Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے بازوؤں سے مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح ہم نے نہیں چھوڑی لکھنے میں کوئی چیز پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے6 
6  ان آیات میں بعض حکمتوں پر متنبہ کیا گیا ہے جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ یعنی تمام حیوانات خواہ زمین پر رینگتے ہوں یا ہوا میں اڑتے ہوں، وہ بھی انسانوں کی طرح ایک امت ہیں۔ ان میں سے ہر نوع کو حق تعالیٰ نے ایک خاص وضع اور فطرت پر پیدا کیا جو ان کے معین خواص و افعال کے دائرہ میں کام کرتی ہے۔ کوئی جانور اپنے افعال و حرکات کے محدود حلقہ سے جو قدرت نے باعتبار اسکی فطرت و استعداد کے مشخص کر دئیے ہیں، ایک قدم باہر نہیں نکال سکتا۔ چناچہ ابتدائے آفرنیش سے آج تک کسی حیوان نے اپنی نوع کے محدود دائرہ عمل میں کسی طرح کی ترقی نہیں کی۔ اسی طرح ہر چیز کی استعداد و فطرت کو خیال کرلیجئے۔ حق تعالیٰ کے علم قدیم اور لوح محفوظ میں تمام انواع و اجناس کی تدبیر و تربیت کے اصول و فروغ منضبط ہیں۔ کوئی چیز نہ اس زندگی میں اور نہ مرنے کے بعد اس مکمل انضباط و انتظام سے باہر جاسکتی ہے۔ انسان جنس حیوان میں " با اختیار اور ترقی کن " حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل وتمیز کی موجودگی نے اسکے " نظام تکوینی اور قانون حیات " کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنادیا ہے کہ اب اسے حیوان کہتے بھی شرم آتی ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے، سننے اور پوچھنے سے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوۃ فکریہ سے ان کو ترتیب دیکر " حیات جدید " کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے ' نافع و ضار کے پہچاننے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر، اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے، اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دئیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کردیں، انسان کی فطری آزادی اور اسکے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے، بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو انکا دکھلانا بیکار ہے کیونکہ ان میں بھی وہی غیر ناشی عن الدلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے جائیں گے جو ہزاروں غیر فرمائشی نشانات میں کئے جا چکے۔
Top