Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 83
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ۖ٘ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : ہم نے نجات دی اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : مگر امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ تھی مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہنے والے
پس لوط (علیہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو تو ہم نے بچالیا مگر اس کی بیوی نہ بچی کہ وہ بھی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی
انجام کار لوط (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کو چھوڑ کر باقیوں کو ہلاک کردیا گیا : 94: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً کچھ لوگ تھے جو لوط (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے کیونکہ پیچھے ” اناس “ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی دراصل گروہ کے ہوتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ وہ ان کے اہل کیسے ہوگئے جب کہ آیت میں ذکر ” اہل “ کا ہے تو اس کے متعلق بڑی تفصیل سے ہم لکھ چکے ہیں کہ نبی کے اصل اہل سے اس پر ایمان والے ہی مراد ہوتے ہیں اس جگہ اہل کا ذکر کر کے یہ بات واضح کردی کہ لوط (علیہ السلام) کے اپنے اہل سب ہی سچے مسلمان تھے اس لئے ان کو عذاب الٰہی سے بچایا گیا ہاں ! ان کی اہلیہ آپ کے اہل ہونے کے باوجود غرق کردی گئی اور وہ عذاب کی گرفت میں پھنس گئی جس کی اصل وجہ اس کے دل میں سچے ایمان کا فقدان ہی تھا اور یہ بھی کہ وہ حسب ونسب کے لحاظ سے اس بستی والوں کے ساتھ تھی اور قوم کی عصبیت اکثر حق کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہی ہے اور بن رہی ہے اس زنجیر کو توڑنے میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کے اندر خدا کی لگن اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ ہر مخالف جذبہ پر غالب آجاتی ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو نمایاں کرنے کے لئے فرمایا کہ نجات کی راہ صرف ان لوگوں کے لئے کھلتی ہے جو خود اس کے طالب ہوں اور دوسری چاہتوں کو جو اس میں روک بنیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں اگر یہ عشق حق اور اس کے لئے قربانی کا جذبہ کسی میں نہ ہو تو ایک پیغمبر کی بیوی ، ایک پیغمبر کا بیٹا ، ایک پیغمبر کا باپ ہونا بھی ذرا آدمی کے لئے نافع نہیں ہوتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے چچا کا انجام اس حقیقت کی ناقابل تردید شہادت ہے۔ تفصیل ان کی انشاء اللہ اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔
Top