Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
وہ توبہ کرنے والے ہیں بندگی کرنے والے شکر کرنے والے بےتعلق رہنے والے2 رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے حکم کرنے والے نیک بات کا اور منع کرنے والے بری بات سے3 اور حفاظت کرنے والے ان حدود کے جو باندھی اللہ نے اور خوشخبری سنا دے ایمان والوں کو4
2 بعض نے " سائحون " سے مراد روزہ دار لیے ہیں۔ کیونکہ روزہ دار کھانے پینے وغیرہ لذائذ و مرغوبات سے بےتعلق ہو کر روحانی مدارج اور ملکوتی مقامات کی سیر کرتا ہے۔ بعض کے نزدیک اس لفظ کا مصداق مہاجرین ہیں۔ جو گھر بار سے بےتعلق ہو کر " دارالسلام " میں سکونت پذیر ہوتے ہیں۔ بعض نے " مجاہدین " کا ارادہ کیا ہے کہ مجاہد اپنی جان تک سے بےتعلق ہو کر خدا کے راستہ میں قربان ہونے کے لیے نکلتا ہے۔ بعض کی رائے میں یہ لفظ طلبہ علوم کے لیے ہے جو وطن، کنبہ، راحت و آسائش وغیرہ سب کو خیر باد کہہ کر طلب علم کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بہرحال مترجم محقق نے جو ترجمہ کیا، اس میں ان سب اقوال کی گنجائش ہے مگر اکثر سلف کے نزدیک پہلی تفسیر مختار ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ شاید بےتعلق رہنے سے مراد یہ ہو کہ دنیا میں دل نہ لگائے۔ 3 یعنی خود درست ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی درست کرتے ہیں۔ گویا ان کا کام ہے عبادت حق اور خیر خواہی خلق۔ 4 یعنی نیکی بدی کی جو حدود حق تعالیٰ نے معین فرما دی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بےحکم شرح کوئی قدم نہ اٹھائے۔ یہ سب صفات ان مومنین کی ہوئیں۔ جو جان و مال سے خدا کے ہاتھ پر بک چکے ہیں۔
Top