Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 67
مُسْتَكْبِرِیْنَ١ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ
مُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرتے ہوئے بِهٖ : اس کے ساتھ سٰمِرًا : افسانہ کوئی کرتے ہوئے تَهْجُرُوْنَ : بیہودہ بکواس کرتے ہوئے
تمہارے اندر ان سے گھمنڈ پیدا ہوجاتا تھا تم اپنی مجلسوں کی داستان سرائیوں میں انہیں مشغلہ بناتے تھے ، تم ان کے حق میں ہذیان بکتے تھے
تم ہماری آیتوں کو سن کر ان کے خلاف ہذیان بکتے تھے اور تمہارا مشغلہ عجیب تھا : 67۔ (سامرا) کہانی بیان کرنے والا ’ قصہ گو ‘ داستان سرا (سمر) سے جس کے معنی رات کے وقت قصہ گوئی کے ہیں ۔ جاڑے کی لمبی راتوں میں وقت گزاری کرنے اور تفریح طبع کے لئے مختلف زمانوں میں مختلف طور طریقے رائج رہے ہیں ۔ قرآن کریم کے نزول کے وقت اور اس سے پہلے بلکہ بہت عرصہ بعد تک یہ رسم جاری تھی کہ کچھ لوگ بات سے بات نکالتے اور فرضی قصے اور کہانیاں بیان کرکے راتوں کو گزارتے تھے ان قصہ گوؤں کو ” سمر “ کہا جاتا تھا ، نزول قرآن کریم کے وقت کچھ لوگوں کا مشغلہ یہ تھا کہ رات کے وقت مجلسیں قائم کرتے اور ان مجلسوں میں قرآن کریم کے جملوں ‘ عبارتوں اور اس کے مفہوم کو عجیب عجیب طرح سے بگاڑ کر پیش کرتے اور مجلسوں کو اس طریقہ سے خوب گرم کرتے اور ہمارے نزدیک (بہ) کا مرجع قرآن کریم ہی قرار پاتا ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی عبارات کو موضوع بنا کر باتیں گھڑتے اور مذاق و استہزاء کا نشانہ بناتے تھے ۔ (مستکبرین بہ) قرآن کریم کو سن کر متکبرانہ روش سے اس پر بحث وتمحیث کرتے اور مختلف طریقوں سے اس کی عبارات کو موڑتے اور توڑتے ‘ سمجھنے کی بجائے اور غور کرنے کی بجائے اس کو تضحیک کا نشانہ بناتے ۔ (تھجرون) کی اصل (ھجر) ہے جس کے معنی الگ ہونے کے ہیں یا ایک چیز کی برائی کی وجہ سے ترک کردینے کے ہیں اس جگہ (تھجرون) بکواس بازی کے معنوں میں آیا ہے اور ترجمہ میں اس کے معنی ہذیان بکنے کے کئے گئے ہیں ۔ آیت 65 سے 67 تک کا مفہوم اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” جو کچھ ہونا تھا ہوچکا اب روؤ یا چلاؤ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اب ہماری تمہاری کچھ شنوائی نہیں اور نہ ہی کسی دوسرے میں یہ ہمت ہے کہ تم کو ہمارے قانون کی زد سے بچا سکے ، ہماری رضا حاصل کرنے کے لئے ہم نے تم کو ایک مدت تک مہلت دی لیکن تم نے اس سے ذرا برابر بھی فائدہ نہ اٹھایا اور جب تم کو ہمارے رسول کی زبانی ہماری آیات سنائی جا رہی تھیں اس وقت تو تمہاری بددماغی اور کوتاہ اندیشی کا یہ عالم تھا کہ تم نہایت تکبر کے ساتھ راتوں کو مجلسیں جما کر ان آیتوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور جب بکنے پر آتے تھے تو صاف صاف کہہ دیتے کہ اس میں ہے کیا ؟ یہ سارے کا سارا افتراء اور جھوٹ ہی تو ہے جو اس نے خود گھڑ لیا ہے اور اس کی باتیں تمہارے نزدیک درخور اعتناء ہی نہ تھیں ۔ اس کے بعد آنے والے مضمون میں ان کے اس لا ابالی پن پر مزید زجر وتوبیخ کی گئی ہے ۔
Top