Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 27
ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ١ۙ۬ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ رَهْبَانِیَّةَ اِ۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا١ۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
ثُمَّ : پھر قَفَّيْنَا : پے در پے بھیجے ہم نے عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ : ان کے آثار پر بِرُسُلِنَا : اپنے رسول وَقَفَّيْنَا : اور پیچھے بھیجا ہم نے بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ : عیسیٰ ابن مریم کو وَاٰتَيْنٰهُ : اور عطا کی ہم نے اس کو الْاِنْجِيْلَ : انجیل وَجَعَلْنَا : اور ڈال دیا ہم نے فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ : ان لوگوں کے جنہوں نے پیروی کی اس کی رَاْفَةً : شفقت کو وَّرَحْمَةً ۭ : اور رحمت کو وَرَهْبَانِيَّةَۨ : اور رہبانیت ابْتَدَعُوْهَا : انہوں نے ایجاد کیا اس کو مَا كَتَبْنٰهَا : نہیں فرض کیا تھا ہم نے اس کو عَلَيْهِمْ : ان پر اِلَّا ابْتِغَآءَ : مگر تلاش کرنے کو رِضْوَانِ : رضا اللّٰهِ : اللہ کی فَمَا رَعَوْهَا : تو نہیں انہوں نے رعایت کی اس کی حَقَّ رِعَايَتِهَا ۚ : جیسے حق تھا اس کی رعایت کا۔ نگہبانی کا۔ پابندی کا فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ : تو دیا ہم نے ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے مِنْهُمْ : ان میں سے اَجْرَهُمْ ۚ : ان کا اجر وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
پھر ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے پیغمبروں کو بھی بھیجا اور بعد ازیں عیسیٰ بیٹے مریم کو بھی بھیجا اور اس کو انجیل عطا کی اور اس کے متبعین کے دلوں میں شفقت و رحمت ڈال دی اور رہبانیت جس کی ابتداء از خود انہوں نے کی ہم نے ان کو ان پر فرض نہ کیا تھا مگر انہوں نے اسے اللہ کی رضامندی کے لیے اختیار کیا لیکن جس طرح اس کو نباہنا چاہیے تھا نباہ نہ سکے پھر ان میں سے جو ایمان لے آئے ہم نے ان کو اجر دیا اور ان میں سے اکثر تو نافرمان ہی ہیں
کفارہ کی عمارت کا چوتھا ستون : عیسائیوں کا یہ استدلال ہے کہ انسان نے گناہ کیا۔ خدا کا عدل گناہ کی سزا کا متقاضی ہے اور خدا کا رحم نجات کا متقاضی ہے ۔ ہر دور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے یسوع کو دنیا میں بھیج کر خدا کے رحم سے مستفید کیا اور خود اپنی جان صلیب پر دے کر عدل کے تقاضا کو پورا کیا اور بنی آدم کے لیے بخشش کا موجب ٹھہرا۔ عیسائیوں کا یہ استدلال کہ اللہ تعالیٰ کا رحم بلا بدل نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ کی صفات کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رحمن ہے ، جس کا ظہور انسانوں کے اعمال اور محنت کے نتیجہ میں نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ انسان کی پیدائش سے قبل ہی اس کی زندگی کے سامان دنیا میں موجود تھے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ سامان اس کے کسی عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں ۔ جب خدا کی ذات پیدائش سے قبل رحم بلا بدل کرسکتی ہے تو وہ موت کے بعد انسانوں پر رحم بلا بدل کیوں نہیں کرسکتی ۔ اللہ تعالیٰ کا رحم جو رحمانیت نے ظاہر کیا عدل کی زنجیروں میں جکڑا ہوا نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کے تحت عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بھی بلا بدل بنی آدم کو بخش سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت رحمانیت کفارہ کے چوتھے ستون کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ عقیدہ حیات ثانیہ :۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح کتاب مقدس کے بموجب ہمارے گناہوں کے لیے مرا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتاب مقدس کے بموجب جی اٹھا۔ ( کر فتھیون باب 15 آیات 3 ، 4) تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے مختلف ممالک میں دیوتائوں کے مر کر زندہ ہونے کا عقیدہ پایا جاتا تھا۔ خصوصاً مصر میں جہاں اوسیریز کا مرکر زندہ ہونے کا تخیل پایا جاتا تھا ، مصر سے ہی یہ عقیدہ عیسائیت میں داخل ہوا۔ 1903 ، 1904 ء کے شہر کلا شیر کٹ کے کھنڈرات سے کچھ سیلیں برآمد ہوئی ہیں اور یہ سیلیں کتب خانہ رسور میں سے ہیں جو مسیح سے نو برس پہلے قائم ہوا تھا۔ ان کتبات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ بابل میں بعل دیوتا کے متعلق بھی حیات ثانیہ کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ ان کتبات کی عبارات میں سے ایک عبارت درج ذیل کی جاتی ہے اور اس کے بالمقابل انجیل کی داستان صلیب کی ایک مشق درج کی جاتی ہے اس سے واضح ہوجائے گا کہ انجیل حیات ثانیہ کا عقیدہ پیش کرتی ہے وہ کتنا بعل کی حیات ثانیہ کے مشابہ ہے۔ بعل کے متعلق بعل کو جس جگہ رکھا گیا تھا وہاں اس کی تلاش کرتے ہیں ۔ خاص کر ایک عورت روتی ہوئی قبرستان کے دروازے پر اس کی تلاش کرتی ہے اور روتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے بھائی ! میرے بھائی ! لعل پھر زندہ ہوگیا اور پہاڑ سے نکلتا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق مریم مگدلینی ، قبر مسیح کی تلاش میں آتی ہے۔ قبر کو خالی دیکھ کر روتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے خداوند کو لے گئے۔ مسیح زندہ ہو کر قبر سے نکلتا ہے۔ موجودہ مسیحیت کی رسمیں بپتسمہ : بپتسمہ یا اصطباغ عیسائیت کی پہلی رسم ہے۔ یہ ایک غسل ہے جو دائرہ عیسائیت میں داخل ہونے والے کو دیا جاتا ہے۔ اس کے بغیرعیسائیت قبول کرنے والے شخص کو عیسائی نہیں کہا جاسکتا ۔ اس رسم کی پشت پر عقیدہ کفارہ کار فرما ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ بپتسمہ لے نے سے انسان یسوع مسیح کے واسطے سے ایک بار مر کر حیات ثانیہ پاتا ہے۔ موت کے ذریعے اسے ” اصل گناہ “ کی سزا ملتی ہے اور حیات نو سے اسے آزاد قوت ارادی حاصل ہوتی ہے۔ (Augstione the Enchiridion xiii p.688 v1) یروشلم کے مشہور عالم سائرل نے اس رسم کو بجا لانے کا طریقہ لکھا ہے کہ : بپتسمہ لینے والے کو بپتسمہ کے کمرے میں اس طرح لٹا دیا جاتا ہے کہ اس کا منہ مغرب کی طرف ہو۔ پھر بپتسمہ لینے والا اپنے ہاتھ مغرب کی طرف پھیلا کر کہتا ہے کہ ” اے شیطان میں تجھ سے اور تیرے ہر عمل سے دست بردار ہوتا ہوں “۔ پھر وہ مشرق کی طرف منہ کر کے زبان سے عیسائی عقائد کا اعلان کرتا ہے اس کے بعد اسے ایک اندرونی کمرے میں لے جاتا ہے کہ جہاں اس کے تمام کپڑے اتار دیئے جاتے ہیں اور سر سے پائوں تک ایک دم کئے ہوئے تیل سے اس کی مالش کی جاتی ہے اس کے بعد اسے بپتسمہ کے حوض میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر عیسائیت کے اندر داخل ہونے والے سے تین سوال دریافت کیے جاتے ہیں کہ کیا وہ باپ ، بیٹے اور روح القدس پر مقررہ تفصیلات کے ساتھ ایمان رکھتا ہے۔ ہر ایک سوال کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ ’ ’ ہاں میں ایمان رکھتا ہوں “ اس سوال کے جواب کے بعد اسے حوض سے باہر نکال لیا جاتا ہے اور اس کی پیشانی ، کان ، ناک اور سینے پر دم کئے تل سے دوبارہ مالش کی جاتی ہے۔ پھر اس کو سفید کپڑے پہنا دیئے جاتے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ بپتسمہ لینے والا تمام گناہوں کی آلائشوں سے پاک صاف ہوچکا ہے ۔ اس کے بعد بپتسمہ پانے والوں کا جلوس ایک ساتھ کلیسا میں داخل ہوتا ہے اور پہلی بار عشائے ربانی کی رسم میں شریک ہوتا ہے ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ص 83 ج 3 مقالہ بپتسمہ) عشاء ربانی :۔ دائرہ عیسائیت میں داخل ہونے کے بعد یہ اہم ترین رسم ہے اور یہ رسم حضرت مسیح کی قربانی کی یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح نے گرفتاری سے ایک دن قبل حواریوں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا تھا۔ انجیل متی میں اس طرح کا ذکر کیا گیا ہے کہ ” جب وہ کھا رہے تھے ، یسوع مسیح نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھائو یہ میرا بدن ہے پھر پیالہ لے کر شکر کیا ان کو دے کر کہا تم سب اس میں سے پیو ، کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لیے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔ (متی 26 : 26) لوقا نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اس کے بعد حضرت مسیح نے حواریوں سے کہا کہ ” میری یادگار ہی کے لیے یہی کیا کرو “۔ ( الوقا 22 : 19) مشہور عالم جسٹس مارٹر اس رسم کو بجا لانے کا طریقہ یہ لکھتے ہیں کہ : ” ہر اتوار کو کلیسا میں ایک اجتماع ہوتا ہے۔ شروع میں دعائیں اور نغمے پڑھے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حاضرین ایک دوسرے کا بوسہ لے کر مبارکباد دیتے ہیں ۔ پھر روٹی اور شراب لائی جاتی ہے اور صدر مجلس اس کو لے کر باپ بیٹے اور روح القدس سے برکت کی دعا کرتا ہے جس پر تمام حاضرین آمین کہتے ہیں ۔ پھر کلیسا کے خدام (Deacons) روٹی اور شراب کو حاضرین میں تقسیم کرتے ہیں اس عمل سے فوراً روٹی مسیح کا بدن بن جاتی ہے اور شراب مسیح کا خون اور تمام حاضرین اسے کھا پی کر اپنے عقیدہ کفارہ کو تازہ کرتے ہیں “۔ اس رسم کے اور بھی نام ہیں ۔ مثلاً شکرانہ ، مقدس غذا ، مقدس اتحاد۔ مسیحی پورپ اور کلیسا کی اخلاقی حالت اور معافی نامے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم بھی جہالت اور شرک کا شکار بنی ہے وہ اخلاقی لحاظ سے بہت ہی پست تھی۔ مسیحی یورپ اور کلیسا کی اخلاقی گراوٹ کی وجہ یہی تھی کہ پوپ علم کے شدید دشمن تھے اور شرک پر کلیسا کی عمارت کھڑی ہوئی تھی۔ اس عہد کے ایک مصنف نے انگلستان کی حالت ان الفاظ میں بیان کی ہے : ” اس قوم کے امراء پیٹو اور عیاش تھے اور کبھی گرجا نہیں جاتے تھے ۔ نماز فجر اور صلوٰۃ اقدس کے ادا کرنے کا انہوں نے یہ طریقہ اختیار کررکھا تھا کہ پادری جسے چاپلوسی نے ان کی نگاہوں سے گرا رکھا تھا ان کی خواب گاہ میں جا کر بیدار ہونے سے قبل جلد نماز کے الفاظ دہرایا جاتا تھا اور انکے کانوں میں ایک لفظ بھی نہ پڑتا تھا۔ عالم باشندے ان طاقتور امراء کے پنجہ ظلم میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کی لڑکیوں کو بیچ ڈالا جاتا تھا ، دن رات شراب کے دور چلتے تھے اور جو برائیاں بد مستی کی رفیق ہیں وہ ظاہر ہو کر مردوں کو نا مرد بناتی جاتی تھیں “۔ ( مقدمہ العلم والعلماء عبد الرزاق ملیح آبادی ص 14 ، 15) زنا کاری اور بد کاری کی وجہ سے یورپ میں آتشک کی بیماری عام تھی ۔ ڈری پر کے الفاظ میں ” خود پاپائے مقدس حضرت لیودھم بھی تو تا پال بیٹھے اور نیم کی ٹہنی ہلاتے ہوئے پائے گئے “۔ معافی نامہ :۔ اس دور میں پوپ کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ خدا کا نائب اور عیسیٰ کا قائم مقام ہے۔ اس کا نہ کوئی فیصلہ غلط ہو سکتا ہے اور نہ اس کے کسی حکم پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ وہ گناہ گاروں کے گناہ معاف کرسکتا ہے ۔ اس عقیدے نے آہستہ آہستہ معافی ناموں کی صورت اختیار کرلی۔ ابتداء یوں ہوئی کہ صلیبی جنگوں میں پوپ اربن دوم (Urban II) نے یہ اعلان کیا کہ جو لوگ بذات خویش جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے وہ اپنی طرف سے کسی اور کو بھیج دیں ۔ اس کے بدلہ میں انہیں ” معافی نامہ “ دے دیا جائے گا جو اس کی نجات کا ذریعہ ہوگا ۔ جب پوپ لو دہم (Leo x ) نے روما میں سینٹ پیٹر کا گرجا بنوانے کا ارادہ کیا تو اس نے بھی اس قسم کے ” معافی نامے “ فروخت کرنا شروع کردیئے۔ اس کے بعد عام معاف نامے بکنے شروع ہوگئے۔ شہر شہر ، قریہ قریہ ، کو بکو غرض کہ ہر مقام پر ان معافی ناموں کی ایجنسیاں قائم کردی گئیں۔ ہر گناہ کے لیے الگ الگ قیمت کا معافی نامہ ہوتا تھا۔ معافی نامے کی عبارت یہ تھی : ” تم پر خداوند یسوع مسیح کی رحمت ہو اور وہ تمہیں اپنا مقدس ترحم ( خسروانہ) سے ( تمام گناہوں کی پاداش) آزاد کردے۔ میں اس کی اور اس کے با برکت شاگرد پطرس ، پولوس اور مقدس پوپ کی اس سند کی رو سے جو انہوں نے مجھے عطا فرمائی ہے تمہیں آزاد کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے کلیسا کی تمام ملامتوں سے خواہ وہ کسی شکل میں ہوں ، پھر تمہارے ہر ایک ، حدود شکنی اور زیادتی سے خواہ وہ کیسے مہیب اور شدید کیوں نہ ہو اور میں وہ سزا تم سے اٹھا لیتا ہوں جو تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ملنے والی تھی ۔ تاکہ تم جب مرو تو جہنم کے دروازے تم پر بند ہوں اور جنت کی راہیں کشادہ باپ بیٹے اور روح القدس کے نام پر ۔ “ اس معافی نامہ میں مختلف گناہوں کی قیمتیں مختلف تھیں ۔ ہر ایک ایجنٹ کے پاس ان کی فہرست موجود ہوتی تھی جس کی اصل (Tax of The Sacred Roman Chancerx) کی کتاب میں محفوظ ہوتی تھی۔ مختلف گناہوں کی معافی کی مختلف قیمتیں حسب ذیل تھیں : (1) اسقاط حمل 3 شلنگ 6 پنس (2) چوری 9 شلنگ (3) عفیفہ کی عصمت دری 9 شلنگ (4) قتل 7 شلنگ 6 پنس یہ معافی نامے صرف اپنے گناہوں کی میل دھونے کے لیے نہ ہوتے تھے بلکہ مردوں کے گناہوں کے لیے بطور کفارہ خرید کیے جاسکتے تھے۔ چناچہ ان معافی ناموں کے فروخت کرنے کے لیے ایجنٹ اس قسم کی آوازیں لگایا کرتے تھے : ” آئو ! بڑھو ! جنت کے دروازے کھل رہے ہیں ۔ اگر تم اب بھی داخل نہ ہو گے تو کب داخل ہو گے ؟ تم بارہ پنس کے عوض اپنے باپ کی روح کو جہنم سے نکلوا سکتے ہو۔ کیا تم ایسے نا خلف ہو کہ اپنے باپ کے لیے اس قدر سستی نجات بھی نہیں خرید سکتے ؟ اگر تمہارے پاس اور کچھ نہیں فقط ایک کوٹ ہے تو وہی اتار دو کہ اس قدر گراں بہا متاع خرید سکو۔ (Buck, s The Odogical Dicitionary Indulgences) جب معافی ناموں کی عام تجارت شروع ہوگئی تو تمام مسیحی یورپ اور کلیسا خاص طور پر گناہوں اور جرائم کی دلدل میں پھنس گیا ۔ چناچہ آکسفورڈ کا چانسلر تھا مس گیسگن (Thamas Gascuigen) میں رقم طراز ہے : آج کل گنار گار (ہر جگہ) یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ ” میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ میں خدا کے حضور کتنے گناہ کرتا ہوں اس لیے کہ ہر وقت بلا دقت ہر گناہ اور ہر جرم کے لیے معافی نامہ خرید سکتا ہوں ، کبھی چار پنس میں ، کبھی جوتے کے ایک دائو کی قیمت کے بدلے “۔ اس کے لیے ان معافی ناموں کے بیچنے والے ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں اور وہ انہیں کبھی دو دو پنس میں ، کبھی ایک جام شراب کے بدلے یا جوئے میں ہاری ہوئی رقم کے معاوضہ میں اور گا ہے کسی رنڈی کے خرچہ کے عوض میں بیچ دیتے ہیں “۔ (Quoted by Mancken in Treatise on Right and Wrong.page 187 , 188) یہ خرابیاں صرف عوام میں ہی نہ تھیں بلکہ کلیسا کی فضا گناہوں کی مسموم فضا سے اور بھی زیادہ متعفن ہوچکی تھی۔ چناچہ اس باب میں ڈرائنجی (Dringe) لکھتا ہے : ” جس عہد میں کلیسا سیاسی طور پر صاحب اقتدار رہا وہی عہد سب سے زیادہ بد معاشیوں کے لیے بد نام رہا “۔ (بحوالہ بالا ص 290) منکن (Mencken) ان الفاظ میں بیان کرتا ہے : ” یونیورسل چرچ کے اقتدار کا زمانہ در حقیقت بےمثال جرائم ، بد نظمی ، ظلم وتعدی ، فسادات اور بد کاریوں کا زمانہ تھا “۔ (ایضا ً ص 105) تحریک اصلاح مذہب :۔ بد کاریوں اور جرائم کی کثرت کا یہ نتیجہ ہوا کہ پادریوں کے خلاف نفرت کا جذبہ زور پکڑنے لگا اور عیسائیت کے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع ہوگئے ، چناچہ حقیقت پسند ایسے مصلحین کلیسا اور مسیحی مذہب کے اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پیٹروالڈو (Peter Waldo) بارہویں صدی کے اوارخر میں ہو کر گزرا ہے۔ یہ فرانس کا ایک مشہور اور دولت مند تاجر تھا۔ اس کو مذہب سے گہری دلچسپی تھی ۔ اس نے کتاب مقدس کا ترجمہ شروع کردیا ۔ ترجمہ کے دوران اس نے یہ محسوس کیا کہ کلیسا اپنی اصلی تعلیمات سے ہٹ چکا ہے۔ جب وہ عیسائیت کی روح کو سمجھ چکا تو اس نے اپنی زندگی میں تضاد محسوس کیا اور وہ سمجھ گیا کہ حقیقت سے دور لے جانے والی صرف دولت ہی ہے۔ اس نے اپنی تمام دولت غرباء میں تقسیم کردی اور اپنی زندگی مسیحی تعلیمات کے مطابق بسر کرنا شروع کردی ۔ شہر شہر ، قصبہ قبصہ گھوما ، مسیحی تعلیمات کی اصل روح سے لوگوں کو آگاہ کیا ۔ اس کے پیروئوں کی تعداد جنوبی فرانس ، شمالی اٹلی اور سپین میں خاصی بڑھ گئی۔ والڈو کے حقیقت پسندانہ نظریات کی وجہ سے اسے عیسائیت سے خارج کردیا گیا ۔ اس طرح اس کے حامیوں کو بھی جلا وطنی کی زندگی گزارتی پڑی۔ جان ٹولز : (John Tauler) (1290 ئتا 1361 ء) جرمنی کا رہنے والا تھا۔ اس نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ جو شخص مسیح مذہب کو بدل و جان مانتا ہے اور وہ صرف یورپ کی نافرمانی کرتا ہے وہ بدعتی نہیں ۔ اس لحاظ کے وعظ نے بھی عوام میں پوپ کے خلاف نفرت کے جذبات ابھار دیئے۔ جان والی کلف : (John Wy Cliffe) (1324 ء یا 1320 ء تا 1384 ء) انگلینڈ میں چودھویں صدی عیسوی میں ایک پادری جان وائی کلف نے جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتا تھا پوپ کے خلاف آواز بلند کی ۔ اس نے کہا : جو پادری خود گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو مذہبی تعلیم دیں ۔ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کرنی چاہئے۔ اس کی اطاعت میں ہی حقیقی نجات مضمر ہے۔ اس نے اعتراف گناہ اور کفارہ پر بھی دل کھول کر تنقید کی ۔ جان وائی کلف کو اس ” کافرانہ گستاخی “ کے بدلے کئی بار نظر بند کیا گیا اور اس کی موت کے تیرہ سال بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اس کی قبر کھود کر اس کی لاش آگ میں جھونک دی جائے۔ جان وائی کلف کی تعلیم سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ اس کی تعلیم کا سب سے بڑا علمبردار پر یگ یونیورسٹی کا معلم دینیات جان ہس (John Huss) (1369 ء تا 1415 ء) تھا۔ اس نے جان وائی کلف کی تعلیم اور پیغام کی خوب اشاعت کی ۔ چناچہ اسے گرفتار کر کے زندہ جلا دیا گیا ۔ مارٹن لوتھر : تحریک اصلاحی میں جس شخص نے انقلابی روح پھونکی وہ مارٹن لوتھر تھا۔ وہ 1483 ء میں سکنی (Saxony) میں ایک غریب اور مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اس کا باپ ایک معمولی کان کن تھا۔ عسرت کی وجہ سے اس کے والدین لوتھر کی تعلیم کا خاصر خواہ انتظام نہ کرسکے ۔ اس کے ہونہار بچے نے جرمنی کی سڑکوں پر گانا گانے کا پیشہ اختیار کرلیا ، اس کی اجرت سے اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرتا ۔ اس نے لاء کالج میں داخل لے لیا ، لیکن قانون کی تعلیم چھوڑ کر یکجہتی سے مذہبی تعلیم کی طرف توجہ کی ، حتیٰ کہ وہ پادری بن گیا ۔ پچیس سال کی عمر میں وٹن برگ (Witten Berg) یونیورسٹی میں دینیات کا معلم بن گیا اور اس نے جلد ہی اپنی قابلیت کا سکہ منوا لیا۔ 1512 ء میں وہ روم سیر و تفریح کے لیے گیا اور اسے پوپ کی زندگی کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ جلد ہی اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ پوپ نہ صرف مسیحی مذہبی کی روح سے دور ہے بلکہ روحانیت اور اخلاق سے بھی بکلی عاری ہے۔ اس نے ٹولر کی تصانیف کا بنظر عمیق مطالعہ کیا ۔ جرمنی واپس آ کر پوپ کی مخالفت شروع کردی ۔ اس زبانی مخالفت کو تحریک کا رنگ اس وقت ملا جب پوپ لوئی دہم نے ٹٹزیل (Tetizel) کو جرمنی اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہاں لوگوں میں معافی نامے فروخت کرے اور جو رقم وہاں سے موصول ہوا اس سے روم میں سینٹ پیٹر چرچ تعمیر کرایا جائے۔ ابتداء میں معافی نامے بیچنے والوں کو کامیابی حاصل ہوئی کیونکہ لوگ پوپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ عیسائیت کی تاریخ میں 21 اکتوبر 1517 ء کا دن بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن لوتھر نے پوپ کے خلاف اعلانیہ طور پر اعلان بغاوت کردیا اور پادری ٹیٹ زیل کو کہا کہ وہ مسیح مذہب کے خلاف کام کر رہا ہے اور وہ اس سے اس بات پر مباحثہ کرنے کو تیار ہے۔ دعوت مباحثہ کے بعد اس نے پچانوے سوالوں پر مشتمل ایک سوالنامہ تیار کیا اور اس کو 21 اکتوبر 15417 ء کو ایک مقامی گرجا کے صدر دروازہ پر آوایزاں کردیا ۔ اس سوالنامے نے جرمنی کے لوگوں میں ایک انقلابی روح پھونک دی ۔ وہ پوپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوتھر کے نظریات کے بیشمار لوگ حامی ہوگئے ، ان میں بعض شہزادے بھی تھے ۔ جب اصلاحی تحریک کا سیلاب بڑھنے لگا اور پوپ کو اپنے اقتدار پر زوال اور ادبار کا سایہ نظر آنے لگا تو اس نے 1520 ء میں ایک فرمان جاری کیا ۔ جس کے ذریعے لو تھر کے اکتالیس عقائد کو باطل قرار دیا ۔ اور اس فرمان میں لوتھر کے نظریات سے نفرت کا اظہار کیا گیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اس ” ملحد اور کافر “ کی کتب جلا دیں اور لوتھر کو اپنے عقائد درست کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دی گئی ۔ جب یہ فرمان لوتھر کو ملا تو اس نے عوام کے سامنے اعلانیہ طور پر اسے نذر آتش کردیا ۔ لوتھر کو مذہب سے خارج کردیا گیا اور اسے بادشاہ کے سامنے طلب کیا گیا ، جہاں اس نے نہایت دلیری کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے خیالات کی صحت کو ثابت کیا اور آخر میں اس نے کہا ’ ’ جب تک کتاب مقدس اور عقل کی رو سے مجھے مجرم ثابت نہ کردیا جائے ، میں اپنے خیالات سے باز نہیں آسکتا ۔ یہی میرا موقف ہے جسے میں کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑ سکتا ۔ خداوند ! تو میری مدد کر ، آمین۔ “ (انسائیکلو پیڈیا مذہب و مذاہب ص 227) اب حالات پہلے جیسے نہیں تھے کہ پوپ اپنے مخالف کو پکڑ کر جو چاہے سزا دے۔ عوام کی ایک بھاری اکثریت لوتھر کے حامیوں کی تھی ، چناچہ لوتھرکو ایک مستحکم قلعہ میں رکھا گیا جہاں وہ ایک سال رہے اور بائبل کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا ۔ 1520 ء وہ سال ہے جب لوگوں نے مارٹن لوتھر کی تقاریر سے متاثر ہو کر رومن کیتھولک سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ اس کے بعد جرمن میں ایک نیا کلیسا وجود میں آگیا ۔ اس کی ساری ذمہ داری پوپ پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ مارٹن لوتھر کو دائرہ عیسائیت سے الگ نہ کرتا تو لوگ اس مذہب کو نہ چھوڑتے۔ مارٹن لوتھر کو بہت سے جرمن شہزادوں کی حمایت حاصل ہوگئی تھی ۔ مگر بادشاہ چارلس پنجم اسے گرفتار کرنا چاہتا تھا لیکن فرانس سے جنگ کے پیش نظر وہ ایسا نہ کرسکا ۔ جب تک جنگ ہوتی رہی لوتھر کے حامیوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ پروٹسٹنٹ : چونکہ یہ اصلاحی تحریک پا پائیت کے خلاف ایک احتجاج تھا جسے انگریزی میں پروٹسٹ (Protest) کہتے ہیں ۔ اس لیے جو لوگ اس تحریک کے حامی تھے انہیں پروٹسٹنٹ (Protestant) کہا جانے لگا ۔ لوتھر 1546 ء میں مر گیا لیکن وہ مذہبی بیداری کی ایسی روح پھونک گیا کہ عوام رومن کیتھولک سے بیزار ہو ہو کر الگ ہوتے چلے گئے اور اس طرح مذہبی اصلاحی تحریک کے حامیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ 1555 ء میں چارلس پنجم اور پروٹسٹنٹ شہزادوں کے مابین شدید جھگڑا پیدا ہو گا ھ ۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ ہر شہزدہ کو یہ آزادی ہے کہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے۔ مارٹن لوتھر کے بعد کے مصلحین زونگلی : لوتھر کی وفات کے بعد اصلاح کلیسا کا کام جاری رہا ۔ اصلاح کی اہم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والوں میں سے ایک ہل رچ زونگی (Hulrich Zwingli) تھا جو سوئیٹرز لینڈ کا رہنے والا تھا۔ 1484 ء میں پیدا ہوا ۔ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیتھولک پادری بنا۔ ایک دفعہ وہ روم گیا تو کلیسا کی ابتر حالت اس پر عیاں ہوگئی۔ اس نے مسیح مذہب کی اصلاح کا عزم بالجزم کرلیا ۔ سوئیٹرز لینڈ واپس آ کر تقاریر کے ذریعہ کلیسا کی ابتر حالت کو عوام پر آگاہ کرنے لگا ۔ اس طرح کیتھولک مسلک کے پیروئوں کیخلاف جنگوں کا سلسلہ شروع کردیا ، انہی جنگوں میں وہ 1521 ء میں وفات پا گیا ۔ وہ لوتھر کے مقابلہ میں زیادہ متشدد تھا۔ اس نے بائبل کی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا رہنما قرار دینے پر بہت زوردیا ۔ عشائیے ربانی کے بارہ میں اس کا یہ عقیدہ تھا کہ اس کے ذریعہ اس قربانی کا اعادہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی یاد تازہ کی جاسکتی ہے۔ اس نے کلیسا کے نظام کو جمہوری بنیادوں پر قائم کیا۔ حکومت کے عمال کے لئے مسیح کی تعلیم پر عمل کرنا لازم قرار دیا اور کہا کہ اگر کوئی عامل مسیح کی تعلیم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو اس کے عہدے سے معزول کردینا چاہئے۔ پادریوں کی شادی پر زوردیا ۔ مورتیوں کے خلاف قانون قرار دیا ۔ ہر قسم کے جلوس ، تہوار اور تقریبات کی مخالفت کی ۔ جان کالون (John Colvin) کالون 1509 ء میں فرانس میں پیدا ہوا ۔ اس نے پروٹسٹنٹ نظریات کی حمایت کی ۔ اس زمانہ میں پروٹسٹنٹ فرقہ کے حامیوں کے خلاف شدید کارروائی کی جاتی تھی اور انکے لیے ہر قسم کی سزا روا رکھی جاتی تھی۔ اس وجہ سے کالون کو فرانس چھوڑنا پڑا ۔ 1536 ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب عیسائیت کے مبادیات (Institiutes of Chirstion Religion) لکھی۔ اس میں 6 اس نے اپنے مذہبی نظریات بیان کیے ہیں ۔ اس نے اپنا اصلاحی کا جنیوا میں شروع کیا ۔ اس کے خیالات نہایت ہی انتہا پسندانہ تھے۔ اس لیے 1538 ء میں اسے جنیوا سے باہر نکال دیا گیا ۔ لیکن اس کے خیالات کے اثرات سوئیٹرز لینڈ میں موجود رہے۔ تین سال کے بعد دوبارہ جنیوا اور ایک مذہبی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔ 1564 ء میں اس نے وفات پائی۔ جان کالون گولو تھرکے نظریات کا حامی تھی لیکن اس نے الگ فرقہ کی بنیاد ڈا الی جس کا نام کالونی فرقہ ہے۔ یہ فرقہ زیادہ زور عقیدہ تقدیر پر دیتا ہے۔ ان کا یہ نظریہ ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں اور اس نے ان کو ان کی صلاحیت اور خوبی کا خیال کیے بغیر منتخب کرلیا ہے اور وہی نجات کے حقدار ہیں ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے صرف اسی فرقہ کے لوگوں کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر صلیب پر جان دی ہے۔ اس عقیدہ نے انسانی اختیار کو بالکل ختم کردیا ہے۔ کالون کا ایک اہم عقیدہ یہ ہے کہ آدم کے گناہ کے باعث تمام انسان فطری طور پر معاصی ہیں اور ان سے نیک کام کرنے کی تمام استعدادیں سلب کردی گئی ہیں ۔ اس طبعی معصیت کی وجہ سے وہ دائمی جہنم کا مستحق ہے۔ البتہ کالونی فرقہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ زونگلی اور کالون کے پیروئوں کے اتحاد سے اصلاح شدہ کلیسا (Reformed Church) وجود میں آیا۔ یہ لفظ لوتھر کے کلیسا سے تمبز کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ جان ناکس :۔ جان ناکس 1505 ء میں اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا ۔ پہلے یہ بھی رومن کیتھولک کا پادری تھا۔ لیکن پادریوں کی بےراہ روی ، بد اخلاقی ، مسیحی مذہب کی روح سے دوری اور دنیاوی لالچ نے اسے کلیسا کا باغی بنا دیا ۔ اس نے پادریوں کے خلاف تقاریر کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس کے باعث اسے جلا وطنی اور نظر بندی کی مصیبتیں اٹھانا پڑیں ۔ اٹھارہ سال تک اسے اسیری کی زندگی بسر کرنا پڑی ۔ ایڈورڈ ششم کی مداخلت سے اسے آزادی حاصل ہوئی لیکن میری ٹیوڈر (Mary Tudor) انگلستان کی ملکہ بنی تو پھر پروٹسٹنٹوں پر مظالم ڈھائے جانے لگے۔ یہ سب لوگ جنیوا چلے گئے۔ جان ناکس بھی جنیوا چلا گیا اور کالون کے نظریات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا ۔ جب الزبتھ انگلستان کی ملکہ بنی تو پروٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ واپس انگلستان لوٹ آئے۔ جان ناکس نے آ کر کالونی طرز کے ایک کلیسا کہ بنیاد ڈالی جس میں تھوڑا ساردوبدل کیا گیا ۔ یہ کلیسا پرس بی ٹیرنزم (Presby Teriansim) کے نام سے مشہور ہوا۔ ناکس نے اسکاٹ لینڈ میں کیتھولک نظام کو بالکل ختم کردیا اور ایک ایسے نظام کی بنیاد ڈالی جس میں حکومت اور کلیسا دونوں شامل تھے۔ اس نظام میں عوام کے حقوق کو محفوظ کیا گیا ۔ اس میں عمال خادم اور عوام مخدوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ ناکس کی یہ رائے تھی کہ حکومت اور کلیسا کے انتظام میں بھی زمانہ کے تقاضے کے مطابق تبدیلی ہونی چاہئے۔ کوئی ایسا نظام قائم کرنا ممکن نہیں ہے جو ہر زمانہ میں مفید اور قابل عمل ہو ، کیونکہ حالات کے تحت تقاضے بدلتے رہتے ہیں ۔ ان تقاضوں کے مطابق ہی نظام قائم کرنا چاہئے۔ ناکس کئی کتابوں کا مصنف ہے لیکن اس کی سب سے مشہور کتاب ” اسکاٹ لینڈ میں اصلاح مذہب کی تاریخ (History of Reformation of Religion Within Realm of Scotland) ہے۔ رد عمل اصلاحی تحریک :۔ اصلاحی تحریک (Counter Reformation) کے اثر سے لوگ چرچ کو چھوڑ رہے تھے۔ کلیسا کے عہدیداروں میں احساس پیدا ہوگیا کہ اگر اسی طرح چرچ کو چھوڑتے ہوئے چلے گئے تو بنیادی چرچ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے قائم کیا تھا وہ ختم ہوجائے گا اور جب تک اس چرچ میں برائیاں موجود ہیں اس وقت تک لوگ اسے چھوڑتے چلے جائیں گے۔ بعض مخلصین کلیسا نے یہ کوشش کی کہ کیتھولک چرچ میں اصلاح کی جائے۔ اس اصلاحی کوشش کا نام ’ ’ ردعمل اصلاحی تحریک “ ہے۔ مخلصین کلیسا کی کوششوں سے آسٹریا کے مقام ٹرنٹ پر 1545 ء ، 1552 ء میں کونسل کا انعقاد ہوا ۔ جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ دونوں کلیسائوں کے اختلافات کو ختم کیا جائے۔ لیکن یہ مقصد پورا نہ ہوا ۔ اسکے بعد انہوں نے پادریوں کی زندگی کو بہتر اور پاک بنانے کے اصول مرتب کئے۔ جہاں تک پوپ کا تعلق ہے اس کی طاقت کو برقرار رکھا گیا تھا۔ ” ردعمل اصلاحی تحریک “ کا صرف یہی مقصد نہ تھا کہ صرف چرچ کی برائیوں کو ہی زور کیا جائے تاکہ لوگ اسے نہ چھوڑیں بلکہ یہ بھی تھا کہ جو لوگ علیحدگی اختیار کر گئے ہیں انہیں واپس لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک مجلس تفتیش و احتساب (Inquistion) قائم کی ۔ اس مجلس کو ’ ’ ردعمل اصلاحی تحریک کی تلوار “ (Sword of The Counter Reformation) بھی کہا جاتا ہے۔ ابتداء میں اس مجلس کے چھ بڑے پادری ممبر ہوتے تھے جو رومن ایمپائر میں کام کرتے تھے۔ ان لوگوں کے ذمہ یہ کام سپرد تھا کہ اس شخص کو گرفتار کرلیا جائے جس نے رومن کیتھولک چھوڑا ہے۔ کوشش کریں کہ وہ دوبارہ اپنے مذہب میں لوٹ آئیں۔ ان لوگوں کو جرمنی کے رومن کیتھولک شہزادوں کی مدد حاصل ہوگئی تھی جو کوئی بھی پروٹسٹنٹ مسلک کا اقرار کرتا اسے اسٹیٹ افسران کے سپرد کردیا جاتا تھا تاکہ وہ اسے سزا دیں۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹوں کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں ان کا یہاں طوالت کے خوف سے تذکرہ کرنا ممکن نہیں ۔ بیشمار پروٹسٹنٹوں کو سنگین ترین سزائوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان سے انگلستان کے آرچ بشپ کرین مر اور اس کے دو ساتھی بی تھے۔ کرین مر کو 1555 ء میں دو اور بڑے پادریوں یسٹمر اور ریڈلے کے ساتھ پروٹسٹنٹ ہونے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا ۔ پہلے تو کرین مرنے کمزوری دکھائی اور پروٹسٹنٹ مسلک سے علیحدگی کا اعلان کردیا مگر ضمیر نے اسے جھنجھوڑ اور زجر و توبیخ کے تازیانے مارے ، آخر کا ردوبارہ پروٹسٹنٹ ہونے کا اعلان کردیا ۔ دوبارہ پکڑا گیا اور دہکتی ہوئی آگ میں جلا دینے کی تجویز ہوئی ۔ جب اسے جلانے لگے تو اس نے سب سے پہلے اپنا ہاتھ یہ کہتے ہوئے آگے کے سپرد کردیا : ” یہی وہ گنار گار ہاتھ ہے جس میں نے وہ غلط اور بزدلانہ توبہ نامہ لکھا تھا “۔ اس موقع پر یسٹمر نے جو الفاظ اپنے دوسرے ساتھی ریڈلے سے کہے تھے وہ بھی مسیحی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں : ” ریڈلے ! یہ کام ہمیں مردانہ وار کرنا چاہئے۔ آج ہم خدا کے فضل سے انگلستان میں وہ شمع روشن کر رہے ہیں جو ہمیشہ فروزاں رہے گی اور کبھی نہ بجھے گی “۔ 1534 ء میں ایک اور سوسائٹی جیوسٹ (Drdler of jesuits) کی تشکیل ہوئی ۔ اس کا بانی اگنیٹس لویولا (Ignatius Layula) تھا۔ یہ سپین کا باشندہ تھا ۔ اس سوسائٹی کے افراد کے لیے حسب ذیل شرائط تھیں : 1۔ باعصمت اور مفلسی کی زندگی بسر کرنا۔ 2۔ قائد کی اطاعت و فرمانبرداری۔ 3۔ تبلیغ کے ذریعہ اپنے نظریات کی اشاعت۔ اس سوسائٹی کی جدوجہد سے فرانس اور جرمنی میں کیتھولک مذہب دوبارہ قائم ہوگیا۔ کلیسائے انگلستان (Church of England) چھٹی صدی عیسوی کے اواخر میں عیسائیت کا پودا اگسٹائن کے ہاتھوں انگلستان کی سر زمین میں بویا گیا اور رومی کلیسا کی ایک شاخ قائم کردی گئی ۔ سولہویں صدی عیسوی تک انگریزی کلیسا رومی کلیسا کے زیر اثر رہا۔ انگلستان میں بھی بہت ہی شروع میں اصلاح مذہبی کی تحریکات چلائی گئیں ۔ لیکن ان کو کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی ۔ بینی ڈکٹنی فرقہ (Benedictines) انگلستان میں مقبول ہوگیا ۔ اس فرقہ کا باین سینٹ بینی ڈکٹ (St.bene Dict) ہے ۔ یہ لوگ راہبانی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ قانون کی حتی الامکان پابندی کے قائل ہیں اور ذاتی ملکیت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ چودہویں اور پندرہویں صدی میں جان وائی کلیف کے متبعین کے ایک فرقہ کو لڑنے انگلستان میں مقبولیت حاصل کرلی۔ یہ فرقہ کاہنوں کی متبحردانہ زندگی ، کلیسا کی آرائش و زیبائش ، مردوں کے لیے دعا ، مورت پرستی ، جنگ اور سزائے موت کیخلاف تھا۔ ہنری چہارم کے زمانہ میں یہ فرقہ ہدف مظالم بنا رہا ۔ ہنری پنجم کے عہد میں مظالم اور مصائب اپنی انتہائی صورت اختیار کر گئے۔ بیشمار سربر آور دہ لوگ زندہ نذر آتش کردیئے گئے اور وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی۔ سولہویں صدی عیسوی میں بادشاہ اور پوپ کے درمیان اقتدار کی کشمکش کا آغاز ہوا ۔ اس وقت ہنری ہشتم انگلستان کا بادشاہ تھا۔ ہنری یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کیتھرائن کو طلاق دے دے ، لیکن پوپ نے اجازت نہ دی ۔ طلاق پوپ کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہنری نے انگریزی کلیسا کو رومی کلیسا سے الگ کرلیا۔ اور کلیسائے انگلستان کے نام سے ایک نئے کلیسا کی بنیاد رکھی ۔ اس کلیسا کا سربراہ خود بادشاہ تھا۔ انگریزی اور رومی کلیسا میں صرف ایک ہی فرق تھا کہ یہاں دعائیں انگریزی زبان میں پڑھی جاتی تھیں اور رومی کلیسا میں لا طینی زبان میں ، باقی تمام مذہبی رسوم وہی تھے جنہیں پاپائے روم کی سند حاصل تھی ۔ حتیٰ کہ بادشاہ پوپ کے عطاء کردہ خطاب ” محافظ ملت “ سے بھی دست بردار نہیں ہوا تھا۔ ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں انگریزی کلیسا نے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقائد کے لحاظ سے درمیانی راستہ اختیار کرلیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب کوئی رومن کیتھولک حکمران برسر اقتدار آتا تو وہ پروٹسٹنٹوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھاتا اور جب کوئی پروٹسٹنٹ حکمران عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لیتا تو رومن کیتھولکوں کو مظالم کا نشانہ بناتا ۔ عوام کو مظالم سے نجات دلانے کے لیے کلیسائے انگلستان نے ایسی درمیانی راہ اختیار کرلی گویہ روشن بھی عارضی تھی۔ سترہویں صدی عیسوی میں پیورٹین تحریک (Puritans) وجود میں آئی ۔ جس کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ انگریزی کلیسا رومن کلیسا کے طرز عمل اور عقائد کو ترک کر دے۔ پھر تحریک انا بسٹسٹس (Anabastists) منصہ شہود پر آئی ۔ اس کے لفظی معنی ہیں : دوبارہ بپتسمہ لینے والے۔ وہ بالغ لوگوں کو دوبارہ بپتسمہ لینے پر مجبور کرتے تھے۔ 1611 ء میں تھامس ہلو وس (Thamas Helwvs) نے بپٹسٹ (Bptist) کلیسا کی بنیاد ڈالی ۔ اس کو قید کردیا گیا اور قید خانے میں ہی اس کا انتقال ہوگیا ۔ 1660 ء تا 1689 ء کا زمانہ ان لوگوں کے لیے نہایت ہی کٹھن اور آزمائش کا زمانہ تھا۔ بعد میں مصائب کے بادل چھٹ گئے اور آزادی سے اپنے نظریات کی تبلیغ اور اشاعت کرنے لگے۔ یہ فرقہ بھی بعض ذیلی فرقوں میں منقسم ہوگیا ۔ ایک اور فرقہ جس نے انگریزی کلیسا کی مخالفت کی وہ کو یکر (Quacker) کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا بانی فاکس تھا۔ کو یکر کے معنی ڈرنے والے کے ہیں ۔ جب فاکس ایک عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے جج سے کہا تھا : ” خدا سے ڈرو “ اس وقت سے اس کو پیروکار اور متبعین اسی نام سے موسوم ہوگئے۔ اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو ” انجمن احباب “ (Society of Friends) ” احباب صداقت “ کہا کرتے تھے ۔ اس فرقہ کے کوئی خاص متعین عقائد نہیں تھے۔ اس وجہ سے جو بھی اس فرقہ میں داخل ہوتا تھا اس سے کوئی بھی عہد نہیں لیا تھا۔ ان کے ہاں نہ تو کسی پادری کی گنجائش تھی اور نہ کسی کلیسا کی ۔ ان کا یہ نظریہ تھا کہ حقیقی مذہب انسان کے دل میں ہوتا ہے جس کو وہ نور داخلی کہتے تھے اور جس جگہ بھی چند نیک اور سچے عیسائی جمع ہوجاتے ہیں وہی جگہ مقدس بن جاتی ہے۔ اس لیے گرجا کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح اس فرقہ کا یہ بھی نظریہ ہے کہ وعظ و نصیحت اور تبلیغ کے لیے کسی خاص طبقہ کی ضرورت نہیں بلکہ یہ وہ مقدس ملکہ ہے جو روح القدس کی طرف سے ملتا ہے۔ اس وجہ سے جس شخص کو بھی یہ ملکہ عطا ہو وہ وعظ ونصیحت کرسکتا ہے۔ اس فرقہ کے لوگ مذہبی رسوم کے قائل نہیں ۔ ان کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاموشی سے ہم کلامی ہونا ہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ فرقہ مرد اور عورت کو مساوی حقوق دینے کا حامی تھا۔ ان عقائد کی وجہ سے اس فرقہ کی تمام فرقوں نے شدید مخالفت کی اور ان کو نہایت ہی سفاکی سے قتل کیا گیا ۔ قارئین کرام ! آپ لوگوں سے التجاء عرض ہے کہ اوپر دیئے گئے مسیحی فرقوں اور مسیحیت کے عقیدوں ، کفاروں ، رسموں اور کلیسوں کی ذمہ داریوں اور ان کی بد اعتدالیوں کا حال بغور پڑھا ہوگا اور امید ہے کہ میری اپیل کے مطابق اپنے مذہبی رہنمائوں ، ٹھیکہ داروں ، پیروں ، مرشدوں ، قاضیوں ، مفتیوں ، گدی نشینوں ، سجادہ نشینوں ، خانقاہوں ، درباروں کے مجاوروں اور ملنگوں سے ان کا تقابل بھی کیا ہوگا ۔ ایمانداری سے کہئے کہ آپ نے کیا فرق پایا ؟ اچھا ایک بار پھر غور کرلیں کہ کیا سوائے ناموں کے فرق کے جو زمانہ نے ماحول کے مطابق بدل دیئے کسی طرح کا کوئی فرق پایا ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس سے سمجھ لو کہ جو ان لوگوں کی سیاسی صورت حال تھی وہی آج کل ہماری سیاسی صورت حال ہے اور جو اس وقت ان کی مذہبی صورت حال تھی وہی آج کل ہماری مذہبی صورت حال ہے۔ قرآن کریم نے ان میں سے بعض کو ایمان والے کہہ کر اس حالت سے مستثنیٰ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ : ( فاتینا الذین امنوا منھم اجرھم) ” ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ہم نے ان کو ان کا اجر عطاء کردیا “ اور آگے ارشاد فرمایا کہ : ( فکثیر منھم فاسقون) ” اکثریت ان کی فاسق ہی تھی “ اس طرح آج بھی ہم میں یقینا ایمان لانے والے موجود ہیں لیکن ہماری اکثریت بھی اسی طرح فاسقوں ہی کی اکثریت ہے فرق ہے تو فقط اتنا کہ وہ اپنے آپ کو عیسائی کہتے تھے اور ہم مسلمان کہلاتے ہیں اس انطباق سے میرا مقصود یہ ہے کہ قارئین حضرات اپنی اپنی جگہ اس صورت حال کے بدلنے کی کوشش کریں اور اس بناوٹ سے دور رہیں اور حقیقت میں اسلامی طرز زندگی کو اپنائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اکثریت ہی میں سے ہوجائیں اور خصوصاً اس اکثریتی نظام کو بدلنے کی کوشش کریں چونکہ جب یہ تسلیم ہوگیا کہ اکثریت فاسقوں ہی کی رہی ہیں اور اس وقت بھی ہے تو اکثریت کے بل پوتے پر چلنے والا سیاسی نظام کبھی اسلامی نظام نہیں ہو سکتا خواہ اس طرز حکومت کو اپنا کر کون بھی حکومت کرنے لگے وہ حکومت فاسقوں ہی کی حکومت ہوگی اور فاسقوں سے اسلام کی توقع عبث ہے اور جس طرح صرف عبد اللہ اور عبد الرحمن نام رکھ لینے سے اسلام نہیں آجاتا اسی طرح جماعتوں کا نام جمعیت اہل حدیث ، جمعیت علمائے اسلام ، نظام مصطفیٰ ، جیش محمد ، سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ جیسے نام رکھ لینے سے اسلام نہیں آتا اور نہ ہی آسکتا ہے۔ ( یا ایھا الذین امنوا امنوا باللہ ورسولہ والکتب الذی نزل علی رسولہ) ( 4 : 139)
Top