Aasan Quran - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔ انہوں نے ملے جلے عمل کیے ہیں، کچھ نیک کام، اور کچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلے گا۔ (78) یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
78: منافقین تو اپنی منافقت کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہوئے تھے، اور اب تک انہیں کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ لیکن مخلص مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو سستی کی وجہ سے جہاد میں جانے سے رہ گئے تھے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق یہ کل دس حضرات تھے۔ ان میں سے سات کو اپنی اس سستی پر اتنی سخت شرمندگی ہوئی کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ تبوک سے واپس بھی نہیں پہنچے تھے کہ یہ خود اپنے آپ کو سزا دینے کے لیے مسجد نبوی پہنچے، اور اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے بندھے رہیں گے۔ آپ کی واپسی کا وقت قریب تھا، اور جب آپ واپس تشریف لائے اور آپ نے انہیں بندھا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ؟ اس پر آپ کو علم ہوا کہ انہوں نے اس لیے اپنے آپ کو باندھ رکھا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اب میں بھی ان کو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ خود انہیں کھولنے کا حکم نہ دیدے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، اور انہیں کھول دیا گیا۔ ان سات حضرات میں حضرت ابو لبابہ ؓ بھی تھے جن کے نام سے ایک ستون اب بھی مسجد نبوی میں موجود ہے، اور اسے اسطوانۃ التوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس ستون سے اپنے آپ کو اس وقت باندھا تھا جب بنو قریظہ کے معاملے میں ان سے ایک غلطی ہوگئی تھی، لیکن حافظ ابن جریر ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ واقعہ تبوک سے متعلق ہے اور اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (دیکھئے تفسیر ابن جریر ج : 11 ص :12 تا 16) باقی تین حضرات جو تبوک نہیں گئے تھے، ان کا ذکر آگے آیت نمبر 106 میں آ رہا ہے۔ اس آیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ ہوجائے تو اسے مایوس ہونے کے بجائے توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اور غلطی کی تاویلیں کرنے کے بجائے ہر ممکن طریقے سے اپنی غلطی پر اظہار ندامت کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ امید دلائی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے۔
Top