Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 23
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم نہ بناؤ اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا وَاِخْوَانَكُمْ : اور اپنے بھائی اَوْلِيَآءَ : رفیق اِنِ : اگر اسْتَحَبُّوا : وہ پسند کریں الْكُفْرَ : کفر عَلَي الْاِيْمَانِ : ایمان پر (ایمان کے خلاف) وَ : اور مَنْ : جو يَّتَوَلَّهُمْ : دوستی کریگا ان سے مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے مسلمانو ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھیں وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائیں) تو انہیں اپنا رفیق و مددگار نہ بناؤ اور جو کوئی بنائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو (اپنے آپ پر خود) ظلم کرنے والے ہیں
ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیزسمجھنے والوں کو کبھی دوست نہ بنانے کی تاکید : 34: پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ آیت 16 میں فرمایا تھا کہ ایسا نہ سمجھو کہ اتنے ہی میں چھوڑ دیئے جاؤ گے جتنا کچھ ہوچکا ہے بلکہ ابھی ایمان و عمل کی آزمائشیں باقی ہیں اب اس جگہ سچے مومنوں کی فضیلت بیان کرنے کے بعد زیر نظر آیت میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی کہ ایمان کا دعویٰ اور ایمان کے دشمنوں سے موالات ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر باپ اور بھائی بھی دشمنوں میں سے ہوں جب بھی تم کو ان سے کوئی علاقہ نہیں رکھنا چاہئے اور یہ حکم جماعتی زندگی کے لئے ہے خصوصاً جس میں دارالحرب یا دارالکفر اور دارالسلام کے درمیان کی دیوار بھی حائل ہو۔ انفرادی زندگی اور ایک ملک کی سکونت کے احکام اس سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے باعث لوگوں نے بہت زبردست غلطیاں کی ہیں اور انجام کار اسلام کے چہرہ پر بڑے بد نما داغ لگانے کا باعث ہوئے ہیں۔ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ سورت 9 ہجری میں نازل ہوئی تھی اور ابتدائی آیتیں سال کے آخری مہینوں یعنی حج کے مہینوں میں اعلان عام کی غرض سے مشتہر کی گئیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ مکہ فتح ہوچکا تھا اور جنگ حنین نے دشمنوں کی رہی سہی قوت بھی ختم کردی تھی۔ غزوہ تبوک میں تئیس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی تھی اور جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے سوا اور کوئی قوت نظر نہیں آتی تھی تاہم صورت حال کے بعض پہلو ایسے تھے جو کمزوری سے خالی نہ تھے مثلاً : 1 ۔ مکہ کے طلقاء کا ایک گروہ نیا نیا مسلمانوں میں داخل ہوا تھا جس کا ذکر پیچھے آیت 16 میں کیا گیا یعنی ان باشند گان مکہ کا جنہیں پیغمبر اسلام نے عفو و بخشش کی ایک بےنظیر مثال قائم کرتے ہوئے فتح مکہ کے دن آزاد کردیا تھا اور فرمایا تھا انتم طلقاء آج تم سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ یہ ابھی اسلامی زندگی کی پختگی کے محتاج تھے اور ان میں سے بعضوں سے عزیز و اقرباء دشمنوں میں ملے ہوئے تھے۔ جب اعلان جنگ ہوا تو انہیں اپنے قرابت داروں کی فکر ہوئی۔ بعضوں نے جاہلیت کی نسبی و خاندانی مصیبت کی صدا بھی بلند کی جو ابھی پوری طرح ان کے دلوں سے محو نہیں ہوئی تھی۔ 2 ۔ منافق اور کچے ایمان کے آدمی بھی ابھی باقی تھے وہ کہنے لگے اب جنگ کے اعلان کی ضرورت کیا ہے ؟ جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ 3 ۔ عام مسلمانوں میں بھی فتح و عروج کی وجہ سے کچھ نہ کچھ بےپروائی سی پیدا ہوگئی تھی ، لوگ خیال کرتے ہوں گے اب تم تمام عرب کلمہ حق کے آگے جھک گیا ہے اور دشمنوں میں کچھ دم خم باقی نہیں رہا حالانکہ مشیت الٰہی نے عروج اسلام کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ کچھ اور ہی تھا اور اس موقعہ پر طبیعتوں کی بےپروائی نہ صرف مستقبل کے لئے بلکہ موجودہ حالات کے لئے بھی خطرہ سے خالی نہ تھی۔ اندریں صورت ضروری ہوا کہ مسلمانوں کو ایمان و عمل کے عزائم کی ازسر نو تلقین کی جائے اور یاد دلایا جائے کہ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اب شروع ہوئی ہے۔ ازاں جملہ اس اعلان جنگ کی آزمائش ہے جسے دشمنوں کے عذر و فریب نے ناگزیر کردیا ہے اور ملک کے امن وامان کا استحکام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے جہاد ہی کے معاملہ میں بسا اوقات خویش و اقارب ، کنبہ اور برادری کے تعلقات مانع ہوجاتے ہیں۔ اس لئے پوری وضاحت سے فرما دیا گیا کہ جن لوگوں کو ایمان سے زیادہ کفر عزیز ہے ایک مومن انہیں کیسے عزیز رکھ سکتا ہے۔ مسلمان کی شان نہیں کہ ان سے رفاقت اور دوستی کا دم بھرے۔ حتیٰ کہ یہ تعلقات اس کو جہاد سے مانع ہوجائیں ایسا کرنے والے گنہار بن کر اپنے آپ پر ہی ظلم کریں گے اور ظلم ظلم ہی ہے خواہ کوئی اپنی جان پر کرنے والا ہو اور یہ معاملہ تو ویسے ہی اجتماعی ہے انفرادی نہیں اور مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
Top