Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اے پیغمبر کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول اللہ کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی اس کو دونی سزا دی جائے گی اور یہ بات خدا کو آسان ہے
مرتبہ کے لحاظ سے جزاوسزا ہے قول باری ہے (یا نساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضاعف لھا العذاب ضعفین) اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بیہودگی کرے گی اسے دہری سزا دی جائے گی۔ دہری سزا دینے کے دو مفہوم بیان ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ازواج مطہرات پر دوسری عورتوں کی بہ نسبت اللہ کا زیادہ فضل و انعام تھا، انہیں حضور ﷺ کی بیویاں ہونے کا شرف حاصل تھا، ان کے گھروں میں نزول وحی کا سلسلہ رہتا تھا اور اس کی بنا پر انہیں ایک فضیلت حاصل تھی۔ اس صورت حال کے تحت اگر ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کا اظہار ہوتا تو یہ بات ان کی سزا کی تضعیف کا سبب بن جاتی۔ اس لئے کہ نعمت جس قدر عظیم ہوتی ہے اس کی ناشکری بھی اتنی ہی سنگین ہوتی ہے اور اس بنا پر یہ ناشکرا شخص اتنی ہی زیادہ سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، کیونکہ سزا کا استحقان کفر ان نعمت کی سنگینی پر مترتب ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو طمانچہ ماردیتا ہے تو اس صورت میں جس سزا کا وہ مستحق بن جاتا ہے وہ اس سزا سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے جو اسے کسی اجنبی کو طمانچہ مارنے کی صورت میں ملتی ہے اس لئے کہ اس پر اجنبی کے مقابلہ میں اس کے باپ کا احسان زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس احسان ناشناسی کی سزا بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ آیت کی اس تاویل پر سلسلہ تلاوت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایات اللہ والحکمۃ۔ اور تم اللہ کی ان آیتوں اور اس علم کو یادرکھو جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائے جاتے رہتے ہیں) یہ بات اس پر دلالت کتری ہے کہ معصیت کی بنا پر ان کی سزا میں تضعیف کی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھروں میں اللہ کی آیات کی تلاوت ہوتی رہتی ہے جو ان پر اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی بنا پر ان کی طاعات کا درجہ بھی بہت بلند ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے (ومن یقنت منکن للہ ورسولہ وتعمل صالحا نو تھا اجرھا مرتین) اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل صالح کرتی رہے گی ہم اس کا اجر دہرادیں گے) اس لئے کہ طاعت کی بنا پر اجر کا استحقاق معصیت کی بنا پر سزا کے استحقاق کے بالمقابل ہوتا ہے۔ دہری سزا دینے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے معصیت کے ارتکاب کی صورت میں حضور ﷺ کو اذیت ہوتی کیونکہ یہ چیز آپ کی بدنامی اور رنج وغم کا سبب بن جاتی۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ حضور ﷺ کو تکلیف پہنچانے کا جرم دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے جرم سے زیادہ سنگین ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے (ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرۃ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے رہتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ لعنت کرتا ہے) پھر ارشاد ہوا (والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر ما اکتسبوا فقد احتملوا بھتانا واثما مبینا۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ایذا پہنچاتے رہتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو وہ بہتان اور صریح گناہ کا بار اپنے اوپر لیتے ہیں) جب اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کی طاعات کا درجہ بلند کرکے ان کے لئے دہرا اجر واجب کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اہل علم عامل کا اجر ، غیر اہل علم، عامل کے اجر سے افضل واعظم ہوگا۔ قول باری (واذکرن مایتلی فی بیوتکن من ایات اللہ والحکمۃ) کی اس پر دلالت ہورہی ہے۔
Top