Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو انکے قلعوں سے اتار دیا اور انکے دلوں میں دہشت ڈال دی تو کتنوں کو تم قتل کردیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے
اہل کتاب سے کیا سلوک کیا جائے ؟ قول باری ہے (وانزل الذین ظاھروھم من اھلی الکتاب من صیاصیھم اور جن اہل کتاب نے ان کی مدد کی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا) ایک قول کے مطابق صباصی وہ قلعے تھے جن میں یہ اہل کتاب یعنی یہود مدینہ مورچہ بند تھے۔ صیصہ دراصل گانے کے سینگ کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنا دفاع کرتی ہے۔ مرغ کے خار کو بھی صیصہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اس کے ذریعے اپنا دفاع کرتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قلعوں کو صیاصی کہا گیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس سے بنو قریضہ مراد ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے اپنے عہد کو توڑا کر مدینہ پر حملہ آور گروہوں کی مدد کی تھی ۔ جس کا قول ہے کہ اس بےبنو نضیر مراد ہیں۔ تاہم تمام راویوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ بنو قریظ تھے۔ ظاہر آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ قول باری (فریقا تقتلون وتاسرون فریقا۔ پھر تم ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو قید کرلیا) حضور ﷺ نے بنو نضیر کو نہ تو قتل کرنے کا حکم دیا تھا نہ گرفتار کرنے کا بلکہ انہیں جلا وطن کردیا تھا۔
Top