Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 44
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے کچھ شک نہیں کہ ایمان والوں کے لئے اس میں نشانی ہے
حق سے مراد عدل و انصاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اپنی کلام اور قدرت کے ساتھ یہی حق ہے۔ آیۃ سے مراد علامت اور دلالت ہے۔ مومنین سے مراد تصدیق کرنے والے ہیں۔ ترجمہ : ” آپ تلاوت کیجئے اس کتاب کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف اور نماز صحیح صحیح ادا کیجئے۔ بیشک نماز منع کرتی ہے بےحیائی اور گناہ سے اور واقعی اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ “ اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر ا : اُتل تلاوت اور اس کو معمول بنانے کا حکم ہے سورة طہٰ میں اس آدمی کے لئے وعید گزر چکی ہے۔ جو اس سے اعراض کرتا ہے کتاب کے مقدمہ میں اس پر برانگختیہ کیا گیا ہے کتاب سے مراد قرآن حکیم ہے۔ مسئلہ نمبر 2:۔ خطاب نبی کریم ﷺ اور آپ کی امت کو ہے۔ اقامۃ الصلاۃ سے مراد نماز کو اس کے اوقات میں اس کی قرأت، رکوع، سجود، قعود، تشہد اور تمام شروط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ سورة بقرہ میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے، اس لئے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے مراد پانچ نمازیں ہیں جو درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتی ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : (1) بتائو اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ ہر روز پانچ دفعہ غسل کرے کیا میل باقی رہ جائے گی۔ صحابہ نے عرض کی : میل میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، فرمایا : اس کی مثل پانچ نمازیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ خطائوں کو مٹا دیتا ہے۔ امام ترمذی نے اسے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے (2) حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : یہاں الصلاۃ سے مراد قرآن ہے۔ معنی ہے جو قرآن نماز میں تلاوت کیا جاتا ہے وہ فحشاء منکر زنا اور معاصی سے روکتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی معنی میں صحیح حدیث ہے۔ ” نماز میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردی ہے “ (3) مراد سورة فاتحہ کی قرأت ہے۔ حماد بن ابی سلیمان، ابن جریج اور کلبی نے کہا : بندہ جب تک نماز میں ہوتا ہے وہ فحشاء اور منکر پر عمل نہیں کرتا، یعنی جب تک تو نماز میں ہے اس وقت تک نماز تجھے روکتی ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ تو ابہام میں رکھنے والی بات ہے (4) یہ تعبیر اس روایت میں کیسے درست ہوگی جسے حضرت انس بن مالک ؓ نے روایت کیا ہے انصار میں سے ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا وہ فواحش اور چوری میں سے جس کا موقع پاتا اسے نہ چھوڑتا اسے کر گزرتا (1) ۔ نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : ان الصلاۃ ستنھاہ نماز عنقریب اسے روک دے گی۔ تھوڑا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ اس نے توبہ کرلی اور اس کا حال اچھا ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں نے تم کو کہا نہیں تھا “ (2) مسئلہ نمبر 3:۔ آیت کی ایک تیسری تاویل بھی ہے جسے محقیقن نے پسند کیا ہے اور مشائخ صوفیہ نے بھی یہی کہا ہے اور مفسرین نے اس کا ذکر کیا ہے اس سے مراد نماز پر دوام اختیار کرنا اور اس کی حدود کو قائم کرنا ہے پھر اس کے حکم سے باخبر کیا کہ نماز پڑھنے والے اور اس کی بجا آوری کرنے والے کو فحشاء اور منکر سے روکتی ہے اس کی وجہ یہ یکہ اس میں قرآن حکمی کی تلاوت پائی جاتی ہے جو نصیحت پر مشتمل ہوتی ہے اور نماز نمازی کے تمام بدن کو مشغول رکھتی ہے جب نمازی نماز کی جگہ داخل ہوتا ہے خشوع کرتا ہے اپنے رب کے حضور عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور اس امر کو یاد کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور کھڑا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اس پر مطلع ہے اور اسے دیکھ رہی ہے اس کا نفس اس کے لئے خاص ہوجاتا ہے اور مطیع ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ کا قرب اس کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اس کے اعضاء پر اس کی ہیبت ظاہر ہوجاتی ہے اس میں کوئی کمی نہیں آتی یہاں تک دوسری نماز کا وقت ہوجاتا ہے جس کے ساتھ وہ بہترین حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے ان روایات کا یہی معنی و مفہوم ہے کیونکہ مومن کی نماز ایسے ہی ہونی چاہیے۔ میں کہتا ہوں : خصوصاًً اگر وہ اپنے نفس کو احساس دلائے کہ اس کا یہ عمل اس کا آخری عمل بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مقصود میں زیادہ بلیغ اور مراد میں کامل ہو سکتا ہے۔ موت کا کوئی معین وقت نہیں کوئی مخصوص زمانہ نہیں کوئی معلوم مرض نہیں یہ ایسی بات ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ بعض سلف صالحین سے مروی ہے کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ان پر کپکپی طاری ہوجاتی ان کا رنگ زرد پڑجاتا اور اس بارے میں ان سے بات کی گئی فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں جب میں دنیا کے بادشاہوں کے سامنے کھڑا ہوں تو میرا یہ حال ہوتا ہے تو بادشاہوں کے بادشاہ کے ساتھ میرا حال کیا ہونا چاہیے۔ یہ نماز روکتی ہے خصوصاً فحشاء اور منکر سے روکتی ہے جس کی نماز جو اس کے ارد گرد گھومتی ہے جس میں کوئی خشوع نہیں ہوتا، نہ نصیحت ہوتی ہے اور نہ ہی فضائل اس میں ہوتے ہیں جس طرح ہماری نماز ہوتی ہے کاش یہ جائز بھ یہو جائے تو وہ ایسی نماز ہے جو نمازی کو اس کے مقام پر ہی چھوڑے رکھتی ہے جہاں کہیں بھی وہ ہو اگر وہ نافرمانی کے راستے پر گامزن ہو، جو معصیت اس کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے تو نماز اس کو اس حال میں چھوڑے رکھتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دوری میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے اس معنی میں وہ حدیث بھی ہے حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری اور اعمش سے مروی ہے جس کی نماز اسے فحشاء اور منکر سے نہ روکے وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی دوری میں ہی اضافہ کرتی ہے۔ یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ حضرت حسن بصری نے اسے نبی کریم ﷺ سے مرسل روایت کیا ہے اس کی سند صحیح نہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا جب ہم نے تحقیق کی اور اس کے معنی میں غورو فکر کیا تو یہ کہنا جائز ثابت نہ ہوا کہ کوئی یہ کہے کہ نفس نماز اسے اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے گویا یہ معصیت ہے (1) جو معنی اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرنے میں موثر نہیں بلکہ یہ نماز اس کو اس حال اور معاصی پر چھوڑے رکھتی ہے وہ منکر ہو، فحشاء اور بعد ہو نماز اس میں اضافہ نہیں کرتی مگر اس بعد پر اسے قائم رکھتی ہے جو اس کا راستہ تھا، گویا ایسی نماز نے اسے اللہ تعالیٰ سے دور کیا جب اللہ تعالیٰ کے بعد سے اسے نہ روکا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے عرض کی گئی : فلاں آدمی کثرت سے نماز پڑھا کرتا تھا آپ نے فرمایا : یہ نماز نفع نہیں دیتی مگر اسے جو اس کی اطاعت کرے۔ (2) میں کہتا ہوں : خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں اضافہ کا باعث ہوئی ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ فحشاء اور منکر کے مرتکب کی نماز کی کوئی قدر و منزلت نہیں کیونکہ معاصی اس بندے پر غالب ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ امر کے معنی میں خبر ہے یعنی نمازی کو فحشاء اور منکر سے رک جانا چاہیے نماز بذات خود اس سے نہیں روکتی بلکہ یہ رکنے کا سبب ہے۔ یہ اس طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (جاثیہ 20) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الروم) مسئلہ نمبر 4:۔ اللہ تعالیٰ تمہیں جو ثواب عطا فرماتا ہے اور جو تمہاری ثنا فرماتا ہے وہ تمہارے ذکر، جو تم عبادت میں اور اپنی نماز میں اس کا کرتے ہوخ اس سے بڑھ کر ہے، یہ بھی حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت ابو دردا، حضرت ابو قرہ، حضرت سلمان ؓ اور حضرت حسن بصری نے کہا ہے : یہی طبری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ موسیٰ بن عقبہ کی حدیثہ میں نافع سے وہ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے فرمان سے مراد اللہ تعالیٰ جو تمہارا ذکر کرتا ہے وہ اس ذکر سے بڑھ کر ہے جو تم اس کا ذکر کرتے ہو۔ “ (3) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ تم اپنی نماز میں جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو اور قرآن حکیم کی قرأت میں جو اس کا ذکر کرتے ہو وہ ہر شے سے افضل ہے : ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر جو دوام کی صورت میں کیا جائے یہ فحشاء اور منکر سے روکنے میں نماز سے بڑھ کر ہے ضحاک نے کہا : وہ چیز جو حرام ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور اس کو چھوڑ دینا یہ سب سے عظیم ذکر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ معنی ہے فحشاء اور منکر سے روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں اکبر کبیر کے معنی میں ہے۔ ابن زید اور قیادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر شے سے بڑھ کر ہے یعنی ان تمام عبادات سے افضل ہے جس میں ذکر نہ ہو (4) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کا ذکر معصیت سے روکتا ہے کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہو وہ اس کی موافقت نہیں کرتا۔ ابن عطیہ نے کہا : میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ اکبر کا معنی مطلق ہے یہی انسان کو فحشاء اور منکر سے روکتا ہے اور ذکر کا وہ جز جو نماز میں ہے وہ یہ عمل کرتا ہے اس طرح جو نماز کے علاوہ ہے وہ بھی یہی عمل کرتا ہے کیونکہ رکنا اس سے نہیں ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذاکر ہو اور اس پر نگاہ رکھے ہوئے ہو اس کا ثواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد کرے جس طرح حدیث طیبہ میں ہے : (1) جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اس کو دل میں یاد کرتا ہوں اور جو کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے میں اس کا ذکر ایسی مجلس میں کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہوتی ہے۔ نماز میں جو حرکات ہیں نہی میں ان کا کوئی اثر نہیں۔ نافع ذکر وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ علم، دل کی توجہ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر امر سے فارغ ہونے کی صورت میں ہو۔ وہ ذکر جو زبان سے تجاوز نہیں کرتا تو اس کا رتبہ اور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بندے کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ وہ ہدایت اور نور علم سے اسے نوازتا ہے۔ یہ حقیقت میں بندے کا اپنے رب کے ذکر کا ثمرہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (البقرہ 152) آیت کا باقی ماندہ حصہ وعید اور مراقبہ پر برانگخیۃ کرتا ہے۔
Top