Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 93
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ١ۚ فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠   ۧ
فَتَوَلّٰي : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ : البتہ اَبْلَغْتُكُمْ : میں نے پہنچا دئیے تمہیں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری فَكَيْفَ : تو کیسے اٰسٰي : غم کھاؤں عَلٰي : پر قَوْمٍ : قوم كٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
وُہ ان سے کنارہ کش ہوگیا اس نے کہا بھائیو ! میں نے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے تھے اور تمہاری بہتری چاہی تھی اب کفر کرنے والوں پر میں کیسے افسوس کروں ؟
عذاب کے آثار دیکھتے ہی شعیب (علیہ السلام) وہاں سے منہ پھیر کر نکل گئے : 104: یہ قوم سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا آخری خطاب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انہوں نے عذاب آنے سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب قوم نے بستی سے نکل جانے یا نکال دئیے جانے کی دھمکی سنائی تھی۔ یہی وہ اللہ کا بندہ یعنی شعیب (علیہ السلام) ان کو آخری فقرہ کہہ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے ہجرت کر گیا۔ اس لئے کہ رسولوں کے متعلق سنت الٰہی یہی ہے کہ عذاب آنے سے پہلے اللہ کے حکم سے وہ علاقہ عذاب سے ہجرت کر جاتے ہیں اور قوم کو وقت متعین بتا کے جاتے ہیں کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آنے میں اتنا وقت باقی رہ گیا ہے۔ شعیب (علیہ السلام) بھی یقیناً ہجرت کر گئے اگرچہ قرآن کریم نے اس مقام کا ذکر نہیں فرمایا تا ہم تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ شعیب (علیہ السلام) ہجرت کر کے بیت اللہ یعنی مکہ مکرمہ چلے آئے اور وہاں سے نکلتے وقت بڑے افسوس بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ بھائیو ! میں نے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے تھے اور تمہاری بہتری چاہی تھی۔ “ لیکن تم نے ایک نہ مانی اور ” اب میں کفر کرنے والوں پر کیسے افسوس کروں ؟ “ اور اس وقت میرے افسوس کرنے کا آخر فائدہ ؟ اس لئے کہ جو کچھ ہونا تھا وہ تو یقیناً ہوگیا۔ اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترتیب بیان میں اس بات کو عذاب کے ذکر کے بعد بلکہ نزول عذاب کے بعد کیوں کردیا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ترتیب میں یہ تقدیم و تاخیر تقاضائے بلاغت سے ہوتی ہے۔ ارتکاب جرم اور اس کے نتیجہ کے فوری ظہور کو نمایاں کرنے کے لئے یہاں عذاب کے ساتھ ہی نتیجہ کو بیان کردیا جن اعمال کے نتیجہ میں ان کو یہ عذاب دیا گیا۔ یقینی طور پر ہونے والی چیز کو اس طرح بیان کردیا گویا جیسے وہ ہوگئی اور یہ اسلوب بیان قرآن کریم میں عام ہے اس طرح کا بیان قبل ازیں الاعراف کی آیت 79 میں گزر چکا ہے یہاں بھی ہے اور آئندہ سورة ہود میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت کے سلسلہ میں بھی آئے گا۔ ان سارے مقامات کو پیش نظر رکھنے سے آپ بھی یقیناً اس نتیجہ پر ہی پہنچیں گے جو ہم نے اس جگہ ذکر کردیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مطلب آنے والی قوموں کو سبق سکھانا ہے تاکہ ان کی سمجھ میں اصل بات ذرا آسانی سے آجائے اور وہ اس سے سبق حاصل کرسکیں۔ بشرطیکہ کوئی سبق سیکھنے والا بھی ہو۔
Top