Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 95
سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ رِجْسٌ١٘ وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
سَيَحْلِفُوْنَ : اب قسمیں کھائیں گے بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے آگے اِذَا : جب انْقَلَبْتُمْ : واپس جاؤ گے تم اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لِتُعْرِضُوْا : تاکہ تم در گزر کرو عَنْھُمْ : ان سے فَاَعْرِضُوْا : سو تم منہ موڑ لو عَنْھُمْ : ان سے اِنَّھُمْ : بیشک وہ رِجْسٌ : پلید وَّمَاْوٰىھُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
اب قسمیں کھائیں گے اللہ کی تمہارے سامنے جب تم پھر کر جاؤ گے ان کی طرف تاکہ تم ان سے درگزر کرو تو سو تم درگزر کرو ان سے بیشک وہ لوگ پلید ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے بدلہ ان کے کاموں کا2
2 تبوک سے واپسی کے بعد منافقین جھوٹی قسمیں کھاکر جو عذر پیش کرتے تھے اس کی غرض یہ تھی کہ پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں کو اپنی قسموں اور ملمع سازیوں سے راضی و مطمئن کردیں تاکہ بارگاہ رسالت سے ان پر کوئی عتاب و ملامت اور دارو گیر نہ ہو۔ سابق کی طرح یوں ہی معاملہ ابہام میں رہے۔ مسلمان ان سے کچھ تعرض نہ کریں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ بہتر ہے تم ان سے تعرض مت کرو۔ لیکن یہ اغماض و تغافل (تعرض نہ کرنا) راضی و مطمئن ہونے کی بناء پر نہیں، بلکہ ان کے نہایت پلید اور شریر ہونے کی وجہ سے ہے، یہ لوگ اس قدر گندے واقع ہوئے ہیں کہ ان کے پاک و صاف ہونے کی کوئی توقع نہیں رہی۔ لہذا اس غلاظت کی پوٹ کو دور پھینک دینا اور اس سے علیحدہ رہنا ہی بہتر ہے خدا خود ان کو ٹھکانے لگا دے گا۔
Top