Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 110
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں کو شک و شبہ سے مضطرب رکھے گی مگر یہ کہ ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں اور اللہ سب کا حال جاننے والا حکمت والا ہے
انہوں نے مسجد کیا تعمیر کی دلوں کے ساتھ چمٹ جانے والا روگ لگ گیا : 143: بظاہر عمل کتنا ہی اچھا دکھائی دے جب غرض فساد پر مبنی ہو تو وہ کبھی اچھا نہیں رہتا۔ جن لوگوں نے اس مسجد کو تعمیر کیا ، کیا انہوں نے مال و دولت صرف نہیں کیا تھا ؟ اس جگہ اور مکان کا نام مسجد نہیں رکھا تھا ؟ وہ وہاں نمازیں نہیں ادا کرتے تھے ؟ بلاشبہ انہوں نے مال و دولت اس پر صرف کیا اس کا نام بھی مسجد رکھا اور نمازیں بھی وہیں ادا کرتے تھے لیکن اصل غرض وغایت ان کی درست نہ تھی اس لئے وہ عنداللہ ان کے لئے دوزخ کا گڑھا ثابت ہوا اور پھر یہ تو اس کی حقیقت اخروی تھی جو دنیوی صورت حال تھی اس کا اس طرح بیان فرمایا کہ ان منافقین نے اپنے اندر نفاق کی جڑ اتنی مستحکم کردی ہے کہ اب یہ ان کے دلوں کے ساتھ ہے۔ ان کا نفاق اس طرح ایک ایک رگ میں جڑ جما چکا ہے کہ اب اس کا اکھاڑنا ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے گویا اب یہ داغ تو کپڑے کے ساتھ ہی جانے والا ہے اس طرح فرمایا گیا کہ ” یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں کو شک و شبہ میں مضطرب رکھے گی۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ عملی عمل کے اثرات و نتائج میں بڑا فرق ہوتا ہے یوم تو نفاق کا ہر عمل اپنے اندر زہریلے اثرات رکھتا ہے لیکن مسجد ضرار جیسافتنہ کھڑا کردینا ایک ایسا عمل ہے جس کے نتائج و اثرات سے جان چھڑانے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ یہ رگ و پے میں جاری وساری ہوجاتا ہے اس لئے اس جگہ ارشاد فرما دیا کہ دوسرے منافقین کو تو شاید تو فیق مل ہی جائے کہ وہ نفاق سے توبہ کرلیں جیسا کہ بعض نے توبہ کر بھی لی جیسا کہ پچھے ذکر گزر چکا لیکن وہ لوگ اس کام میں کرتا دھرتا تھے سامری کی طرح ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے یعنی وہ تباہ و برباد ہوئے اور مرنے کے بعد جہنم رسید ہوئے لیکن اپنی عادات سے باز نہ آئے شاید کہ ان کے بس کی بات ہی نہ رہی کہ اب راہ ہدایت کی طرف آسکیں۔ فرمایا : ” اللہ سب کا حال جاننے والا حکمت والا ہے۔ “ اگر ان کی ہدایت منظور ہوتی تو وہ اتنا اہم قدم ہی آخر کیوں اٹھاتے ؟ جو ایک بار اٹھ جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آسکتے۔ اس جگہ ایک بار پھر منافقین کے دروازہ پر پردہ لٹکا کر سچے مسلمانوں کا چہرہ دکھایا جا رہا ہے تاکہ ساتھ ساتھ تقابل بھی ہوتا رہے۔
Top