Ashraf-ul-Hawashi - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
پیغمبر کی بی بیو تم میں سے جو کوئی کھلی بےحیائی کا کام کرے اس کو (قیامت میں بہ نسبت دوسری عورتوں کے دوہری سزا دی جاوے گی7 اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات تم کو دونا عذاب کرنا) آسان ہے8
7 کیونکہ جس کا جتنا مقام بلند ہوتا ہے نافرمانی کی صورت میں اسے سزا بھی اتنی ہی سخت ملتی ہے۔ پیغمبر ﷺ سے فرمایا ” لا دذقناک ضعف الحیاۃ “ ( کذافی الموضح) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ” ازواج ؓ مطہرات “ سے نعوذ باللہ برائی کے ارتکاب کا اندیشہ تھا۔ یہ جملہ شرطیہ ہے جس کا تحقیق ضروری نہیں، جیسے فرمایا ( لئن اشرکت لیحبطن عملک) (زمر : 65) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا، ہاں ایمان و اطاعت میں خیانت کی ہے۔ ( دیکھئے تحریم : 10) بعض نے کہا کہ یہاں ” فاحشۃ سے مراد نشوز اور بد سلوکی ہے۔ دراصل اس سے لزواج ؓ مطہرات کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا مقام بہت بلند ہے اور دوسری عورتوں کی نیست تمہاری ذمہ داری بھی بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا تمہارا اخلاقی رویہ پاکیزہ ہونا چاہیے کہ دوسروں کیلئے اسوہ بنے۔ (قرطبی)8 یعنی تمہیں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم نبی کی بیویاں ؓ ہو اور تم پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔
Top