Tafseer-e-Usmani - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصہ ہو کر8 پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو9 پھر پکارا ان اندھیروں میں10 کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بےعیب ہے میں تھا گنہگاروں سے11
8 " مچھلی والا " فرمایا حضرت یونس (علیہ السلام) کو۔ ان کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہر نینویٰ کی طرف (جو موصل کے مضافات میں سے ہے) مبعوث فرمایا تھا۔ یونس (علیہ السلام) نے ان کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ وہ ماننے والے کہاں تھے، روز بروز ان کا عناد و تمرد ترقی کرتا رہا۔ آخر بددعا کی اور قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصہ میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ان کے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوا کہ نبی کی بددعا خالی نہیں جائے گی کچھ آثار بھی عذاب کے دیکھے ہوں گے۔ گھبرا کر سب لوگ بچوں اور جانوروں سمیت باہر جنگل میں چلے گئے اور ماؤں کو بچوں سے جدا کردیا۔ میدان میں پہنچ کر سب نے رونا چلانا شروع کیا، بچے اور مائیں، آدمی اور جانور سب شور مچا رہے تھے، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، تمام بستی والوں نے سچے دل سے توبہ کی، بت توڑ ڈالے۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت کا عہد باندھا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کرنے لگے کہ ملیں تو ان کے ارشاد پر کاربند ہوں۔ حق تعالیٰ نے آنے والا عذاب ان پر سے اٹھا لیا۔ (فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ ) 10 ۔ یونس :98) ادھر یونس (علیہ السلام) بستی سے نکل کر ایک جماعت کے ساتھ کشتی پر سوار ہوئے وہ کشتی غرق ہونے لگی۔ کشتی والوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو نیچے پھینک دیا جائے (یا اپنے مفروضات کے موافق یہ سمجھے کہ کشتی میں کوئی غلام مولا سے بھاگا ہوا ہے) بہرحال اس آدمی کی تعیین کے لیے قرعہ ڈالا۔ وہ یونس (علیہ السلام) کے نام نکلا۔ دو تین مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر دفعہ یونس (علیہ السلام) کے نام پر نکلتا رہا۔ یہ دیکھ کر یونس (علیہ السلام) دریا میں کود پڑے۔ فوراً ایک مچھلی آکر نگل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس (علیہ السلام) کو اپنے پیٹ میں رکھ، اس کا ایک بال بیکا نہ ہو۔ یہ تیری روزی نہیں بلکہ تیرا پیٹ ہم نے اس کا قید خانہ بنایا ہے۔ اس کو اپنے اندر حفاظت سے رکھنا۔ اس وقت یونس (علیہ السلام) نے اللہ کو پکارا۔ (لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :87) اپنی خطا کا اعتراف کیا کہ بیشک میں نے جلدی کی کہ تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ گو یونس (علیہ السلام) کی یہ غلطی اجتہادی تھی جو امت کے حق میں معاف ہے، مگر انبیاء کی تربیت و تہذیب دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس معاملہ میں وحی آنے کی امید ہو، بدون انتظار کیے قوم کو چھوڑ کر چلا جانا ایک نبی کی شان کے لائق نہ تھا۔ اسی مناسب بات پر داروگیرشروع ہوگئی۔ آخر توبہ کے بعد نجات ملی مچھلی نے کنارہ پر آکر اگل دیا۔ اور اس بستی کی طرف صحیح سالم واپس کیے گئے۔ 9 یعنی یہ خیال کرلیا کہ ہم اس حرکت پر کوئی داروگیر نہ کریں گے، یا اسی طرح نکل کر بھاگا جیسے کوئی یوں سمجھ کر جائے کہ اب ہم اس کو پکڑ کر واپس نہیں لاسکیں گے۔ گویا بستی سے نکل کر ہماری قدرت سے ہی نکل گیا۔ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ یونس (علیہ السلام) فی الواقع ایسا سمجھتے تھے۔ ایسا خیال تو ایک ادنیٰ مومن بھی نہیں کرسکتا بلکہ غرض یہ ہے کہ صورت حال ایسی تھی جس سے یوں منتزع ہوسکتا تھا۔ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بہت سخت پیرایہ میں ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کئی جگہ لکھ چکے ہیں اور اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی۔ بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگذاشت بھی کیوں کرتے ہیں۔ 10 یعنی دریا کی گہرائی، مچھلی کے پیٹ اور شب تاریک کے اندھیروں میں۔ 11 یعنی میری خطا کو معاف فرمائیے بیشک مجھ سے غلطی ہوئی۔
Top