Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور دیکھو زمین میں چلنے والا کوئی حیوان اور ہوا میں پروں سے اڑنے والا کوئی پرند ایسا نہیں جو تمہاری ہی طرح اپنی امتیں نہ رکھتا ہو ہم نے نوشتہ میں کوئی بات بھی فروگزاشت نہیں کی پھر سب اپنے پروردگار کے حضور جمع کیے جائیں گے
زمین پر چلنے والے حشرات الارض اور ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی تمہاری طرح امتیں ہیں : 58: یہ جتنے چرند اور پرند ہیں سب کیا ہیں ؟ فرمایا تمہاری ہی طرح وہ بھی امتیں ہیں۔ تم پیدا ہوئے اور وہ بھی پیدا ہوئے اللہ نے جو انتظام تمہاری پیدائش کا مقرر کیا تم اسی انتظام کے تحت پیدا ہو رہے ہو اور جو ان کی پیدائش کا انتظام کیا اسی کے مطابق وہ پیدا ہو رہے ہیں۔ تم کھاتے پیتے ہو اسی طرح وہ سب بھی کھاتے پیتے ہیں۔ تم اپنے گھروں میں سکونت پذیر ہو اسی طرح وہ بھی اپنے بھٹوں اور آشیانوں میں سکونت پذیر ہیں۔ تم نسل چھوڑ جاتے ہو بالکل اسی طرح ان کی نسلیں بھی قائم ہیں۔ تم مرتے ہو تو اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کا بھی ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ پھر تم میں اور ان میں فرق کیا رہا ؟ یہی کہ تم صاحب عقل و ارادہ اور ایک حد تک اختیار رکھتے ہو لیکن وہ کھانے پینے ، رہنے سہنے اور نسل چھوڑنے کے سوا کسی حالت میں تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وہ تم سے پست اور تم ان سے بہت بلند مقام رکھتے ہو۔ اس آیت کو گذشتہ آیت 36 کے ساتھ ملاؤ ۔ فرمایا جب تم نے عقل سے کام لینا چھوڑ دیا اور سنی بات ان سنی کردی تو تمہارے اور ان کے درمیان باقی فرق کیا رہا جیسے اس مضمون کی دوسری جگہ یوں فرمایا کہ : ” ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے۔ وہ چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے۔ “ (الاعراف 7 : 179) پھر اس مضمون کو قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے اور ہر جگہ اس کا طریقہ بیان مختلف رکھا ہے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ زیر نظر آیت میں بھی اسی طرح اشارہ ہے۔ قرآن کریم میں ہم نے یہ باتیں تفصیل سے لکھ دی ہیں تاکہ وہ حشر کے لئے تیار رہیں : 59: فرمایا جو لوگ علم و بصیرت رکھتے ہیں انہیں قرآن کریم کی تفصیل کے بعد کسی نشانی کی احتیاج نہیں ہو سکتی۔ اب ان کو ایسے اعمال کر کے اس دنیا سے رخصت ہوناچاہئے کہ وہ میدان حشر میں اپنی کامیابی کے نمبر حاصل کرسکیں۔ اگر ان کے اعمال ان جانوروں ہی کی طرح کے ہوئے تو ان کی عقل و بصیرت نے کیا کام دکھایا ؟ تم کس نشان کی طلب کرتے ہو نشانیوں سے تو پوری کائنات بھری پڑی ہے ، زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضاؤں میں اڑنے والا ہر پرند اللہ کی ایک نشانی ہے اور تمہارا وجود بھی نشانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اپنے جسم کے ایک ایک حصہ پر غور کرو صرف ایک دل ہی کی حرکت کو دیکھتے رہو کہ تم سارا دن اپنے کاموں میں مصروف ہو۔ محنت و مشقت کرتے ہو ، سوچ وبچار کرتے ہوئے مگر وہ ہے کہ برابر حرکت کرے چلا جا رہا ہے۔ تم ساری رات میٹھی نیند سو کر گزارتے ہو لیکن وہ ایک آن بھی نہیں رکتا۔ غور کرو کہ اگر وہ ذرا رک جائے تو پھر کیا ہو ؟ جبکہ اس کے رکنے کا نام موت ہے۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز پر غور کرتے چلے جاؤ تو تمہاری آنکھیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی اور اس مخلوق کو گننا چاہو گے تو تم گن نہیں پاؤ گے۔ اس ساری مخلوق کو پیدا کرکے کیا وہ ایک گوشہ تنہائی میں بیٹھ گیا ہے یا براہ راست اس پوری کا ئنات کی حفاظت ونگرانی بھی فرما رہا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ کسی اندھی اور بہری قوت کا ظہور ہے یا اس دانا وبینا ، قادر وقیوم اور غفور ورحیم ہستی کی قدرت ورحمت کا فیضان ہے ؟ کیا یہ سارا کارخانہ بالکل بےمقصد ، بےغایت وبے انجام نظرآتا ہے یا اس کے ایک ایک چیز پکار پکار کر اس وحدہ لاشریک لہ کی شہادت دے رہی ہے لیکن اس شہادت کا کوئی سننے والا بھی تو ہو ؟ اس جگہ کچھ لوگوں نے ” الکتب “ سے خدائی رجسٹر مراد لے کر جس میں ہرچیز کا اندراج موجود ہے دنیا کی ہرچیز کے لئے حشر میں ایک بار جمع ہونا ضروری قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انصاف اس حد تک ہے کہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے قیامت کے روز انسانوں کے ساتھ ہر جاندار بھی زندگ کئے جائیں گے اور اگر کسی سینگ والے جانور نے بےسینگ کے جانوروں کو دنیا میں مارا تھا تو آج اس کا انتقام اس سے لیا جائے گا اور جب ان کے پاس کے حقوق و مظالم کے بدلے اور انتقام ہو چکیں گے تو ان کو حکم ہوگا کہ سب مٹی ہوجاؤ اور تمام جانداد اسی وقت پھر مٹی ہوجائیں گے۔ اگر کوئی شخص اس کو قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر سمجھتا ہے تو سمجھے ! ہمارے خیال میں تو بلاشبہ اس کو قرآن کریم کی تفسیر نہیں کہا جاسکتا اسلئے کہ اس طرح حیوانات کو بھی کملف ماننا پڑتا ہے حالانکہ اس کے لئے کتاب و سنت سے کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی جاسکتی اور پوری امت میں سے اس کا ایک بھی قائل نہیں۔ جن لوگوں نے بہام و حیوانات کا حشر اس آیت سے تسلیم کیا ہے انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ اس سے مراد بہام و حیوانات کی موت ہے کیونکہ وہی ان کا حشر ہے۔ (ابن عباس ؓ ہاں ! بعض احادیث میں سینگ کی بکری اور بےسینگ کی بکری کا جو ذکر ہے وہ مثالی رنگ میں جس طرح ہماری زبان میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ مچھلی کا نام لے کر مراد انسانوں ہی سے لی جاتی ہے اس لئے ایسی روایات سے اس طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہونا کوئی مناسب بات نہیں۔
Top