Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا کیا کہ اس کے باشندوں کو سختیوں اور نقصانوں میں مبتلا کردیا تاکہ سرکشی سے باز آئیں اور عاجزی و نیازمندی کریں
عذاب نازل کرنے کے متعلق سنت اللہ کی مزید تشریح قرآن کریم کی زبان سے : 105: اب یہ سنت اللہ بیان کی جا رہی ہے جس سے ایک طرف تو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کسی قوم پر جس میں اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہے عذاب بھیجنے کے معاملے میں وہ کیا طریقہ اختیار فرماتا ہے اور دوسرے اس تاریخی حقیقت اور شہادت کو سامنے لانا ہے کہ جس قوم نے بھی ایمان لانے کی شرط نشانی عذاب کو ٹھہرایا اس کو ایمان کی سعادت حاصل نہیں ہوئی بلکہ بالاخر عذاب ہی کے ذریعہ سے اس کی جڑ کاٹ دی گئی فرمایا کہ تم سے پہلے اور یہ خطاب نبی اعظم آخر ﷺ سے ہے ہم نے بہت سی قوموں کے پاس اپنے رسول بھیجے تو ان کو مختلف قسم کے مالی و جسمانی مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہو اور وہ سوچیں کہ اگر انہوں نے نبی کی بات نہ مانی تو بالاخر اللہ کی فیصلہ کن پکڑ آجائے گی اور وہ تباہ کر دئیے جائیں گے لیکن دیکھ لو تاریخ شاہد ہے کہ بجائے اس کے کہ ان الٰہی تنبیہات سے ان کے دل کچھ نرم پڑتے وہ اور سخت ہوگئے اور جن بد اعمالیوں میں وہ مبتلا تھے شیطان نے ان کو ان کی نگاہوں میں اس طرح کھبا دیا کہ وہ ان سے باز آنے کی بجائے ان میں کچھ اور دلیر ہوگئے۔ زیر نظر آیت میں دو لفظ ” باساء “ اور ” ضراء “ ایک دوسرے کے بالمقابل بیان کئے گئے ہیں۔ اس لئے پہلے سے مالی آفتیں مراد ہیں۔ مثلاً قحط ، گرانی اور کساد بازاری وغیرہ اور دوسرے سے جسمانی آفتیں مراد ہیں مثلاً بیماریاں اور وبائیں لیکن جب ” ضراء “ کا لفظ ” سراء “ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو یہ دونوں الفا ظ ہر قسم کی بد حالی اور خوش حالی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں۔ اس جگہ اس بیان کا مقصود یہ ہے کہ معلوم ہوجائے کہ ان تمام انبیاء کے زمانوں میں بھی یہ سنت اللہ ظاہر ہوئی جن کی سرگزشتیں اوپر بیان ہوئیں وہ سنت کیا ہے ؟ یہی کہ جب نبی توبہ و استغفار اور جزاء و سزاء کی منادی شروع کرتا تھا تو اس کی محرکات و مویدات اس کائنات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ ایک طرف پیغمبر لوگوں کو غفلت و خدا فراموشی کے انجام فساد فی الارض کے نتائج اور دنیا اور آخر میں اللہ کی پکڑ سے ڈراتا ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیلاب ، قحط ، وبا اور طوفان کی آزمائشوں میں بھی مبتلا کردیتا تھا تاکہ لوگ آنکھوں سے بھی اگر ان کے پاس دیدہ بینا موجود ہو تو دیکھیں کہ اس طرح اللہ جب چاہتا تھا اور جہاں سے چاہتا تھا پکڑ لیتا تھا لیکن نبی (علیہ السلام) کی زبان سے وہ اس وقت کا اعلان کروا دیتا تھا اور اسی طرح کی گرفت اب بھی جب وہ چاہے آسکتی ہے فرق یہ ہے کہ اس وقت ان کا حتمی وقت نہیں بتایا جاسکتا اور اس کے لئے جو اصول بنایا گیا اس کا اعلان اللہ نے سورة الم السجدہ میں بھی کردیا۔ فرمایا کہ ہم نبی آخر ﷺ کی امت کو چھوٹے چھوٹے عذابوں میں مبتلا کر کے دکھاتے رہتے ہیں کہ ان پر کوئی بڑا عذاب بھی بھیجا جاسکتا ہے لیکن یہ چھوٹے چھوٹے عذاب دے کر تم کو سمجھایا ہے کہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے کہ باز آجائو اور بد اعمالیاں چھوڑ دو ورنہ قیامت کے ایک بہت بڑے عذاب میں مبتلا کر کے رکھ دئیے جائو گے اور وہ وقت کسی کو بتایا نہیں گیا۔
Top