔ یعقوب نے کہا کہ حضرت مسیح میں صرف ایک شخصیت اور ایک حقیقت پائی جاتی تھی اور وہ بھی خدائی وہ صرف خدا تھے۔ گو ہمیں انسان کے لباس میں نظر آتے تھے۔ دی ورلڈ فیملی انسائیکلو پیڈیا میں اس فرقے کا نظریہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ’ ’ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسیح میں خدائی اور انسانی حقیقتیں کچھ اس طرح متحد ہوگئی تھیں کہ وہ صرف ایک حقیقت بنی گئی تھی۔ “ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ص 2628) 11۔ وحدت الفطری فرقہ (Monophy sites) اس فرقہ کا بانی یوٹیکس تھا ۔ جو قسطنطنیہ کے راہبوں کا سردار تھا۔ اس فرقہ کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح میں انسانی اور الوہی دو فطرتیں نہیں پائی جاتی تھیں ۔ یوٹیکس نے شہنشاہ تھیوڈرسیس کو لکھا کہ کلیسا کی ایک باقاعدہ کونسل منعقد کرے جس میں اس مسئلہ کا تصفیہ ہوجائے ، چناچہ شہنشاہ نے اس مسئلہ کے تصفیہ کے لیے ایفیس کے مقام پر ایک کونسل بٹھائی ، جس کو میں یو ٹیکس کے دلائل اور براہین زیادہ وزنی تھے۔ اس کونسل نے اسکے حق میں یہ فیصلہ کردیا ، لیکن اس کونسل کے فیصلہ کو عوام نے مقبولیت کی نظر سے نہ دیکھا ، کیونکہ مغربی اور مشرقی کلیسا کی اکثریت وحدت الفطری عقیدہ کے خلاف تھی ۔ اس عقیدہ کے خلاف شدید ردعمل ہوا ، چناچہ اس فرقہ کے لوگوں پر شدید ظلم و ستم ہونے لگے ۔ دریں اثناء شہنشاہ تھیوڈرسیس بھی فوت ہوگیا ۔ نئے شہنشاہ نے پوپ لیو کے ایماء پر چالسڈن کی مجلس منعقد کی جس نے یہ اعلان کیا ۔ ” ہم اس یسوع کو مانتے ہیں جو خدا کا بیٹا تھا۔ جو اپنی الوہیت اور انسانیت دونوں میں یکساں کامل تھا۔ جو صحیح معنوں میں خدا اور حقیقی معنوں میں انسان تھا۔ ایک معقول روح اور جسم کا حامل تھا۔ جو اپنے باپ کے ساتھ ہم جوہر تھا اور اپنی انسانیت کے باعث ہم سب کے ساتھ بھی ہم جوہر تھا جو ہر پہلو سے ہمارے مماثل تھا۔ گناہوں کی آلائش سے پاک تھا۔ جسے اس کے باپ نے ازل میں پیدا کیا اور بعد میں ہماری نجات کی خاطر خدا کی ماں مریم کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ ایک ہی مسیح جس کی دو غیر تقسیم پذیر فطرتیں تیں ھ اور ان فطرتوں کے اتحاد نے ان کے باہمی امتیاز میں کوئی فرق پیدا نہیں کیا تھا۔ بلکہ ہر فطرت کی خاصیت اپنی جگہ مستقلاً ایک واحد شخصیت میں موجود تھی اور جسے دو شخصیتوں میں منقسم نہیں کیا جاسکتا تھا بلکہ ایک ہی بیٹا ، ایک ہی مولود اور کلمہ الٰہی تھا “۔ اس کونسل کے فیصلہ کے باوجود وحدت الفطری عقیدہ مصر میں پھلا پھولا اور مصر کے پادریوں نے اس عقیدہ کی تائید کی ۔ بعد میں وحدت الفطری فرقہ پانچ شاخوں میں تقسیم ہوگیا : اول شام کے یعقوبی ، دوم مصر کے قبطی سوم اہل حبشہ ، چہارم آرمینی عیسائی اور پنجم لبنان کے میرونی (Maronite) 12۔ وحدت الارادی فرقہ مجلس چالسڈن کی رو سے یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح دو مختلف فطرتوں الوہی اور انسانی حامل تھے۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ مسیح کی فطرت کی مانند اس کے ارادے دو تھے یا ایک ؟ الوہی ارادہ اور انسانی ارادہ ۔ ہر قل نے یہ مسئلہ اس وقت اٹھایا جب وہ ایران کو فتح کر کے واپس لوٹا ۔ بطریق سبر جیس نے پوپ ہنوریس کو شہنشاہ ہر قل کے ایماء پر وحدت الارادی عقیدے پر راضی کرلیا اور شہنشاہ نے سرکاری طور پر اس عقیدے کا اعلان کروا دیا اور قسطنطنیہ کی کونسلوں میں اس عقیدے کی توثیق کردی ۔ سرکاری تائید کے باوجود مشرقی کلیسا نے اس عقیدہ کی مخالفت کی اور روما کے لاٹ پادری نے اس عقیدہ کو باطل قرار دیا۔ ہر قل کے پوتے شہنشاہ کا نسٹی نیس ثانی نے دونوں کلیسائوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی اور سرکاری عقیدے کو منسوخ کردیا اور دونوں عقیدوں کو جائز قرار دیا ۔ پوپ مارٹن نے اس کی مخالفت کی ۔ شہنشاہ نے پوپ کو گرفتار کروا کر قسطنطنیہ بھجوا دیا ۔ ایک مدت تک یہ مسئلہ مشرقی اور مغربی کلیسائوں کے درمیان وجہ نزاع بنا رہا ۔ آخر کار کا نسٹی نیس کے جانشین قسطنطین نے اپنے دارالحکومت میں کلیسا کی چھٹی مجلس منعقد کی ، جس میں پوپ بھی ٹریک ہوا ۔ اس مجلس نہ فیصلہ کیا کہ مسیح کے اندر دو ارادے اور قوتیں کار فرما تھیں اور یہ دونوں ایک واحد شخصیت میں ایک دوسرے کے موافق تھیں ۔ مسیح کا انسانی ارادہ اس کے الوہی ارادے کے تابع تھا جس طرح مسیح کا جسم باوجود الوہیت کے گوشت پوست کا بنا ہوا تھا اسی طرح گوشت پوست کے جسم میں کار فرما ارادی قوت بھی ایک الٰہی قوت تھی۔ 13۔ آئی کو نولاسٹک فرقہ گرجوں میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی مورتیوں کی پرستش جاری ہوگئی ۔ اس فرقہ نے بت پرستی کے خلاف آواز بلند کی ۔ آئی کو نو لاسٹک (Iconoclastic) یونانی لفظ ہے ، جس کے معنی بت شکن کے ہیں ۔ اس تحریک کا آغاز مشرقی کلیسا سے لیوسوم کی زیر سرپرستی ہوا۔ 14۔ پلیگوس فرقہ اس کا بانی ملک و نیس کا عابد عیسائی تھا۔ وہ مسیح کے کفارہونے کا اور پولوس نامہ جات کے مضامین کا منکر تھا ۔ اس کے پیرو ایشیاء اور فرانس میں ہیں ۔ 15۔ یونانی ٹیرن فرقہ اس فرقہ کے لوگ مسیح کی الوہیت ، ابنیت اور تثلیث کے منکر تھے اور انجیل متی کے باب اول ، دوم کو الحاقی مانتے تھے۔ اس فرقہ کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔ ہندوستان میں ان کا چرچ بھی ہے۔ 16۔ ساسینسن فرقہ اس کا بانی موسینس تھا۔ یہ بھی یونی ٹیرن کے قریب قریب عقیدہ رکھتے ہیں۔ 17۔ کرنتھیون کا فرقہ اس کا بانی کرنتھسیس اول صدی عیسوی کے قریب تھا۔ اسکے یہ اقوال تھے۔ ” مسیح کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بزرگ خدا جو سب سے بڑا ہے بالکل نامعلوم تھا اور بڑی بڑی روحوں کے ساتھ بلند ترین آسمان پر جس کا نام پلیروما ہے رہا کرتا تھا۔ اس نے پہلے بیٹا پیدا کیا اور اس سے کلمہ پیدا ہوا جو بیٹے سے درجہ میں کم تھا۔ مسیح اگرچہ اور روحوں سے بزرگ تر ہے مگر وہ روحیں اس سے بھی بزرگ تر ہیں جن میں سے ایک کا نام زدی یعنی زندگی اور دوسرے کا نام فوس یعنی روشنی ہے اور ان روحوں سے اور چھوٹی چھوٹی روحیں پیدا ہوئیں ۔ ان میں سے ایک خاص روح ہے جس کا نام ڈیمیرگس تھا اور اس عالم محسوس کو اس مادہ سے جو ہمیشہ رہنے کے قابل ہے بنایا ۔ یہ ڈیمرگس اس خدا سے جو پلیروما پر ہے ناواقف تھا اور یہ ارواح غیر محسوس ہے مرتبہ میں کمتر تھا اور یہی اسرائیلیوں کا خدا خدا ہے جس نے موسیٰ کو ان میں بھیجا اور ان کو شریعت دی کہ اس پر ہمیشہ عمل کریں کہ عیسیٰ ایک انسان تھا جو پاکیزگی اور انصاف میں ممتاز تھا اور وہ یوسف اور مریم کا حقیقی بیٹا تھا اور جب عیسیٰ بپتسما پا چکا تو مسیح اس پر کبوتر کی صورت میں اترا اور نامعلوم خدا کو اس پر ظاہر کیا اور اس کو معجزے دکھانے کی قوت بخشی۔ اور یوحنا بپتسما دینے والے میں بھی روشنی کی روح اسی طرح داخل ہوئی تھی اور اس لیے بعض باتوں میں یوحنا عیسیٰ سے بڑھ کر تھا اور جب عیسیٰ پر مسیح نازل ہوا تو عیسیٰ یہودیوں کے خدا ڈیمیرگس سے مقابل ہوا ۔ اور اسی خدا کی ترغیب سے یہودیوں کے سردار نے عیسیٰ کو پکڑ کر صلیب پر کھینچا ۔ اور جب عیسیٰ کو صلیب پر کھینچنے کے لیے گرفتار کر کے لے چلے تب مسیح تو آسمان پر صعود کر گیا ، عیسیٰ ذلت اور درد ناک تکلیف سے مارا گیا “ (رومن مفتاح ال کتاب ص 152) 18۔ کو لنزیدینس کا فرقہ اس فرقہ کے لوگ مریم کو تثلیث میں داخل کرکے پوجتے تھے اور ان کے لیے ایک قسم کی روٹی بھی تیار کرتے تھے۔ میٹر یا مائٹ ، اس گروہ کے لوگ روح القدس کی بجائے مریم کو تثلیث میں داخل کرتے تھے اور نائس کونسل کے بعض لوگ یہی اعتقاد رکھتے تھے۔ فرقہ قوسیہ کا بھی یہی اعتقاد تھا۔ 19۔ باسلیدی فرقہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا بلکہ شمعون قرینی ان کے عوض گرفتار کیا گیا اور صلیب پر چڑھایا گیا ۔ 20۔ گناستی فرقہ ’ ’ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دنیا مادہ سے پیدا ہوئی ہے اور مادہ کے لیے شرارت اور معصیت ضرور ہے چونکہ مسیح مادہ سے پیدا نہیں ہوا تھا اس لیے مصلوب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا جسم نہ تھا “۔ ( تواریخ کلیسا ص 56) 21۔ یونانی فرقہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ روح القدس صرف باپ سے نکلتی ہے نہ کہ بیٹے سے حالانکہ پروٹسٹنٹ فرقہ کے نزدیک یہ صریحی کفر ہے اور نیز پوپ کو بےخطا بھی نہیں سمجھتے تھے۔ 22۔ ارمنی فرقہ اس فرقہ کے لوگ کفارہ مسیح کو کافی نہیں مانتے بلکہ مریم کے تہوار میں قربانی بھی کرتے تھے اور اپنے اقارب کی طرف سے بھی قربانیاں کرتے تھے۔ 23۔ سورمن فرقہ یہ تمام عیسائیوں کو کافر و بےدین سمجھتے تھے اور ہر شخص کے لیے بارہ بیویوں تک جائز سمجھتے تھے اور ان کے پیشوا کے پاس پچاس بیویاں رہتی ہیں ۔ یہ لوگ امریکہ کی دور سرحد پر آباد ہیں جن کی تعداد تقریباً اسی ہزار بیان کی جاتی ہے۔ 24۔ پر کشبیس کا فرقہ یہ فرقہ 200؁ء میں یونان میں پیدا ہوا ۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بیٹا اور روح القدس خدا کی ذات سے بطور قوتوں کے ظاہر ہوئے ، نہ یہ کہ روح القدس بیٹے سے پیدا ہوا۔ 25۔ ناصریوں کافرقہ وہ صرف عبرانی انجیل متی کو مانتا تھا اور وہ اس انجیل مروج سے مختلف تھی ۔ ان کی کتب میں مرقوم ہے کہ مسیح نے گائے کے گوشت کے پرند بنا کر ان میں پھونک ماری اور وہ اڑ کر چلے گئے اور وہ مسیح کے مصلوب ہونے کے منکر تھے۔ 26۔ نجرانی نصاریٰ یہ لوگ مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس فرقہ کے لوگ تثلیث پر رسول کریم ﷺ سے مباہلہ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ( اردو تاریخ کلیسا ص 154) 27۔ ارجن کا فرقہ ارجن 223؁ء میں مدرسہ سکندریہ کا مدارس تھا۔ اس زمانہ میں جعلی کتب تصنیف کر کے حواریوں وغیرہ کے نام پر شائع کی جاتی تھیں۔ مجلس نائیس میں پادریوں کو شادی کی ممانعت ہوتی تھی تو ارجن خوجہ بن گیا ۔ اس کے عقائد افلا طونی فلسفہ اور عیسوی مذہب سے مرکب تھے۔ یہ لوگ روح کی تاثیر کے قائل نہ تھے ، صرف اپنے مجاہدہ کو ذریعہ نجات جانتے تھے۔ 28۔ افلاطونی فرقہ دوسری صدی کے اختتام پر اسکندریہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا جس پر فلسفہ افلاطون کا اثر تھا۔ جو مسائل عیسوی مذہب کے ان کے عقل کے بر خلاف ہوتے تھے ان سب کا انکار کرتے تھے۔ اموینس سک اس اس گروہ کا سب سے بڑا عالم تھا ، جس نے تیس برس تک اپنے عقائد کی تدریس کی ۔ 29۔ تاتیاں کا فرقہ : انکراتیس کا فرقہ ان دونوں فرقوں کے لوگ ریاضت اور چلہ کشی کو ذریعہ نجات سمجھتے تھے۔ عیسائیوں کے زندیک یہ لوگ مردود اور مقہوم شمار ہوتے تھے۔ یہ لوگ خدا ترس اور پرہیز گار ہوتے تھے۔ ظہوراسلام سے قبل اسلام اور عرب میں یہ لوگ پائے جاتے تھے۔ 30۔ تہیر ڈوٹس فرقہ یہ فرقہ دوسری صدی عیسوی کے اختتام پر پیدا ہوا ۔ اس گروہ نے شریعت موسوی کو ترک کردیا اور صرف اس بات کے قائل تھے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو محض انسان جانتے تھے۔ 31۔ پوئی کا فرقہ یہ فرقہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ جانے کے منکر تھے۔ (اردو تواریخ کلیسا ص 202) 32۔ بلیوس کا فرقہ اس فرقہ کا یہ اعتاد تھا کہ خدا کی ذات کا ایک جزء جدا ہو کر حضرت مسیح میں شامل ہوگیا اور اسی طرح دوسرا جزء الگ ہو کر روح القدس بن گیا ۔ اسی لیے وہ اس بات کے قائل تھے کہ جو مصلوب ہو اور وہ دذراصل باپ خدا تھا نہ بیٹا۔ 33۔ بالدی اور پالی فرقہ یہ دونوں فرق ایک ہزار اسی یا نواسی عیسوی میں پیدا ہوئے جب کہ پروٹسٹنٹ فرقہ کا ظہور بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ دونوں فرقے رومی کلیسا سے عقیدہ میں مخالف تھے۔ رومی عیسائی دونوں کو واجب القتل سمجھتے تھے۔ 34۔ ارسیو فرقہ اس فرقہ کا یہ اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مریم سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ پچاس برس کی عمر میں ہو کر غیب سے اس دنیا میں آگئے۔ یہ لوگ عہد قدیم کی کسی ایک کتاب کو بھی نہیں مانتے ۔ نہ کسی انجیل کو مگر انجیل لوقا کو اور اس کے بھی اول باب کو جن میں حضرت مسیح کا حضرت مریم سے پیدا ہونا لکھا ہے الحاقی کہتے تھے۔ 35۔ نزاری فرقہ یہ فرقہ اول صدی عیسوی میں پیدا ہوا ۔ اس فرقہ کے لوگ پولوس اور اس کے خطوط کو نہیں مانتے بلکہ اس کو مکار سمجھتے تھے۔ عیسائیت کے عقائد کے بنیادی اختلافات کی وجہ سے بیشمار فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ اب دنیا میں جو عیسائی پائے جاتے ہیں ان کی اکثریت تثلیت کے معتقد ہیں۔ 36۔ تین کلیسائیں 1۔ مشرقی کلسا جو یونانی کلیسا (Greek Orthodox) کہلاتی ہے ان میں چودہ مختلف کلیسا شامل ہیں ۔ مثلاً کلیسائے روس ، کلیسائے یونان اور کلیاسائے بلقان وغیرہ۔ 2۔ رومن کیتھولک (Roman Catholic) میں آسٹریا ، فرانس وغیرہ شامل ہیں۔ 3۔ پر اٹسٹنٹ یعنی رومی کلیسا کی منکر جماعت ۔ اس تحریک کے رہنما جرمنی میں لوتھر (Luther) سوئٹیزر لینڈ میں کیلون (Clivin) اور زونگلی (Zwingli) اور سکاٹ لینڈ میں جان ناکس (John knox) گزرے ہیں ۔ ان میں کلیسائے انگلستان اور جرمن خاص طور پر مشہور ہیں ۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹوں کے اختلافات ہولناک اور طویل مذہبی جنگوں پر منتج ہوئے ، جن کے باعث یورپ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا ۔ تمام عیسائی ممالک ناقابل بیان مظالم ، نفرت انگیز جذباتیت ، بربریت اور بہمیت کا جو مذہبی ایذا رسانی کا لازمہ ہیں شکار ہوگئے۔ اگرچہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہر دو تثلیث ، الوہیت مسیح ، موروثی گناہ اور کفارہ کے عقیدہ پر متفق ہیں ، پھر بھی ان میں مندرجہ ذیل بنیادی اور اصولی اختلافات ہیں : (1) رومن کیتھولک کلیسا کا یہ اعتقاد ہے کہ خدا نے اپنے منشاء کو بائبل میں ظاہر کیا لیکن اس کے اظہار اور ابلاغ کا اختیار صرف اسی کلیسا کو ہے اور کلیسائی احکام بےخطا اور حقیقت مطلق کے علمبردار ہیں بلکہ خدا کے خاص احکام ہیں ۔ پروٹسٹنٹ اس عقیدہ کے خلاف اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف بائبل ہی احکام الٰہیہ کی آئینہ دار ہے۔ (2) رومن کیتھولک کا یہ عقیدہ ہے کہ مخصوص شدہ پادری خدا اور انسان کے متوسل ہیں اور انہیں اعتراف گناہ اور عفو گناہ کا اختیار ہے اور بشپ کی نافرمانی مسیح کی نافرمانی کے برابر ہے۔ پوپ یہ حیثیت کلیسائی سردار کے معصوم ، گناہ اور خطا سے مبرا ہے۔ وہ مختلف عقیدے اور اصول وضع اور رائج کرنے کا مجاز ہے اور کسی کو اس کے اعمال اور اقوال پر رائے زنی کی مجال نہیں ۔ پروٹسٹنٹ پوپ اور پادریوں کے اس الٰہی مرتبہ کے معتقد نہیں ۔ لیکن ان کے مختلف فرقوں میں پادریوں سے متعلق رویہ میں کوئی ہم آہنگی اور توازن نہیں۔ (3) رومن کیتھولک مقدسہ مریم کو خدا کی ماں ٹھہرا کر اس کی پرستش کرتے اور اس کے مجسمے بنا کر ان سے دعائیں کرتے ہیں ۔ پروٹسٹنٹ بت پرستی کے خلاف ہیں۔ (5) رومن کیتھولکوں کی کئی کلیسائی رسمیں ، تہوار اور دن ہیں ۔ ان کا ایمان ہے کہ یسوع مسیح مقدس عشائے ربانی میں بذات ِ خود حاضر ہوتا ہے اور روٹی اور شیرہ ٔ انگور حقیقتاً مسیح کے بدن اور خون میں بدل جاتے ہیں ۔ پروٹسٹنٹوں کی رسمیں بجزبرطانیہ کی کلیسائے اعظم کے سادہ ہیں اور یہ صرف بپتسما کے معتقد ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ روٹی اور شیرہ انگور مسیح میں تبدیل نہیں ہوتے۔ (6) رومن کتھولک کلیسا اپنی عبادت میں مسیح ، مقدسہ مریم اور مختلف ولیوں کے بت رکھتے ہیں ۔ پروٹسٹنٹ اس کو مذموم گردانتے اور توریت کے پہلے حکم کے تحت بت پرستی میں شمار کرتے ہیں۔ (7) مقتدر پروٹسٹنٹ فرقے لو تھرن اور کیلونیسٹ سمیت تقدیر اور نجات بالا ایمان کے معتقد ہیں۔ مسیحیت کے باطل عقائد اور ان کا رد عقیدہ حلول تجسم : حلول تجسم کا نظریہ سب سے پہلے انجیل یوحنا میں ملتا ہے۔ یوحنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سوانح کا آغاز ان الفاظ سے کرتا ہے : ” ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا “۔ ( یوحنا : 1 ، 3) آگے چل کر لکھتا ہے : ” اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال “۔ ( یوحنا 1 : 14) عیسائی مذہب میں ” کلام “ ابن اللہ سے تعبیر ہوتا ہے جو خود مستقل خدا ہے ۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفت کلام نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انسانی جامہ میں اوتار لیا ۔ تاکہ بنی نوع انسان پر اپنی محبت ظاہر کرے اور اسے ازلی عذاب سے نجات دے۔ مارس ریلٹن نے اس عقیدے کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے : کیتھولک عقیدے کا کہنا ہے کہ وہ ذات جو خدا تھی خدا کی صفات کو چھوڑے بغیر انسان بن گئی ۔ یعنی اس نے ہمارے جیسے وجود کی کیفیتا اختیار کرلیں جو زبان و مکان کی قیود میں مفید ہے اور ایک عرصہ تک ہمارے درمیان رہی۔ اس عقیدہ کی رو سے حضرت مسیح بیک وقت خدا بھی تھے اور انسان بھی ۔ الفریڈای گارو اس عقیدہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے : ” وہ ( حضرت مسیح (علیہ السلام) حقیقتاً خدا بھی تھے اور انسان بھی ۔ ان کی ان دونوں حیثیتوں میں سے کسی ایک کے انکار یا ان کے وجود میں دونوں کے متحد ہونے کے انکار ہی سے مختلف بدعتی نظریات پیدا ہوء۔۔ انہانے شیس نے آریوس کے مقابلے میں اس نظریے کی پر زور حمایت کی تھی ، لہٰذا منظور شدہ فارمولا یہ ہے کہ حضرت مسیح کی ایک شخصیت میں دو ماہیتیں جماع ہوگئی تھیں “۔ (انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس ص 586 ھ مقالہ ” عیسائیت “ ) انسانی حیثیت سے حضرت مسیح خدا سے کم رتبہ تھے۔ اسی لیے انہوں نے فرمایا کہ ” باپ مجھ سے بڑا ہے “ (یوحنا : 14 : 28) خدائی حیثیت سے وہ ” باپ کے ہم رتبہ ہیں “۔ یوحنا میں آپ کا یہ قول ہے ” میں اور باپ ایک ہیں “ ( یوحنا 10 : 30) آکسٹائن لکھتا ہے کہ : ” چونکہ خدا نے بندے کا روپ اس طرح نہیں اپنایا تھا کہ اپنی اس خدائی حیثیت کو ختم کر دے۔ جس میں وہ باپ کے برابر ہے۔۔۔ لہٰذا ہر شخص اس بات کو محسوس کرسکتا ہے کہ یسوع مسیح اپنی خدائی شکل میں خود اپنے آپ سے افضل ہیں اور اسی طرح اپنی انسانی حیثیت میں خود اپنے آپ سے کمتر بھی ہیں “۔ عقیدہ ٔ حلول کی اساس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وہ اقوال ہیں جن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے روحانیت پر زوردیا اور کہا کہ ” خدا کی بادشاہت تمہارے اندر ہے “ ( الوقا 21/12) ’ ’ ان اقوال کی بناء پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والے آپ کو خدا ماننے لگے “ ۔ ” وہ غیر مرئی خدا کی صورت ہے “ (کلیسون 15/1) ” یسوع مسیح خدا کی صورت پر تھا “۔ (فلپیون 6/2) حضرت مسیح ہی خدائی صورت پر پیدا نہیں کیے گئے بلکہ کل انسان کو ” خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا اور اپنی مانند بنایا “۔ (پیدائش باب 1 آیات 26 ، 27) حضرت مسیح (علیہ السلام) نے نہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ابن اللہ ہونے کا ، ان الفاظ کی وضاحت اور تشریح ازروئے بائبل بعد میں آئے گی۔ مسیح نے خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے خدایا ابن اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ یہ الفاظ انہی معنوں میں استعمال ہوئے جن معنوں میں تمام انبیاء (علیہ السلام) اور بزرگوں پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مسیح نے یہودیوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ میں ابن اللہ ہوں ۔ یہودیہ سن کر طیش میں آگئے اور انہوں نے ارادہ کیا کہ مسیح پر پتھرائو کریں ۔ مسیح نے کہا کہ تم مجھے کس قصور پر سزا دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ تو انسان ہو کر اپنے تئیں خدا بناتا ہے ، اس کفر بکنے کی ہم سزا دیتے ہیں ۔ مسیح نے جواب میں کہا : کیا تمہاری شریعت میں نہیں لکھا کہ میں نے کہا کہ تم خدا ہو جب کہ اس نے انہیں جن کے پاس کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو “ ۔ ( یوحنا : 10 : 24 ، 36) حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ بیان ابن اللہ ہونے کی حقیقت کو واضح کردیتا ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے پاس خدا کا کلام آیا یعنی یہود خدا ہے۔ ابن اللہ کا لفظ بائبل میں نہایت ہی وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عہد نامہ کی رو سے کئی قسم کے لوگ خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں۔ (1) آدم (علیہ السلام) خدا کے بیٹے لوقا 3 باب 38 (2) شیث (علیہ السلام) خدا کے بیٹے پیدائش 6 باب 2 (3) اسرائیل (علیہ السلام) خدا کے بیٹے خروج 4 باب 22 (4) افرائیم (علیہ السلام) خدا کا پلوٹھا بیٹا یرمیاہ 3 باب 9 (5) دائود (علیہ السلام) خدا کے بڑے بیٹے زبور 29 : 26 ، 27 (6) سلمان (علیہ السلام) خدا کے بیٹے تاریخ 22 باب 9 ، 10 ، 28۔ باب 26 (7) قاضی مفتی خدا کے بیٹے زبور 82 ، 6 (8) تمام بنی اسرائیل خدا کے بیٹے رومی 9 باب 4 (9) تمام حواری خدا کے بیٹے یوحنا 3 باب 2 (10) سب عیسائی خدا کے بیٹے ( بلکہ سب مومن) یوحنا 3 باب 9 (11) سب یتیم خدا کے بیٹے زبور 68 ، 5 (12) سب خاص و عام خدا کے بیٹے متی 6 باب 6 ، 18 ، 7 باب 11 پیدائش 6 باب 4 (13) اشراف خدا کے بیٹے پیدائش 9 باب 2 (14) فرشتے خدا کے بیٹے دانیال 2 : 28 ، زبور 43 : 7 ، ابواب 1 : 6 ، ایوب 38 : 7 ان تمام مقامات میں ابن اللہ کا کلمہ صلحاء اور نیک لوگوں پر بولا گیا ہے ۔ ان میں نہ کوئی خدا ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ، لہٰذا ان محاورات کی رو سے مسیح ابن اللہ بھی صرف انسان ہی ہیں۔ ابن اللہ اور عہد نامہ جدید عہد نامہ جدید میں کلمہ ” ابن اللہ “ (خدا کا بیٹا) ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوتے تھے۔ متی 5 : 9 میں ہے : ” مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے “۔ لوقا 6 : 35 میں ہے : ” مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو ، تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خدا کے بیٹے ٹھہرو گے “۔ یوحنا 1 : 12 میں مذکور ہے : لیکن جنہوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند کا حق بخشا۔ یوحنا کا پہلا خط 3 باب 1 : دیکھو کیسی محبت باپ نے ہم سے کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلا دیں ۔ اے پیارو ! ہم خدا کے فرزند ہیں اور ہنوز ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔ پر ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو ہم اس کی مانند ہوں گے۔ اور یوحنا کے 4 باب میں 7 میں کہا ہے : ہر ایک جو محبت رکھتا ہے سو خدا سے پیدا ہوا ہے۔ اور یوحنا کے پہلے خط 3 باب 9 میں ہے : ہر ایک جو خدا سے پیدا ہوا ہے گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اسی میں رہتا ہے اور وہ گناہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ خدا سے پیدا ہوا ہے ، اسی سے خدا کے فرزند اور شیطان کے فرزند ظاہر ہیں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بشریت مندرجہ بالا محاورات کی رو سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ عہد نامہ میں ابن اللہ کا لفظ مجاز کے طور پر استعمال ہوا ہے ، نہ کہ حقیقی معنوں میں ، عہد نامہ جدید میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ابن انسان ہونا بھی ثابت ہے : 1۔ متی باب 1 : یسوع ابن دائود بن ابراہام۔ 2۔ متی 11 باب آیت 19 : انسان کا بیٹا کھاتا پیتا آیا۔ 3۔ مٹی 16 باب 13 : میں جو ابن آدم ہوں ، انسان ہوں۔ 4۔ متی 8 باب 20 : ابن آدم مسیح ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) نے چاروں انا جیل میں 70 مرتبہ اپنے آپ کو ابن آدم کہا ہے اور کہلوایا ۔ انسائیکلو پیڈیا بیلیکاص 4696 پر لکھا ہے کہ : ” سنا پٹک اناجیل (متی ، لوقا ، مرقس) میں مسیح کا کوئی قول ایسا نہیں جس میں آپ نے خصوصیت سے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہو “۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) میں خدا کی صفات نہیں تھیں۔ پہلی صفت :۔ اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے اور ذرہ ذرہ کا اس کا علم ہے۔ یہ صفت حضرت مسیح (علیہ السلام) میں پوری موجود نہیں ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) خود فرماتے ہیں : ” لکن اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا ، نہ آسمان کے فرشتے ، نہ بیٹا ، مگر صرف باپ “۔ (متی 24 : 36 اور مرقس 13 : 32) ” تو ہاں تو ہی اکیلا سارے بنی آدم کے دلوں کو جانتا ہے “۔ ( اسلاطین 39/8) دوسری صفت : اللہ تعالیٰ معبود اور سمیع الدعا ہے ، لیکن حضرت مسیح (علیہ السلام) خود اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس سے دعائیں مانگتے ۔ متی 11 ، 25 میں ہے : ” اس وقت یسوع نے کہا : اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند میں تیری حمد کرتا ہوں “۔ متی 26 باب آیت 38 ۔ 44 میں ہے کہ مسیح (علیہ السلام) خود جنگلوں میں جا کر دعا مانگا کرتے تھے بلکہ حواریوں کو کہا کرتے تھے کہ اٹھو میرے لیے خدا سے دعا کرو۔ لوقا 16/24/22 میں ہے کہ مسیح نے دعا مانگی کیا خدا بھی کسی کی دعا کا محتاج ہے ؟ تیسری صفت :۔ خدا قیوم ہے ، مگر مسیح (علیہ السلام) قیوم نہیں تھے ، متی 20 باب 23 میں ہے : دائیں بائیں بٹھانا میرا کام نہیں ، مگر اسی کو جن کے لیے میرے باپ سے تیار کیا گیا ہے “۔ چوتھی صفت :۔ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی ۔ مگر انجیل کہتی ہے کہ مسیح پر موت وارد ہوئی اور تین دن تک مردہ پڑا رہا۔ ( متی 17 : 23) ” جب ہم کمزور ہی تھے تو عین وقت پر مسیح بےدینوں کی خاطر موا “۔ ( رومیوں 6/5) ” ہمارے باپ دادوں کو خدا نے یسوع کو جلایا جسے تم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا “۔ ( اعمال 30/5) پانچویں صفت :۔ اللہ تعالیٰ کی صفت (لا تدرکہ الابصار) ہے۔ مسیح رحم مادر میں ایک عرصہ رہنے کے بعد پیدا ہوئے اور پھر ” لڑکا بڑھتا اور قوت پاتا گیا اور حکمت سے معمور ہوتا گیا اور خدا کا فضل اس پر تھا “۔ ( لوقا 40/2) انہوں نے خود کہا : ” لومڑیوں کے بھٹ میں سوتے اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے ، مگر ابن آدم کے لیے سر دھرنے کی جگہ بھی نہیں “۔ ( الوقا 58/9) چھٹی صفت :۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ( لا تاخذہ سنۃ ولا نوم) یعنی وہ نیند اور غفلت سے بری ہے۔ مگر انجیل سے یہ بات ثابت ہے کہ مسیح پر نیند کا غلبہ ہوا کرتا تھا۔ چناچہ ایک دن مسیح (علیہ السلام) حواریوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے کہ اتنے میں بڑے زور و شور سے طوفان آیا مگر مسیح نہ جاگا ۔ جب حواریوں نے جگایا تب ان کو ہوش آیا۔ ( الوقا 8 باب آیت 23 ، 24) ساتویں صفت :۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے مگر مسیح (علیہ السلام) کا قوم ہے کہ میں اپنے آپ کو کچھ نہیں کرسکتا ۔ ( یوحنا 5 باب آیت 30) ” ہاں وہ کمزوری کے سبب سے صلیب دیا گیا لیکن قدرت کے سبب زندہ ہے “۔ ( کر فتھیون 14/13) آٹھویں صفت :۔ اللہ تعالیٰ ( الملک) یعنی دونوں جہان کا بادشاہ ہے۔ مگر مسیح (علیہ السلام) کو اقرار ہے کہ میری بادشاہت اس جہان میں نہیں ک۔ ( یوحنا 18 باب آیت 36) نویں صفت :۔ اللہ تعالیٰ غنی یعنی کسی دوسرے کی مدد کا محتاج نہیں ۔ مگر مسیح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا : ایلی ایلی لما شبقتنی یعنی اے میرے خدا تو میری کیوں مدد نہیں کرتا۔ (مرقس 15 باب آیت 34) ” اور وہ محتاج تھا ، حتیٰ کہ ایک مرتبہ اسے گدھی اور اسکے بچے کی بھی احتیاج پیدا ہوئی “۔ ( متی 3/21) دسویں صفت :۔ اللہ تعالیٰ ( السلام) یعنی ہر ذلت اور رسوائی سے پاک ہے ، مگر عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح کے منہ پر یہودیوں نے تھوکا۔ اس کے منہ پر طمانچے مارے۔ سر پر کانٹوں کا تاج پہنایا ۔ کوڑے مارے اور بالآخر نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ صلیب پر لٹکادیا۔ گیارہویں صفت :۔ اللہ تعالیٰ ( وراء الوری) ہستی ہے اور کوئی اس کی آزمائش نہیں کرسکتا ، نہ نیکی سے نہ بدی سے ، چناچہ یعقوب رسول کہتا ہے : ’ ’ یہ تو خدا بدی سے آزمایا جاسکتا ہے اور وہ کسی کو آزماتا ہے “ (13/1) انجیل سے یہ ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کو چالیس دن تک شیطان آزماتا رہا : ” چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا اور ابلیس اسے آزماتا رہا … جب ابلیس تمام آزمائش کرچکا تو کچھ عرصے کے لیے اس سے جدا ہوا “۔ ( الوقا 4 : 1 ، 13) کفارہ اور موجودہ مسیحیت کفارہ موجودہ عیسائیت کی عمارت کا بنیادی پتھر ہے۔ اس کے لفظی معنی ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں ۔ اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ یسوع مسیح نے صلیب پر جان دے کر تمام بنی آدم کے گناہوں کو چھپا لیا ہے اور ان کے لیے نجات کا موجب بن گئے ہیں۔ عیسائیوں کے نزدیک ہر انسان پیدائشی گناہ گار ہے۔ آدم اور حوا نے جو گناہ کیا وہ وراثتاً ہر شخص کی فطرت میں چلا آ رہا ہے ، جس کی وجہ سے ہر شخص گناہ گار ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک نیک اعمال جنت کا موجب نہیں ہو سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ بندے کے گناہ توبہ اور استغفار سے معاف کر دے تو اس کا یہ رحم اس کے عدل کے خلاف ہے ۔ خدا رحیم ہے اور اس کا رحم چاہتا ہے کہ انسان سزا سے بچ جائے۔ پھر وہ عادل بھی ہے۔ عدل کا یہ تقاضا ہے کہ سزاضروردی جائے ۔ اب رحم اور عدل ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔ بندے کی نجات کا ہونا ضروری ہے ۔ بندوں کو نجات دلانے کے لے ایک صورت یہ نکالی کہ خدا کا بیٹا یسوع مسیح جو تمام گناہوں سے پاک اور معصوم ہے لوگوں کے تمام گناہوں کو اپنے اوپر لے کر جان کی قربانی دے اور سارے لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ بنے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں عقیدہ ٔ کفار کی شریح ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے : ” عیسائی علم عقائد میں کفارہ سے مراد یسوع کی وہ قربانی ہے جس کے ذریعہ ایک گناہ گار انسان یک لخت خدا کی رحمت کے قریب ہوجاتا ہے ۔ اس عقیدہ کی پشت پر دو مفروضے کار فرما ہیں ایک تو یہ کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے انسان خدا کی رحمت کے دور ہوگیا تھا ، دوسرے یہ کہ خدا صفت کلام ( بیٹا ) اس لیے انسانی جسم میں آئی تھی کہ وہ انسان کو دوبارہ خدا کی رحمت سے قریب کر دے “۔ ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکاص 651) رد کفارہ :۔ کیا یسوع مسیح کے سوا کوئی بےگناہ تھا ؟ عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ مسیح (علیہ السلام) کے علاوہ تمام انسان گناہ گار ہیں بائبل کی رو سے غلط ہے۔ بائبل میں بیشمار ایسے آدمیوں کا ذکر ہے جو راست باز ، مقدس اور نیک تھے۔ اول :۔ یوحنا ( یحییٰ (علیہ السلام) بائبل کہتی ہے ۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا پارسا اور بےگناہ تھا۔ (ا) ” وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہرگز نہ مے نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا “۔ ( الوقا 15/1) (ب) ” خدا وند کا ہاتھ اس پر تھا “۔ ( لوقا 66/1) (ج ) اور وہ لڑکا بڑھتا اور روح میں قوت پاتا گیا اور اسرائیل پر ظاہر ہونے کے دن جنگلوں میں رہا “۔ (لوقا 80/1) (د) ہیرو ویس یوحنا کو راست باز اور مقدس آدمی جان کر اس سے ڈرتا اور اسے بچائے رکھتا تھا “۔ (مرقس : 20/6) (ذ) یوحنا آباد اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرتا تھا۔ ( مرقس 4/1) ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت یوحنا برگزیدہ اور معصوم انسان تھے۔ دوم :۔ ہابیل حضرت آدم (علیہ السلام) کا فرزند تھا۔ انجیل کی رو سے وہ بھی راست باز اور صدیق تھا اور اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ انا جیل میں آتا ہے : (ا) تاکہ سب راست بازوں کا خون جو زمین پر بہایا گیا تم پر آئے۔ راست باز ہابیل کے خون سے لے کر برگیا ہ کے بیٹے زکریا کیخون تک جسے تم نے مقدس اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا “۔ ( متی 25/23) (ب) ” ایمان ہی سے ہابیل نے قائن سے افضل قربانی خدا کے لیے گزرائی اور اسی کے سبب اس کے راست باز ہونے کی گواہی دی گئی کیونکہ خدا نے اس کے نذروں کی بابت گواہی دی “۔ ( عبرانیوں 4/11) (ج) ” اور قائن کی مانند نہ بنیں جو اس شریر سے تھا اور جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا ، اور اس نے کس واسطے سے قتل کیا ؟ اس واسطے سے کہ اس کے کام برے تھے اور اس کے بھائی کے کام راستی کے تھے “۔ (یوحنا : 12/3) سوم :۔ دانیال (علیہ السلام) کے متعلق بائیل میں آتا ہے : (ا) بنو کدھر بادشاہ نے دانیال کے متعلق کہا : ” اس میں مقدس الہوں کی روح ہے “۔ ( دانیال 8/4) (ب) ورتب دانی ایل نے بادشاہ سے کہا : اے بادشاہ تا ابد زندہ رہ ۔ میرے خدا نے اپنے فرشتے کو بھیجا ہے اور شیر ببروں کے منہ کو بند رکھا ہے یہاں تک کہ انہوں نے مجھے ضرر نہ پہنچانا ۔ اس لیے کہ اس کے آگے مجھ میں بےگناہی پائی گئی اور تیرے آگے اے بادشاہ میں نے خطا نہیں کی “۔ (دانیال 21 ، 22/6) چہارم :۔ یوسیع۔ اس کے متعلق بائبل میں لکھا ہے ۔ ” اس نے وہ کام کیے جو خداوند کی نگاہ میں بھلے تھے اور اپنے باپ دادا کی ساری راہوں پر جاتا اور داہنے یا بائیں مطلق نہ مڑا “۔ ( 2 سلاطین 2/22) پنجم و ششم :۔ زکریا اور ان کی بیوی کے متعلق انجیل میں لکھا ہے : ” اور وہ دونوں خدا کے حضور راست باز اور خداوند کے سارے حکموں اور قانونوں پر بےعیب چلنے والے تھے “۔ ہفتم :۔ خرقیاہ بادشاہ ، اس کے متعلق بائبل میں لکھا ہے : ” اور اس نے خداوند اسرائیل کے خدا پر توکل کیا ۔ ایسا کہ بعد اس کے یہوداہ کے سب بادشاہوں میں ویسا ایک نہ ہوا اور نہ اس سے آگے کوئی ہوا تھا۔ وہ خداونڈد سے لپٹا رہا اور اس کی پیروی کرنے سے باز نہ آیا ، بلکہ اس نے اس کے حکموں کو جو خداوند نے موسیٰ کو دیئے تھے حفظ کیا اور خداوند اس کے ساتھ تھا وہ جدھر کو گیا کامیاب رہا “۔ ( 2 سلاطین 5 ، 7/18) ہشتم :۔ شمسون بن منوحہ۔ اس کی پیدائش سے پہلے فرشتہ نے ان الفاظ میں بشارت دی : ” سو اب خبردار رہیو اور مے یا نشے کی کوئی چیز نہ بیجیو۔ اور ہر ایک ناپاک چیز کے کھانے سے پرہیز کیجئو ۔ کیونکہ دیکھ تو حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی ۔ اس کے سر پر کبھی استرا نہ پھرے گا ۔ اس واسطے کہ وہ لڑکا رحم ہی سے خدا کا نذیر ہوگا … وہ لڑکا پیٹ ہی سے اس کے مرنے کے دن تک خدا کا نذیر ہوگا “۔ ( قاضیوں 4 ، 7/13) نہم :۔ سموئیل النبی ۔ اس کے متعلق سموئیل میں لکھا ہے : ” میں نے کس سے دغا بازی کی ؟ اور کس پر میں نے ظلم کیا ؟ اور کس کے ہاتھ سے میں نے رشوت کی تاکہ میں اس سے چشم پوشی کروں ؟ اب میں اسے پھیر دینے کو حاضر ہوں ۔ وہ بولے تو نے ہم سے دغا بازی نہیں کی اور نہ ہم پر ظلم کیا اور نہ تو نے کسی کے ہاتھ سے کچھ لے لیا ۔ تب اس نے انہیں کہا کہ خدا وند تم پر گواہ اور اس کا مسیح آج کے دن گواہ ہے کہ تم نے میرے ہاتھ میں کچھ نہیں پایا ۔ وہ بولے وہ گواہ “۔ (سموئیل 3 ، 5/12) دہم :۔ شمعون کے متعلق انجیل میں لکھا ہے : ” دیکھو یروشلم میں شمعون نامی ایک آدمی تھا اور وہ آدمی راست باز اور خدا ترس اور اسرائیل کی تسلی کا منتظر تھا اور روح القدس اس پر تھا “ (الوقا 25/2) یاز دہم :۔ یوسف شوہر مریم کے متعلق لکھا ہے : اس کے شوہر یوسف نے جو راست باز تھا اور اسے بد نام کرنا نہیں چاہتا تھا چپکے سے اس کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا “۔ ( متی 19/1) بائبل کے بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے علاوہ اور کوئی نیک نہیں اور ہر شخص فطری طور پر گناہ گار ہے ، غلط ہے۔ اس طرح کفارہ کی عمارت کا ایک ستون گر جاتا ہے۔ کفارہ کی عمارت کا دوسرا ستون :۔ کفارہ کی عمارت کا دوسرا ستون یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) نے گناہ گار انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے کر صلیب پر موت دے دی ، تاکہ صلیب پر ایمان لانے والے نجات پا جائیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا بائبل کی رو سے ایک کے گناہوں کا بوجھ دوسرا اٹھا سکتا ہے ؟ بائبل اس تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ بائبل میں صاف لکھا ہے : ” اولاد کے بدلے باپ دادا مارے نہ جائیں ، نہ باپ داداوں کے بدلے اولاد قتل کی جائے۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب مارا جائے گا “۔ ( استثناء 16/24) ” موسیٰ کی شریعت کی کتاب میں لکھا ہے کہ اس میں خدا وند نے فرمایا ہے کہ بیٹوں کے بدلے باپ دادے قتل نہ ہوں گے اور نہ باپ دادوں کے بدلے بیٹے قتل ہوں گے بلکہ ہر ایک آدمی اپنے گناہ کے لیے مارا جاوے “۔ ( 2 تواریخ 4/25) ” ان دنوں میں یہ پھر کہا جائے گا کہ باپ داداوں نے کچے انگور کھائے اور لڑکوں کے دانت کھٹے ہوگئے کیونکہ ہر ایک اپنی بدکاری کے سبب مرے گا ۔ ہر ایک جو کچے انگور کھاتا ہے اس کے دانت کھٹے ہوں گے “۔ ( یرمیاہ 29 ، 30/31) ” دیکھو ساری جانیں میری ہیں ۔ دیکھو جس طرح باپ کی جان اس ہی طرح بیٹے کی جان ، دونوں میری ہیں ۔ وہ جان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مرے گی “۔ ( حزقیل 4/18) ” وہ جان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مرے گی ۔ بیٹا باپ کی بد کاری کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کی بد کاری کا بوجھ اٹھائے گا ۔ صادق کی صداقت اسی پر ہوگی اور شریر کی شرارت اسی پر پڑے گی ۔ لیکن شریر اپنی ساری خطائوں سے جو اس نے کی ہیں باز آئے اور میرے سارے حکموں کو حفظ کرے تو وہ یقینا جئے گا وہ نہ مرے گا ۔ اس کے سارے گناہ جو اس نے کیے ہیں اس کے لیے محبوب نہ ہوں گے “۔ (حزقیل 20 ، 22/18) ان حوالہ جات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ہر آدمی اپنے ہی گناہوں کا ذمہ دار ہے۔ ان بیانات سے کفارہ کی عمارت کا دوسرا ستون بھی پیوند خاک ہوجاتا ہے۔ کفارہ کی عمارت کا تیسرا ستون :۔ صلیب پرستوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آدم نے جو گناہ کیا تھا اس کا اثر وراثتاً اور نسلا ً ہر انسان میں چلا آ رہا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ اثر نطفہ کے ذریعہ نسل انسانی میں منتقل ہو رہا ہے اور مسیح اسی لیے بن باپ پیدا کیے گئے تھے تاکہ اس کو گناہ کے اثر سے محفوظ رکھا جائے۔ بائبل کی رو سے شجر ممنوعہ کے کھانے میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہ السلام) دونوں شریک تھے بلکہ حوا کا گناہ زیادہ ہے کیونکہ اس نے پہلے خود کھایا اور پھر آدم کو کھانے کی ترغیب دی ۔ چناچہ لکھا ہے : ” اور عورت نے جوں دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور دیکھنے میں خوش نما اور عقل بخشنے میں خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے خصم کو بھی دیا اور اس نے کھایا “۔ ( پیدائش 6/2) پولوس کہتا ہے : ” اور آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑگئی “۔ (1۔ تمائوس 14/ 2) جب بائبل کی رو سے گناہ کے ارتکاب کا اول منبع عورت کی ذات ہے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش عورت کے پیٹ سے ہوئی جو گناہ کا اصل منبع تھا۔ اگر عیسائیت کے انوکھے فلسفہ کی رو سے بنی نوع انسان نطفہ کے اثر کی وجہ سے گناہ گار بن سکتی ہے تو عورت کے پیٹ سے جنم لینے سے حضرت مسیح (علیہ السلام) گناہ کے اثرات سے کیوں کر بری ہو سکتے ہیں ؟
Top