Urwatul-Wusqaa - Al-Hashr : 7
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ
مَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : جو دلوادے اللہ عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول کو مِنْ : سے اَهْلِ الْقُرٰى : بستی والوں فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لئے وَ للرَّسُوْلِ : اور رسول کے لئے وَ لِذِي الْقُرْبٰى : اور قرابت داروں کیلئے وَالْيَتٰمٰى : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ : اور مسافروں كَيْ لَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے دُوْلَةًۢ : ہاتھوں ہاتھ لینا (گردش) بَيْنَ : درمیان الْاَغْنِيَآءِ : مال داروں مِنْكُمْ ۭ : تم میں سے تمہارے وَمَآ اٰتٰىكُمُ : اور جو تمہیں عطا فرمائے الرَّسُوْلُ : رسول فَخُذُوْهُ ۤ : تو وہ لے لو وَمَا نَهٰىكُمْ : اور جس سے تمہیں منع کرے عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ : اس سے تم باز رہو وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزادینے والا
جو مال (بلا جنگ کیے) اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو (مخالفین کی) بستیوں سے دلوا دیا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کا حق ہے اور (اس لیے یہ مال اللہ کی راہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے خرچ ہوگا) عزیزوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں (سارا مال) انہیں میں نہ پھرتا رہے اور جو کچھ رسول ﷺ تم کو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بلاشبہ اللہ کا عذاب سخت ہے
اللہ تعالیٰ کے رسول کے مال ہونے سے اصل مراد بھی واضح کردی 7 ؎ جیسا کہ ہم نے پیچھے اشارہ کیا ہے کہ مال فے اور مال غنیمت میں فرق ہے اور یہ بھی عرض کیا ہے کہ وہ فرق کیا ہے ؟ زیرنظر آیت میں اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مال کہنے اور اللہ کے رسول کا مال کہنے کا مطلب کیا ہے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ تو بےناتز ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے جو اموال اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی طرف لوٹاتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے لیے بحیثیت سربراہ مملکت اسلامی ہے اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے لیے ہے ، یتیموں کے لیے ہے ، مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے ہے ۔ ان اموال کے متعلق جو نبی اعظم و آخر ﷺ کی وفات کے بعد بحث پیدا ہوئی اور پھر اس بحث نے بڑھتے بڑھتے ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلی یہ سب کچھ صحابہ کرام ؓ کے دور کے بعد کے لوگوں کی موشگافیوں کے نتیجہ میں فرضی طور پر پیدا ہوتی ہیں ۔ صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں اس طرح کی قطعا ً کوئی بحث پیدا ہی نہیں ہوئی تھی ۔ صحابہ کرام ؓ کے دور کے بعد جب بعض منافقین نے اس طرح کے فرضی سوال پیدا کیے تو ان فرضی سوالوں کے فرضی جواب دیئے گئے اور جب احادیث کے مدون ہونے کا وقت آیا تو اس وقت اس طرح کی بحثیں لوگوں میں پیدا ہوچکی تھیں ، سوال کرنے والے بھی موجود تھے اور ان سوالوں کے جواب دینے والے بھی جس وجہ سے بعض احادیث میں بھی اس بحث نے جگہ حاصل کرلی اور پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا تو یہ بحث بھی دوسری بہت سی بحثوں کی طرح بہت پھیل گئی اور منافقین زمانہ نے اس کو ایسی ہوا دی کہ اس پر شیعہ سنی کی شکل میں دو مکاتب فکر پیدا کردیئے اور آہستہ آہستہ ان کے بعد کو خاص سازش کے تحت بڑھایا گیا اور اس طرح جو اسلام کو نقصان وہ پہنچانا چاہتے تھے اس میں بلا شبہ وہ بہت حد تک کامیاب ہوگئے جس کے اثرات آج تک موجود ہیں اور اب ان کے ختم ہونے کی کوئی صورت بھی بظاہر نظر نہیں آتی ۔ ہم اس جگہ اس بحث کو اٹھا کر اسکو مزید بڑھانا نہیں چاہتے ، ہم نے محض چلتے چلتے اس کا تذکرہ کیا ہے تاکہ صورت حال کا قارئین کو پتہ چل جائے ۔ ہم اس جگہ اختصار کے ساتھ صرف اور صرف یہ عرض کریں گے کہ قرآن کریم نے ان اموال کے متعلق جو اشارات دیئے ہیں وہ آج بھی من و عن موجود ہیں اور ہم سب کا حق ہے کہ ہم ان اشارات پر غورو فکر کریں ، فرضی باتوں پر کان نہ دھریں اور ایک دوسرے سے الجھتے ہیں نہ رہیں بلکہ اس الجھائو کے ختم ہونے کی امانت و دیانت کے ساتھ فکر کریں اگر کرسکتے ہیں۔ غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی اللہ کی راہ میں یا اللہ کے لیے مال خرچ کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں اس کی وضاحت کردی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے مالوں کی حاجت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو دینے کا مطلب فقط اس کے حکم کے مطابق اموال کو خرچ کرنے کا نام ہے اور جو مال اللہ تعالیٰ کے لیے کہے جاتے ہیں ، کہے جا رہے ہیں اور کہے جاتے رہیں گے وہ اس معاشرہ میں موجودہ غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں اور دوسرے ضرورت مندوں ہی کے لیے ہیں اور جہاں تک اللہ کے رسول ﷺ کے اموال کا ذکر ہے تو اس میں اللہ کا رسول بحیثیت سربراہ مملکت اور اس کے رشتہ دار جو اس کی کفالت میں ہیں اور ان کی ضروریات زندگی رسول اللہ ﷺ کے ذمہ میں آتی ہیں ان کو بقدر ضرورت پورا کیا جائے گا اور باقی اموال کو بیت المال میں جمع کر کے سارے انسانوں کی فلاح و بہود کے لیے خرچ کیا جائے گا اور ان اموال میں سے ہر صاحب ضرورت کی ضرورت کو پورا کیا جائے گا اور صاحب ضرورت کی وضاحت بھی کردی کہ وہ آپ ﷺ کے رشتہ دار ہیں جن کی کفالت آپ ﷺ کے ذمہ ہے پھر اس طرح یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے حسب ضرورت خواہ وہ کون ہوں اور کیسے ہوں کیونکہ یہ حق انسانیت ہے جس کو ادا کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے حصے بیان نہیں کیے گئے کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے یا آپ ﷺ کے رشتہ داروں کے لیے یا دوسرے یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے یا اس طرح کے دوسرے حاجت مندوں کے لیے ان میں سے کتنا کتنا حصہ ضروری ہے اور اس کی وضاحت کیوں نہ فرمائی گئی ؟ اس لیے کہ اللہ کا رسول ﷺ خود اس کی وضاحت کر دے گا اور وقت ضرورت کے مطابق جس مد میں زیادہ ضرورت ہوگی اس میں کمی بیشی کرلی جائے گی اور یہ کام اللہ کا رسول ﷺ محض سربراہ مملکت کی حیثیت سے انجام دے گا ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ ﷺ نے اس حکم کے مطابق عمل بھی فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر فرمایا اور یقینا فرمایا تو اس بات کی وضاحت جو آپ ﷺ کا حکم کرے گا وہی اسلام کا قانون متصورہو گا ۔ آپ ﷺ کی موجودگی میں آپ ﷺ نے جو جائیدادیں ، زمینیں اور دوسرے اموال اپنے رشتہ داروں کے کنٹرول میں دے دیئے وہ ان کے جو دوسرے لوگوں میں تقسیم کیے جن کا ذکر آیت میں کیا گیا وہ ان کے بنو نضیر کے اموال کے بعد آپ ﷺ نے کم و بیش 6 ، 7 سال مدینہ میں گزارے کیا اتنے عرصہ میں جو ان کا انتظام کیا گیا وہ ہمارے فیصلہ کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یقینا کافی ہے تو اس کو دیکھ لیا جائے تو سارا جھگڑا ختم ہو سکتا ہے بشرطیکہ جھگڑا ختم کرنے کا ارادہ بھی ہو اور اگر ارادہ جھگڑتے ہی رہنے کا ہو تو اس کو ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت بھی ختم نہیں کرسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ جھگڑا نہ ختم ہوا اور نہ ہی اس کے ختم ہونے کی کوئی صورت موجود ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ ہم اس کو ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں ، بڑھا رہے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے جب بھی یہ بحث چھڑتی ہے جہاں بھی چھڑتی ہے تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت سے اس کو شروع کردیا جاتا ہے حالانکہ یہ بحث یہاں سے شروع کرنا ہی جھگڑے میں پڑنے کے مترادف ہے کیونکہ اس بحث کا تعلق سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت سے مطلق نہیں ہے اور جو شخص بھی اس بحث کو یہاں سے شروع کرتا ہے خواہ وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ اس بحث کو نہ ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی کبھی کرسکے گا کیونکہ اس بحث کو اس جگہ سے شروع کرنا ہی غیر فطری چیز ہے لکنط افسوس کہ ان باتوں کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ مرزاجی نے نبوت کا دعویٰ کیا سو کیا لیکن کسی نے پوچھا کہ مرزا جی کی نبوت کا نبوت کیا ہے ؟ تو جھٹ اس کو جواب دیا گیا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پا گئے۔ کوئی پوچھے کہ کہاں عیسیٰ (علیہ السلام) اور کہاں مرزا جی اور کہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے ساتھ مرزا جی کی نبوت کا کیا تعلق ہے ؟ ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ بات مرزا جی کی نبوت کی اور بحث عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات یا زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزا جی کی چالاکی تھی کہ انہوں نے لوگوں کو اس گورکھ دھندے میں ڈال دیا اور عوام تو عوام خواص بھی ان کے اس جال کو بہت کم سمجھ سکے اور ساری زندگی یہی لڑائی لڑی جاتی رہی تا آنکہ حکومت نے ان کے ماننے والوں کو کافر قراردے دیا ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ جب بھی کوئی عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کا ذکر کرتا ہے تو جھٹ اس پر مرزائی ہونے کا فتویٰ داغ دیا جاتا ہے گویا اس کے لیے یہی غوری میزائل ہے جو اس کو فوراً لے جالے گا خواہ وہ کون ہو اور کہاں بھی ہو ۔ ہمیں افسوس ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پا گئے ایک بہت پرانا مسئلہ تھا اور جن لوگوں نے اس کے لیے دلائل جمع کیے اور قوم کو سمجھانے کی کوشش کی مرزا صاحب نے ان ہی لوگوں سے اس کو ہتھیا لیا اور اس پر اپنی دکانداری چمکا دی لیکن جب تک وہ خودزندہ ہے انہوں نے جس طرح اس کو گوکھ دھندا بنائے رکھا اسی طرح اپنی نبوت کے جال کو بھی گورکھ دھندا بنانے کی کوشش کی اور وقتی حکومت کا آلہ کار بن کر اپنا وقت گزارتے رہے جوں ہی وہ مرے تو امت مرزائیہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور بالکل تھوڑے عرصے کے بعد مرزا بشیر الدین نے نبوت کے کھیل کو پکارکر اپنے مخالفین کو غیر مبایعین کا نام دیا اور آپس میں دونوں گروہ متحارب ہوگئے پھر اس کا جو انجام ہوا وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ بات ہم نے ضمناً کہہ دی ہے مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں بحث کچھ ہوتی ہے اور اس کو کچھ بتا دیا جاتا ہے جس سے حقیقت پر دہ میں مستورہو جاتی ہے اور بحث ایک ایسا رخ اختیار کرلیتی ہے کہ اس کا اصل مبحث سے کچھ تعلق ہی قائم نہیں ہوتا اور اس طرح ایک ایسی لڑائی لڑی جاتی ہے جس کا کوئی سر اور پیر نہیں ہوتا ۔ آج بھی اگر اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ قرآن کریم اللہ نے جس دل پر نازل کیا ہے اور جس کو اللہ نے آخر الزمان نبی و رسول بنا کر مبعوث کیا انہوں نے اس آیت پر کس طرح عمل کیا تو بات بالکل واضح اور صاف ہوجاتی ہے اور حقیقت کا کھول بھی نکل آتا ہے لیکن چونکہ اس طرح بات ختم ہو سکتی ہے لہٰذا ہم اس کی طرف قطعاً توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ہم اس بات کو آپ ﷺ کی وفات کے ساتھ لازم کرتے ہیں اور ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت سے اس کو شروع کرتے ہیں اور جو طریقہ آپ ﷺ نے شروع کر رکھا تھا جب وہی ابوبکر صدیق ؓ نے جاری رکھا ہے تو پھر اعتراض کرنے کا حق ابوبکر صدیق ؓ پر آخر کیوں ہوا ؟ اگر اعتراض کرنا ہی تھا تو براہ راست رسول اللہ ﷺ پر کیا جاتا تاکہ معترضین کے اعتراض کی حقیقت کھل جاتی اور ان کے ایمان کا جنازہ نکلتا ، سب دیکھ لیتے اور بات واضح ہوجاتی اور بحث بھی اختتام کو پہنچ جاتی لیکن اس طرح سیدھی بات کرنا اتنا مشکل کردیا گیا کہ اب اس طرح کی سیدھی اور صاف بات کرنا ایمان سے خارج ہونا قرار دیا جانے لگا ۔ خیر یہ تو ہمارے مفسرین کی بحث ہے جو نہ ختم ہونے والی ہے نہ آج تک ہوئی اور نہ ہی قیامت تک ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم ایسے اموال کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے متعلق کیوں کردیتے ؟ فرمایا اس لیے کہ دولت پر صرف دولت مندوں ہی کا حق لازم نہ کردیا جائے جیسا کہ زمانہ میں ہوتا آیا ہے کہ جن ہاتھوں میں دولت ایک دفعہ جائز و ناجائز طریقوں سے اکٹھی ہوجاتی ہے پھر ہوتی ہی چلی جاتی ہے اور لوگ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے کی مثال دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور اسلام اس بات کا حامی نہیں ہے اس لیے اسلام نے جو معاشی نظام پیش کیا اس میں ان لوگوں کی ضروریات زندگی کا خیال رکھا جو ان زمروں میں داخل ہیں جن میں مال کما کر حاجات و ضروریات کو پورا نہیں کیا جاسکتا اور ان سارے کمزور انسانوں کو معاشرہ میں برابر لانے کے لیے ایسے اقدام کیے جن سے ان کے برابر برابر لانے میں مدد دی جاسکے اور پھر صرف یہ اموال غنیمت اور فے ہی میں نہیں بلکہ اسلامی نظام حیات میں ایسے طریقوں کو لازم اور ضروری قرار دیا جن سے ایسے نتائج برآمد ہوں اور ملکی وسائل سکڑ کر ایک مخصوص طبقہ میں اکٹھے نہ ہوجائیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ان کا پھیلائو زیادہ سے زیادہ وسیع ہو ۔ اس نے تمام ایسی پیش بندیاں کردی ہیں جن سے سرمایہ سکڑ نے کے عمل کو روکا جاسکے اور اس کے دائرہ اثر کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاسکے۔ موضوع کے پیش نظر زیر نظر آیت میں اگرچہ محض اموال فے ہی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے لیے جو اصولی بات سمجھائی گئی ہے اس میں بہت وسعت ہے اور اسلام نے جو اس معاملہ میں پیش بندیاں کی ہیں ، جو سرمایہ کو مخصوص ہاتھوں ہی میں سکڑتے چلے جانے سے روکتی ہیں ان پر ایک مختصر نظر ڈال لیں تاکہ اس کی بھی وضاحت ہوجائے۔ چناچہ اسلام نے کتب معاش کے وسائل کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے اور پھر ایک کا نام حلال اور دوسرے کا نام حرام رکھا ہے اور حرام میں تمام ایسے وسائل ذکر کردیئے ہیں جن کے ذریعہ محنت کے بغیر بڑی آسانی کے ساتھ دولت امڈتی چلی آتی ہے۔ اس میں اول نمبر پر سود کو رکھا ہے پھر اس کی دوسری شاخوں پر توجہ دی ہے یعنی جوا ، سٹہ بازی ، زخیرہ اندوزی ، سمگلنگ (Bribery) چور بازاری اور رشوت ستانی جیسے بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں طریقے اس میں شامل ہیں جن کی حرمت اسلام میں واضح الفاظ میں موجود ہے اور مالی مساوات کے لیے سب سے پہلے اس نے وراثت کے اصول مقرر کیے ہیں جس سے جائیدادیں ، زمینیں ، فیکٹریاں ، کو ٹھیاں اور دوسرے سارے اموال فطری طور پر ادلتے بدلتے لازم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد نظام زکوٰۃ جس کو اگر اسلامی خطوط کے مطابق چلایا جائے تو حکومت سے کوئی شخص دولت کو پوشیدہ رکھ ہی نہیں سکتا خواہ وہ کون ہو اور پھر صدقات و خیرات کو لازم قرار دیا اور ان کا تعلق آخرت کے ساتھ جوڑ کر اپنی دولت اور مال کو دوسروں کے لیے خرچ کرنے کا جذبہ پیدا کیا ۔ یہ دوسری بات ہے کہ مسلمان کہلانے والوں نے اپنا نام مسلمان ہی رکھا اور کام سارے کفر کے سنبھال لیے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے اگر آپ ذرا ایمانداری اور دیانتداری سے تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آج بھی جہاں اور جس جگہ جس خاندان اور جس فرد کے پاس دولت کے بےپناہ ریل پیل دیکھیں گے یا سنیں گے وہاں ان ممنوع وسائل معاش میں سے کوئی نہ کوئی صورت ضرور پائیں گے خواہ وہ کون ہو ، کہاں ہو اور کیسا ہو اور کسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے ملک میں اتنے بڑے سرمایہ دار پاتے ہیں کہ اگر آپ اس ملک کو فروخت کرنا چاہیں تو ان میں سے ایک ایک خاندان اور ایک ایک فرد اس کو خرید سکتا ہے لیکن دولت خداداد پاکستان کا قومی خزانہ ہے تو اس کا فقط نام خزانہ رکھا ہوا ہے ۔ جس طرح ہمارے ملک میں خدا کے خانوں میں بیٹھنے والے پروہتوں اور مہتوں کا کردار ادا کر رہے ہیں اور قومی خزانے پر بیٹھنے والے بھی بڑے بڑے مہاجن و سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں اور مثل ہے کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے ، پھر طاقتور کمزور کو اپنی طرف کسی نہ کسی طرح بہر حال کھینچ ہی لیتا ہے اور جب یہ بات حقیقت ہے کہ قومی خزانے کے مقابلے میں ان پروہتوں ، مہتوں ، مہاجن ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خزانوں کی طاقت زیادہ ہے لہٰذا قومی خزانے میں جو مانگے کا مال لایا جاتا ہے وہ بھی طاقتور خزانے اپنی طرف کھینچ کرلے جاتے ہیں پھر اس کا نتیجہ کیا نکلنا چاہیے ؟ یہی کہ طاقت ور مزید طاقت ور ہوتا جائے اور کمزور مزید کمزور تر اور یہ سلسلہ بہر حال جاری ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ” اے مسلمانو ! جو کچھ بھی تم کو اللہ تعالیٰ کا رسول دے اس کو لے لو اور جس سے باز رکھے اس سے رک جائو “۔ آج ہم آیت کے اس حصے کو ہر سٹیج کی زینب بناتے ہیں لیکن اس کے مفہوم کو خاص مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مثلاً ہمارا سواد اعظم اس کو پڑھتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ نمازوں میں رفع الیدین ، آمین بالجہر اور فاتحہ خلف الامام کو منع کیا گیا ہے اور آیت مطالبہ کر رہی ہے کہ جن لوگوں نے نماز کے اندر یہ کام کیے انہوں نے نماز کا سارا مفہوم ضائع کردیا اور اس کو نماز کوئی نہیں ہوگی اور اسی طرح جو اصل مسئلہ اموال کا تھا اس کو بالکل صاف کردیا اور بھول کر بھی کبھی کسی نے اس کا نام نہ لیا کہ اصول معیشت اسلامی میں جس چیز سے اللہ کے رسول نے تم کو منع کیا اس کے قریب بھی نہ جائو اور جس کی اجازت دی ہے اس کی پوری طاقت اور قوت سے نافذ کرو تاکہ تمہاری معیشت اسلامی معیشت کہلاسکے اور دنیوی معاشروں میں تم بحیثیت مسلمان پہچانے جاسکو۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، بد اعتدالیاں نہ کرو کیونکہ اگر تم بد اعتدالیاں کرو گے تو بلا شبہ تم کو سخت عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ پیچھا کرنے میں بہت سخت ہے کہ جب وہ کسی کا پیچھا کرے تو کوئی شخص بھی اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا اور یہ اسی کا فضل و کرم ہی ہے کہ وہ کسی کا پیچھا ہی نہ کرے۔
Top