Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 43
هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓئِكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا
هُوَ الَّذِيْ : وہی جو يُصَلِّيْ : رحمت بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَمَلٰٓئِكَتُهٗ : اور اس کے فرشتے لِيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں نکالے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں اِلَى النُّوْرِ ۭ : نور کی طرف وَكَانَ : اور ہے بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَحِيْمًا : مہربان
وہی تو ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اسکے فرشتے بھی تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور خدا مومنوں پر مہربان ہے
خدا کی صلوٰۃ کیا ہے ؟ قول باری ہے (ھوالذی یصلی علیکم وملا ئکتہ۔ وہ ایسا کہ وہ خود اور اس کے فرشتے تمہارے اوپر رحمت بھیجتے رہتے ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں اور بندوں کی طرف سے صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشی کا شعر ہے۔ علیک مثل الذی صلیت فاغمضی نوما فان لجنب المرء مضطجعا تجھ پر بھی اس جیسی دعائیں اتریں جو تونے بھیجی ہیں اب نیند میں اپنی آنکھیں بند کرلے اور سوجا کیونکہ انسان کے پہلو کے لئے لیٹنے کی جگہ ہوتی ہے۔ معمر نے حسن سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا تھا کہ آیا تمہارا رب نماز پڑھتا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات بہت گراں گزری تھی تاہم آپ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ ہی لیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ انہیں بتادو کہ اللہ بھی نماز پڑھتا ہے لیکن اس کی نماز اس کی وہ رحمت ہے جو اس کے غضب پر غالب آگئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمہارا ایک اصول یہ ہے کہ ایک نقطہ سے دو مختلف معنی نہیں لئے جاتے جبکہ قرآن میں صلاۃ کا لفظ آیا ہے جس کے دو معنی ہیں یعنی رحمت اور دعا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ہمارے نزدیک مجمل الفاظ کی صورت میں جائز ہے۔ صلاۃ ایک مجمل اسم ہے جو بیان کا محتاج ہے اس لئے اس لفظ میں مختلف معانی کا ارادہ کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ قتادہ نے قول باری (ویسبحوہ بکرۃ واصیلا۔ اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو) کہ تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے چاشت اور عصر کی نمازمراد ہے۔
Top