Ahkam-ul-Quran - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّمَا : جو کچھ غَنِمْتُمْ : تم غنیمت لو مِّنْ : سے شَيْءٍ : کسی چیز فَاَنَّ : سو لِلّٰهِ : اللہ کے واسطے خُمُسَهٗ : اس کا پانچوا حصہ وَلِلرَّسُوْلِ : اور رسول کے لیے وَ : اور لِذِي الْقُرْبٰي : قرابت داروں کے لیے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافروں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اٰمَنْتُمْ : ایمان رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلٰي : پر عَبْدِنَا : اپنا بندہ يَوْمَ الْفُرْقَانِ : فیصلہ کے دن يَوْمَ : جس دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : دونوں فوجیں بھڑ گئیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول ﷺ کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مٹھ بھیڑ ہوگئی اپنے بندے (محمد ﷺ پر نازل فرمائی اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
غنائم کی تقسیم کا بیان قول باری ہے واعلموا انما غنتم من شئی فان للہ محمد وللرسول ولذی القربیٰ والیتمی والمساکین وابن السبیل۔ اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے) اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا فکلوا مماغنمتم حلالاً صیبً ۔ پس جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت قول باری قل الانفال للہ والرسول کی ناسخ ہے۔ اس لئے کہ پہلے یہ بات تھی کہ جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ جو کچھ آتا حضور ﷺ اس میں سے جسے جتنا چاہتے دے دیتے۔ اس مال میں کسی کا حق نہ ہوتا صرف اس شخص کا حق ہوتا جسے حضور ﷺ حقدار بنا دیتے۔ یہ صورت معرکہ بدر کے موقع پر پیش آئی تھی۔ ہم نے گزشتہ اوراق میں حضرت سعد ؓ کا واقعہ بیان کردیا ہے انہیں ایک تلوار ملی تھی انہوں نے بدر کے دن حضور ﷺ سے یہ تلوار بطور ہبہ مانگی تھی لیکن آپ ﷺ نے اسے یہ کہہ کر صاف جواب دے دیا کہ یہ تلوار نہ تو میری ملکیت ہے نہ تمہاری۔ پھر جب قل الانفال للہ والرسول) کا نزول ہوا تو آپ ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو طلب کر کے فرمایا کہ تم نے مجھ سے یہ تلوا ر مانگی تھی۔ اس وقت یہ تلوار نہ میری ملکیت تھی اور نہ تمہاری۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسے میری ملکیت میں دے دیا ہے اور میں اسے تمہیں دیتا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کیا ہے انہیں بشربن موسیٰ نے انہیں عبداللہ بن صالح نے انہیں ابوالاحوص نے اعمش سے انہوں نے ابوصالح سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے کالے سروں والی کسی قوم کے لئے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا تھا۔ جب کوئی نبی اور اس کے رفقاء مال غنیمت حاصل کرتے تو وہ اسے ایک جگہ جمع کردیتے۔ پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور اسے کھا جاتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لولاکتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب الیم فکلوا مما غنمتم حلالاًطیباً ۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) ۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن حنبل نے انہیں ابونوح نے انہیں عکرمہ بن عمار نے انہیں سماک الحنفی نے انہیں حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں حضرت عمر ؓ نے کہ جب بدر کا معرکہ پیش آیا اور حضور ﷺ نے کافروں کے قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یتخن فی الارض۔ کسی نبی کے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے) تا قول باری لمسکم فیما اخذتم) یعنی فدیہ کی رقم۔ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے غنائم کی حلت ہوگئی۔ ان دونوں روایتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ غنائم کی حلت بدر کی جنگ کے بعد ہوئی ہے اور حلت کا یہ حکم قول باری قل الانفال للہ والرسول) پر مرتب ہے نیز یہ کہ اس کی تقسیم حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی تھی۔ آیت قل الانفال للہ والرسول) پہلی آیت ہے جس میں غنائم کی اباحت کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی میں حضور ﷺ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ آپ جسے چاہیں اس میں سے دے دیں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی واعلموا انما غنمتم من شئیً فان للہ خمسہ) نیز یہ آیت نازل ہوئی فکلوا مما غنمتم حلالاً طیباً ) اس میں قیدیوں سے لئے جانے والے فدیہ کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ قول باری قل الانفال للہ والرسول) کے نزول کے بعد پیش آیا تھا۔ فدیہ والی آیت میں مسلمانوں کے اس عمل پر جس ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ان قیدیوں کو قتل کردینے کی بجائے شروع ہی سے ان سے فدیہ لے لیا تھا۔ اس آیت میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ غنائم کی اس وقت تک حلت نہیں ہوئی تھی جس میں تقسیم کا معاملہ حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس لئے کہ ممکن ہے کہ غنائم کی حلت تو ہوگئی ہو لیکن فدیہ کی ممانعت رہی ہو، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے کہ مشرکین کے قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ معرکہ بدر میں حصہ لینے والی فوج ما ل غنیمت کو آپس میں تقسیم کرلینے کی مستحق قرار نہیں دی گئی تھی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے اس مال غنیمت سے پانچواں حصہ الگ نہیں کیا تھا اور سوار اور پیدل سپاہیوں کے حصول کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ قول باری واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) کا نزول ہوگیا ۔ آپ نے اس آیت کی بنیاد پر غنائم کے پانچ حصے کر کے چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کردیئے اور پانچواں حصہ آیت میں مذکورہ مدوں کے لئے مخصوص کردیا۔ اس آیت کے ذریعے اسی اختیار کو منسوخ کردیا گیا جو حضور ﷺ کو حاصل تھا کہ آپ ﷺ جسے چاہتے غنائم میں سے نفل کے طور پردے دیتے۔ البتہ وہ صورت پھر بھی باقی رہی جس کے تحت مال غنیمت محفوظ کرلینے سے قبل آپ نفل کے طور پر جسے چاہتے اس میں سے کچھ دے دیتے۔ مثلاً یہ اعلان کردیتے کہ ” جسے کوئی چیز ہاتھ لگے وہ اس کی ہوگی “ یا ” جس شخص نے کسی دشمن کو قتل کردیا اسے اس کا سامان مل جائے گا۔ اس لئے کہ آیت واعلموا انما غنمتم من شئی) کا حکم اس صورت کو شامل نہیں ہوا کیونکہ اس صورت میں حاصل ہونے والی چیز صرف اس شخص کے لئے غنیمت بنی تھی جس کے ہاتھ یہ لگی تھی یا جس نے اس کے مالک کو قتل کردیا تھا۔ مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد بطور نفل کسی کو کچھ دینے کے مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ اس مسئلے میں اختلاف کا ذکر ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مال غنیمت محفوظ ہوجانے کے بعد کوئی نفل نہیں یعنی پھر کسی کو بھی اس کے حق سے زائد نہیں دیا جائے گا نفل کی صورت صرف یہ ہے کہ پہلے سے یہ اعلان کردیا جائے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سامان مل جائے گا یا جس شخص کے ہاتھ کوئی چیز آئے گی وہ اس کی ہوگی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ حضور ﷺ کے طریق کار میں ہمارے لئے بہتر ین نمونہ موجود ہے۔ آپ ابتداء میں چوتھائی حصہ دیتے تھے اور واپسی پر تیسرا حصہ دیتے تھے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ مال غنیمت محفوظ ہوجانے کے بعد بھی امام یا سپہ سالار کے لئے اپنی صوابدید کے مطابق بطور نفل دینا جائز ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مال غنیمت جمع کرنے سے پہلے کسی کو بطور نفل کچھ دینے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مثلا امام یہ اعلان کر دے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کر دے گا اسے اس کا سامان مل جائے گایا یہ کہہ دے کہ جو چیز کسی کے ہاتھ آجائے گی وہ اس کی ہوجائے گی۔ حبیب بن مسلمہ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ابتداء میں چوتھائی حصہ نفل کے طور پر دیا تھا اور واپسی پر خمس نکالنے کے بعد تیسرا حصہ دیا تھا۔ ابتداء میں نفل کے طور پر دینے کے متعلق ہم نے فقہاء کے اتفاق کا ذکر کردیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ واپسی پر تہائی حصہ بطور نفل دیا تھا اس میں دو احتمال ہیں۔ ایک تو یہ کہ آگے جانے والے فوجی دستہ کو واپسی پر ہی کچھ ہاتھ آئے وہ مراد ہے۔ مثلاً ان سے یہ کہہ دیا گیا ہو کہ جو کچھ تمہیں ہاتھ لگے اس میں سے خمس نکالنے کے بعد تہائی حصہ تمہیں مل جائے گا۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ غنائم کے مجموعہ کے بارے میں اس لفظ کے اندر عموم نہیں ہے۔ اس میں صرف حضور ﷺ کے طرز عمل کی حکایت ہے جو آپ ﷺ نے کسی معین چیز کے متعلق اختیار کیا تھا جس کی کیفیت بیان نہیں کی تھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے معنی وہ لئے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بات آگے جانے والے فوجی دستے کی واپسی کی صورت میں بیان کی تھی اور آپ ﷺ نے ان لوگوں کے لئے واپسی میں جو حصہ مقرر کیا تھا وہ ابتداء میں مقرر کئے ہوئے حصے سے زائد تھا اس لئے کہ واپسی میں غنائم کی حفاظت اور اسے محفوظ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی جبکہ ان کے چاروں طرف کفار پھیلے ہوتے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے کیل کانٹے سے لیس تیار بیٹھے ہوتے اس لئے کہ انہیں ان کی سرزمین میں اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع مل جانے پر وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوتے۔ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ بات مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد کہی گئی ہو اور یہ اس وقت کی بات ہو جب سارا مال غنیمت حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا تھا اور پھر آپ ﷺ جسے چاہتے دے دیتے تھے۔ پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ حبیب بن مسلمہ کی روایت میں خمس نکالنے کے بعد ثلث کا ذکر ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بات آیت واعلموا انما غنمتم) کے نزول کے بعد کہی گئی تھی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ روایت میں معترض کے ذکر کردہ امر پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس روایت میں یہ مذکورہ نہیں ہے کہ خمس سے مراد وہی خمس ہے جو پورے مال غنیمت سے نکالا جاتا ہے اور اس کے مستحقین میں تقسیم کردیا جاتا ہے جس کا ذکر اس قول باری میں کیا گیا ہے فان للہ خمسہ) تاآخر آیت یہ ممکن ہے کہ اس خمس کی وہی حیثیت ہو جو مال غنیمت میں تہائی یا چوتھائی حصے کی ہوتی ہے ان میں کوئی فرق نہ ہو۔ جب حبیب بن مسلمہ کی روایت میں یہ احتمال پیدا ہوگیا جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا تو اس کے ذریعہ قول باری اواعلموا انما غنتم من شئی ) کے حکم میں کوئی تبدیلی جائز نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ یہ قول باری چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں کے لئے مخصوص کردینے کا اسی طرح مقتضی ہے جس طرح پانچویں حصے کو آیت میں مذکور حقداروں کے لئے مخصوص کردینے کا موجب ہے۔ اس لئے جس وقت مال غنیمت جمع کر کے محفوظ کرلیا جائے گا اس میں سب کا حق ثابت ہوجائے گا ظاہر آیت اس کی مقتضی ہے اس لئے آیت کے مقتضی سے ہٹ کر مال غنیمت میں سے کچھ کسی غیر مستحق کو دے دینا جائز نہیں ہوگا البتہ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جس اس کے لئے کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس کے ذریعے آیت کی تخصیص جائز قرار دی جاسکتی ہو۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں مسدد نے انہیں یحییٰ نے عبیداللہ سے انہیں نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے انہوں نے فرمایا ” ہمیں حضور ﷺ نے ایک فوجی دستے کے ساتھ بھیجا۔ ہمیں بارہ اونٹوں کا حصہ ملا اور حضور ﷺ نے ہمیں فی کس ایک اونٹ نفل کے طور پر عطا کیا۔ حضر ت ابن عمر ؓ نے اس روایت میں لشکر کو مال غنیمت سے ملنے والے حصوں کو بیان کیا اور یہ بتایا کہ نفل پورے مال غنیمت سے نہیں دیا گیا بلکہ حصوں کی تقسیم کے بعد دیا گیا اور خمس میں سے دیا گیا۔ مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد کسی کو بطور نفل کچھ دینا صرف خمس سے ہی جائز ہوتا ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی انہیں ابودائود نے انہیں ولید بن عتبہ نے انہیں ولید نے انہیں عبداللہ بن العلاء نے انہوں نے ابوسلام بن الاسود سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرو بن عبد ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہمیں حضور ﷺ نے مال غنیمت کے ایک اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھائی۔ جب آپ نے نماز سے فارغ ہوئے تو اس اونٹ کے پہلو سے ایک بال اٹھا کر فرمانے لگے میرے لئے تمہارے غنائم سے خمس کے سوا اس بال کے برابر بھی کوئی چیز حلال نہیں ہے اور یہ خمس بھی تمہاری طرف ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس روایت میں حضور ﷺ نے یہ واضح کردیا کہ آپ ﷺ کو غنائم میں خمس کے سوا اور کسی چیز کے اندر تصرف کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ نیز یہ کہ باقی چار حصے غانمین کا حق شمار ہوتے تھے۔ اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ ایسی معمولی چیزیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور جسے لینے پر لوگ ایک دوسرے کے لئے مانع نہ ہوتے۔ مثلاً گٹھلی، تنکا اور چیتھڑے وغیرہ جسے بیکار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے ایک انسان کے لئے ایسی چیزیں اٹھا لینا اور لے جانا جائز ہوتا ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے اونٹ کے پہلو سے ایک بال اٹھا کر فرمایا تھا کہ تمہارے غنائم سے میرے لئے اس جیسی چیز بھی حلال نہیں ہے۔ یعنی میرے لئے اس جیسی چیز کا لے لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا پورے گروہ میں سے کسی ایک کو دے دینا جائز نہیں ظاہر ہے کہ ایک بال کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے اس جیسی چیز بھی حلال نہیں ہے اس سے آپ کی مراد ہی متعین چیز تھی یعنی بال۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کی اس سے مراد ایسی چیزیں تھیں جنہیں حاصل کرنے میں لوگ ایک دوسرے کے لئے مانع نہیں بنتے۔ بعینہ وہ بال مراد نہیں تھا اس لئے کہ وہ تو آپ ﷺ نے لے لیا تھا۔ ہماری اس بات پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ابن المبارک نے نقل کیا ہے انہیں خالد الم خداء نے عبداللہ بن شفیق سے اور انہوں نے بلقین کے ایک شخص سے اس شخص نے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ سے پوچھا تھا اللہ کے رسول ﷺ اس مال یعنی مال غنیمت کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ “ آپ نے جواب دیا۔ خمس اللہ کے لئے اور چار حصے فوج کے لئے ہے “۔ ہم نے پھر پوچھا :” آیا اس میں کسی کا حق کسی سے بڑھ کر بھی ہے ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” اگر تم اپنے پہلو میں پیوست تیر بھی کھینچ کر نکال لو یعنی وہ دشمن کا تیر ہو اور اب مال غنیمت میں شامل ہو تو بھی تم اپنے مسلمان بھائی سے بڑھ کر اس کے حق دار نہیں بنوگے : ابوعاصم النبیل نے وہب بن ابی خالد الحمصی سے انہوں نے اپنے والد حضرت عریاض ؓ بن ساریہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک بال پکڑ کر فرمایا (مالی فیکم ھذہ مالی فیہ الاالخمس فادوالخیط والمخیط فانہ عار ونار وشنار علی صاحبہ یوم القیامۃ) تمہارے مال میں میرا اس بال جتنا بھی حق نہیں ہے مال غنیمت میں خمس کے سوا میرا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لئے مال غنیمت کا دھاگہ اور سوئی بھی جمع کرا دو ، اس لئے کہ اسے دیا جانا قیامت کے دن دیئے جانے والے کے لئے شرمندگی جہنم کی آگ اور بدترین عیب کا سبب بن جائے گا۔ مال غنیمت اور تعمیر کردار ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے والد نے عمرو کے دادا سے کہ دادا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے قبیلہ ہوازن سے حاصل ہونے والے غنائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ ایک اونٹ کے پاس چلے گئے اس کے کوہان سے ایک بال اٹھایا اور فرمایا : لوگو ! اس شے یعنی مال غنیمت میں خمس کے سوا میرے لئے کوئی چیز نہیں ہے یہ چیز تک بھی نہیں (یہ کہتے ہوئے آپ ﷺ نے دو انگلیاں بلند کر کے اونٹ کے کوہان سے حاصل کردہ بال لوگوں کو دکھایا) اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس لئے مال غنیمت کا دھاگہ اور سوئی بھی جمع کرا دو “۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں اون کا گچھا تھا وہ کہنے لگا کہ ” میں نے اون کا یہ گچھا اپنی اونی چادر رفو کرنے کی غرض سے لیا تھا “۔ حضور ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا : خمس میں سے میرا اور عبدالمطلب کے گھرانے یعنی میرے قرابت داروں کا جو حصہ ہے وہ میں تمہیں دیتاہوں “۔ یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا جب اس سلسلے میں آپ اس مقام کو پہنچ گئے ہیں جو مجھے نظر آرہا ہے تو مجھے بھی اس اون کی ضرورت نہیں ہے “۔ یہ کہہ کر اس شخص نے اون کا گچھا پھینک دیا۔ یہ تمام روایات ظاہر کتاب اللہ سے مطابقت رکھتی ہیں اس لئے یہ روایات حبیب بن مسلمہ کی روایت کردہ حدیث کے مقابلہ میں اولیٰ ہوں گی خاص طور پر جبکہ اس روایت میں اس تاویل کی گنجائش موجود ہے جس کا ہم نے سابقہ سطور میں ذکر بھی کردیا ہے یہ تمام روایات مال غنیمت کے چار حصوں میں غانمین یعنی جنگ میں حصہ لینے والوں کے سوا کسی اور کے حق کے ثبوت کے لئے مانع ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ ان چاروں حصوں میں حضور ﷺ کا بھی کوئی حق نہیں تھا۔ محمد بن سیرین نے روایت کی ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ حضرت عبیداللہ بن ابی بکرہ ؓ کی سرکردگی میں ایک مہم پر گئے ہوئے تھے۔ اس مہم کے اختتام پر کچھ قیدی ہاتھ آگئے، حضرت عبیداللہ نے حضرت انس ؓ کو ایک قیدی حوالہ کرنا چاہا تو حضرت انس نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ پہلے مال غنیمت تقسیم کر دو پھر خمس میں سے مجھے جو کچھ دینا ہے دو حضرت عبیداللہ نے کہا کہ میں تو پورے مال غنیمت میں سے تمہیں دوں گا حضرت انس ؓ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور حضرت عبیداللہ خمس میں سے دینے پر رضامند نہیں ہوئے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں حجاج نے انہیں حماد نے محمد بن عمرو سے انہوں نے سعید بن المسیب سے انہوں نے فرمایا : حضور ﷺ کے بعد اب بطور نفل کسی کو کچھ دینے کی بات ختم ہوگئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی شاید اس سے مراد یہ ہو کہ پورے مال غنیمت میں سے اب بطور نفل کسی کو کچھ نہیں دیا جائے گا اس لئے کہ حضور ﷺ بطور نفل لوگوں کو دیا کرتے تھے پھر مال غنیمت کی تقسیم کی آیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اس قول سے ہمارے مسلک کے حق میں استدلال کیا جاسکتا ہے اس لئے کو سعید بن المسیب کا یہ قول ظاہر ی طور پر اس امر کا مقتضی ہے کہ عام حالات کے اندر حضور ﷺ کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بطور نفل کسی کو کوئی چیز دے دے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ دلالت موجود ہے کہ امام وقت یا سپہ سالار اگر یہ اعلان کر دے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا تو اس صورت میں وہ سامان اسے مل جائے گا، اس پر چونکہ سب کا اتفاق ہے اس اتفاق امت کی بنا پر ہم نے اس کی تخصیص کردی اور باقی صورتوں کو اس کے مقتضی پر رہنے دیا یعنی اگر امام یہ اعلان نہ کرے تو کسی کو بھی بطور نفل کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ سعید بن المسیب سے یہ مروی ہے کہ لوگ خمس میں سے بطور نفل دیا کرتے تھے۔ بڑے سرداروں کو مال غنیمت دینا اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے غزوہ حنین میں حاصل ہونے والے غنائم میں سے عرب کے مشہور سرداروں کو بڑے بڑے عطیے دیئے تھے ان میں اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن، زبرقان بن بدر، ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ دغیرہم شامل تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ آپ نے ان میں سے ہر ایک کو مال غنیمت میں سے اس کا اپنا حصہ اور خمس میں سے ایک حصہ دو حصے ملا کر نہیں دیئے تھے اس لئے کہ یہ دونوں حصے مل کر بھی اس عطیے کی مقدار کو نہیں پہنچ سکتے تھے جو آپ نے ان میں سے ہر ایک کو دیا تھا۔ آپ نے ہر ایک کو سو سو اونٹ دیئے تھے انکے سوا کچھ دوسروں کو بھی اتنے ہی اونٹ دیئے تھے۔ آپ نے ان میں سے ہر ایک کو خمس میں سے اس کا حصہ دے کر خمس کے باقی ماندہ حصوں میں سے اسے نہیں دیا ہوگا اس لئے کہ خمس کے باقی ماندہ حصوں میں فقراء کا حق تھا اور یہ لوگ فقراء نہیں تھے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے انہیں پورے مال غنیمت میں سے دیا تھا اور چونکہ آپ نے اس سلسلے میں تمام لوگوں سے ان کی رضامندی بھی حاصل نہیں کی تھی اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ نے انہیں یہ سب کچھ بطور نفل دیا تھا کیونکہ آپ کو بطور نفل کسی کو کچھ دے دینے کا اختیار تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ لوگ مونقہ القلوب کی مد میں آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے صدقات میں مونقہ القلوب کا حصہ رکھا ہے خمس کی حیثیت بھی اس لحاظ سے صدقہ کی طرح ہے کہ اس کا مصرف بھی فقراء ہیں جس طرح صدقات کا مصرف فقراء ہی ہیں۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں پورے خمس میں سے دیا ہو جس طرح صدقات میں سے آپ انہیں دیتے تھے۔ مقتول دشمن کے سلب کے بارے میں فقہاء کی آراء مقتول دشمن کے سازو سامان کی ملکیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مقتول کا سلب یعنی سازو سامان پورے مال غنیمت کا حصہ ہے۔ البتہ اگر امیر لشکر نے یہ اعلان کردیا ہو کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سازو سامان مل جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ سازو سامان پورے مال غنیمت کا حصہ نہیں ہوگا۔ اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ سلب ہر صورت میں قاتل کو مل جائے گا خواہ امیر لشکر نے اس کا اعلان نہ بھی کیا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) یہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ مال غنیمت غانمین یعنی جنگ میں حصہ لینے والوں کو دینا لازم ہے اس لئے مال غنیمت میں سے کسی کو خصوصی طورپر کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت کی بنا پر سلب کو بھی مال غنیمت میں شمار کرنے پر آیت کی دلالت تسلیم کر لینی چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ غنمتم کا مصداق وہ مال غنیمت ہے جو غازیوں نے اجتماعی طور پر نیز جنگ میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر اور غنیمت کے طور پر سازوسامان اکٹھا کر کے حاصل کیا ہو جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کردیتا ہے وہ دراصل پوری جماعت کی مدد اور اجتماعی قوت کے سہارے ایسا کرتا ہے اور مقتول کا سازو سامان حاصل کرتا ہے اس لئے اس سازوسامان کو مال غنیمت میں شمار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ اس مقتول کو قتل کئے بغیر اس کا سلب لے لیتا تو اس صورت میں یہ سلب مال غنیمت کا حصہ شمار ہوتا۔ اس لئے کہ اسے اس سلب تک رسائی صرف پورے لشکر کی اجتماعی قوت کی بنا پر حاصل ہوئی تھی۔ اس کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ایسا شخص جس نے عملاً جنگ میں حصہ نہ لیا ہو اور اسلامی لشکر کی صف میں صرف مددگار کی حیثیت سے کھڑا رہا ہو وہ بھی غنیمت کا مستحق ہوتا اور غانمین میں شامل ہوتا ہے اس لئے غنیمت کے حصول میں اس کی پشت پناہی اور سہارے کو بھی دخل ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے سلب کا مال غنیمت ہونا واجب ہوگیا۔ اس صورت میں اس کی حیثیت غنائم کی دوسری اشیاء کی طرح ہوگی۔ اس پر قول باری فکلوامماغنمتم حلالاً طیباً بھی دلالت کرتا ہے اس لئے کہ سلب پوری جماعت نے بطور غنیمت حاصل کیا ہے اس لئے پوری جماعت کا اس پر حق ہوگا سنت کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ ہمیں احمد بن خالد نے روایت بیان کی انہیں محمد بن یحییٰ نے انہیں محمد بن المبارک اور ہشام بن عمار نے ان دونوں کو عمرو بن واقد نے موسیٰ بن یسار سے انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے قتادہ بن ابی امیہ سے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی لشکر کے ساتھ مقام وابق میں پڑائو ڈالا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ حبیب بن مسلمہ کو یہ اطلاع کہ قلعہ قبرس کا حاکم فندآذر بائیجان کی طرف بھاگنے کے لئے قلعہ سے چل پڑا ہے وہ اپنے ساتھ یاقوت و زمرد اور موتی نیز ریشمی کپڑوں کی بڑی مقدار لے جا رہا ہے۔ یہ سن کر حبیب بن مسلم اس کی تلاش میں پہاڑی راستوں پر چل پڑے اور ایک درے میں اسے جالیا اور قتل کر کے اس کا سارا مال و اسباب حضرت ابوعبیدہ ؓ کے پاس لے آئے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اس سے خمس نکالنا چاہا تو حبیب کہنے لگے کہ آپ مجھے اس رزق سے کیوں محروم کرتے ہیں جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے مقتول کا سارا مال و اسباب قاتل کو دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت معا ذ بن جبل ؓ نے حبیب سے فرمایا ” حبیب ٹھہرو میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انماللمرء ما طابت بہ نفس امامہ۔ انسان کو وہی کچھ لینا چاہیے جو اس کا امام خوش ہو کر اسے دے دے) حضور ﷺ کا یہ ارشاد اس چیز کی ممانعت کا مقتضی ہے جو اس کا امام اسے خوش ہو کر نہ دے اس لئے امام جس شخص کو خوش ہو کر مقتول کا سلب دینا نہ چاہیے اس کے لئے وہ سلب حلال نہیں ہوگا، خاص طور پر جبکہ حضرت معاذ ؓ نے سلب کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد سنا دیا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ حضور ﷺ سے ایک جماعت نے جس میں حضرت ابوقتادہ ؓ ، حضرت طلحہ ؓ حضرت سمرہ بن جندب ؓ وغیرہم شامل ہیں یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا من قتل قتیلاً فلہ سلبہ۔ جس شخص نے دشمن کے کسی آدمی کو قتل کردیا اسے اس کا سلب یعنی سازو سامان مل جائے گا) نیز حضرت سلمہ بن الاکوع حضرت ابن عباس ؓ حضرت عوبن مالک ؓ اور خالد بن الولید ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے دشمن کے قاتل کو اس کا سلب دے دیا تھا۔ یہ روایت دو باتوں پر دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ روایت سلب پر قاتل کے استحقاق کی مقتضی ہے۔ دوسری یہ کہ اس روایت سے حضرت معاذ ؓ کی روایت کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ نے قاتل کے اسی فعل پر خوش ہو کر اسے سلب دے دیا تھا اور یہ بات تو واضح ہے کہ حضور ﷺ امام الائمہ تھے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کے ارشاد لیس للمرء الاماطابت بہ نفس امامہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس سے وہ امیر اور حاکم مراد ہے جس کی اطاعت قاتل پر سلب کا دعویدار ہے واجب ہو۔ حضرت معاذ ؓ نے بھی اس ارشاد سے یہی مفہوم اخذ کیا تھا آپ چونکہ حضور ﷺ سے اس حدیث کے راوی ہیں اس لئے آپ کا اخذ کردہ مفہوم ہی درست قرار دیا جائے گا۔ اگر حضور ﷺ اپنے اس ارشاد سے اپنی ذات مراد لیتے تو حدیث کے الفاظ یہ ہوتے انماللمرء ما طابت بہ نفسی انسان کے لئے وہ کچھ ہے جو میں خوش ہو کر اسے دے دوں “۔ اس لئے معترض نے جس تاویل اور مفہوم کا ذکر کیا ہے وہ بےمعنی اور ساقط تاویل ہے رہ گئیں وہ روایتیں جن میں یہ مروی ہے کہ سلب قاتل کے لئے ہوتا ہے ان میں اس حکم کا ورود اس حالت کے تحت ہوا تھا جس میں آپ نے مجاہدین کو قتال پر ابھارا تھا۔ آپ یہ بات لوگوں کو قتال پر ابھارنے اور دشمنوں کے خلاف انہیں جوش دلانے کے لئے فرمایا کرتے تھے جس طرح آپ سے یہ مروی ہے کہ من اصاب شیئاً فھولہ۔ جس شخص کو کوئی چیز ہاتھ آجائے وہ اس کی ہوجائے گی۔ جس طرح ہمیں احمد بن اخلد الجزوری نے روایت سنائی ہے انہیں محمد یحییٰ الدھانی نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں غالب بن حجرہ نے انہیں ام عبداللہ نے یہ ملقام بن التلب کی بیٹی ہیں، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا من اتی بمول فلہ سلبہ جو شخص کسی فرار ہونے والے کو پکڑ کر لائے گا اسے اس کا سازوسامان مل جائے گا) یہ بات واضح ہے کہ یہ حکم صرف متعلقہ جنگ کی حالت تک محدود تھا اس لئے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص کسی فرار ہونے والے دشمن کو پکڑے گا وہ اس کے سلب کا حقدار نہیں بنے گا۔ آپ کا یہ ارشاد فتح مکہ کے دن آپ کے اس ارشاد کی طرح ہے کہ من دخل دارابی سفیان فھو امن ومن دخل المسجد فھوامن، ومن دخل بینہ فھوامن ومن القی سلاحہ فھوامن۔ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے امن مل جائے گا جو شخص مسجد میں داخل ہوجائے گا اسے امن مل جائے گا جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے امن مل جائے گا اور جو شخص اپنے ہتھیار پھینک دے گا اسے امن مل جائے گا) قاتل سلب کا مستحق نہیں ہوتا الایہ کہ امیر لشکر نے اعلان کردیا ہو کہ جو شخص کسی دشمن کو قتل کرے گا اسے اس کا سازوسامان مل جائے گا۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ہے انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن حنبل نے انہیں الولید بن مسلم نے انہیں صفوان بن عمرو نے عبدالرحمن بن جیر بن نفیر سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عوف بن مالک ؓ اشجعی سے وہ فرماتے ہیں کہ میں غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کے لشکر میں شامل ہوگیا میرے ساتھ قبیلہ مدد کا ایک یمنی باشندہ بھی تھا۔ اس کے پاس تلوار کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ ایک مسلمان نے اونٹ ذبح کیا اس شخص نے اس سے کھال کا ایک ٹکڑا طلب کیا جو اسے مل گیا۔ اس نے اس سے ایک ڈھال بنالی ہم آگے بڑھتے رہے پھر رومیوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی۔ رومیوں کی فوج میں ایک شخص سرخ گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین پر سونے کی پتریاں لگی ہوئی تھیں اسی طرح اس کے ہتھیار پر بھی سونے کی پتریاں چڑھی ہوئی تھیں وہ شخص رومیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا پھر رہا تھا قبیلہ مدد کا یہ یمنی باشندہ اس رومی کی گھات میں ایک چٹان کے پیچھے بیٹھ گیا جب رومی اپنے گھوڑے پر اس جگہ سے گزرا تو اس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں رومی گھوڑے سے گرپڑا۔ یہ شخص اس پر سوار ہوگیا اور اس کی گردن اڑا دی اور اس کے گھوڑے اور سازوسامان پر قبضہ کرلیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس معرکے میں مسلمانوں کو فتح دی تو حضرت خالد نے اس شخص کو طلب کر کے سارا سازوسامان اس سے رکھوالیا۔ عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت خالد ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں کہ حضور ﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ سلب قاتل کا ہوتا ہے انہوں نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے لیکن مجھے اس سازوسامان کی مالیت بہت زیادہ معلوم ہوئی اس لئے میں نے سب کچھ رکھوالیا۔ یہ س کر میں نے کہا کہ آپ یہ سارا سلب اس شخص کو واپس دے دیں ورنہ میں آپ کے خلاف یہ معاملہ حضور ﷺ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ لیکن حضرت خالد ؓ نے میری بات ماننے سے انکار کردیا۔ جب ہماری واپسی ہوئی تو حضور ﷺ کی خدمت میں ہم سب اکٹھے ہوگئے۔ میں نے سارا واقعہ اور حضرت خالد کا طرز عمل حضور ﷺ کو بیان کردیا۔ آپ نے حضرت خالد ؓ سے جواب طلبی کی انہوں نے عرض کیا کہ دراصل مجھے اس کی مالیت بہت زیادہ معلوم ہوئی آپ ﷺ نے یہ سن کر انہیں سارا سامان واپس کرنے کا حکم دیدیا۔ میں نے یہ دیکھ کر حضرت خالد ؓ سے کہا ” کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ میں نے تمہاری اطاعت نہیں کی “۔ اس پر حضور ﷺ نے مجھ سے استفسار کیا میں نے حضرت خالد ؓ کے ساتھ ہونیوالی اپنی پوری گفتگو دہرا دی جسے سن کر حضور ﷺ کو غصہ آگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا ” خالد ! یہ سامان واپس نہ کرو “۔ پھر سب سے مخاطب ہو کر فرمایا : کیا تم لوگ اپنے سرداروں اور امراء کو اس حالت پر پہنچا دینا چاہتے ہو کہ تمہیں تو ان کی حکومت وقیادت کا نتھرا ہوا حصہ ہاتھ آجانے اور گدلا حصہ ان کے سر پر جائے “۔ ہمیں محمد بن بکر نے بیان کیا، انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن حنبل نے انہیں ولید نے کہ میں نے ثور سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے مجھے خالد بن معدان سے انہوں نے جبیر بن نفیر سے اور انہوں نے عوف بن مالک اشجعی ؓ سے اسی طرح کی روایت سنائی۔ حضور ﷺ نے حضرت خالد ؓ کو جب سلب واپس نہ کرنے کا حکم دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قاتل اس کا حق دار نہیں تھا۔ اس لئے کہ اگر قاتل اس کا حق دار ہوتا تو آپ کبھی بھی اس کا یہ حق اس سے نہ روکتے۔ اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوئی کہ شروع میں آپ نے سلب واپس کرنے کا جو حکم دیا تھا وہ دراصل ایجاب پر مبنی نہ تھا بلکہ نفل کے طور پر تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خمس میں سے اسے یہ دینے کا حکم دیا گیا ہو اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کے راوی یوسف الماجثوں ہیں انہیں صالح بن ابراہیم نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے کہ معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن الجموح نے جب ابوجہل کو قتل کردیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے لیکن آپ نے سلب معاذ بن عمرو کو دینے کا فیصلہ سنایا آپ نے سلب ان میں سے ایک کو دیا جبکہ پہلے فرما چکے تھے کہ دونوں اس کے قتل میں شریک ہیں۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ دونوں ننھے مجاہد ابوجہل کو قتل کرنے کی بنا پر اس کے سلف کے مستحق نہیں ٹھہرے تھے۔ آپ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر میرا لشکر یہ اعلان کردیتا کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سلب مل جائے گا پھر دو شخص دشمن کے ایک آدمی کو قتل کردیتے تو دونوں آدھے آدھے سلب کے مستحق قرار پاتے۔ ایک آدمی مستحق قرار نہ پاتا لیکن درج بالا روایت میں حضور ﷺ نے صرف ایک قاتل کو سلب دے دیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سلب کا استحقاق قتل کی بنا پر نہیں ہوتا۔ اگر قاتل سلب کا مستحق ہوتا تو پھر ایسے مقتول کا سلب جس کا قاتل معلوم نہ ہو منجملہ مال غنیمت قرار نہ پاتا بلکہ لقطہ قررا دیا جاتا کیونکہ اس کا مستحق ایک متعین شخص ہوتا لیکن جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ میدان جنگ میں ایسے مقتول کا سلب مال غنیمت میں شمار ہوتا ہے جس کا قاتل معلوم نہ ہو تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ قاتل سلب کا مستحق نہیں ہوتا۔ امام شافعی ؓ نے یہ فرمایا ہے کہ میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے دشمن کا ک قاتل اس کے سلب کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ مقابلہ کرنے والے دشمن کا قاتل اس کے سلب کا مستحق ہوتا ہے۔ یعنی ادبار کی صورت میں سلب کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اقبال کی صورت میں ہوتا ہے جب کہ سلب کے بارے میں وارد روایت نے اقبال اور ادبار کی حالت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اگر امام شافعی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں تو انہوں نے دونوں میں فرق کر کے اس کے خلاف مسلک اختیار کیا ہے اور اگر وہ نظر اور قیاس سے استدلال کرتے ہیں تو قیاس اس بات کا موجب ہے کہ سلب کا شمار مال غنیمت میں ہو جس کے سب مستحق ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ادبار کی حالت میں قتل کرنے کی صورت میں قاتل سلب کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ اس سلب کو مال غنیمت میں شامل کیا جاتا ہے۔ حالت ادبار اور حالت اقبال کے درمیا ن جو مشترک علت ہے وہ یہ ہے کہ قاتل نے دشمن کے آدمی کو پورے لشکر کی معاونت سے قتل کیا ہے اور امیر لشکر کی طرف سے اسے کے استحقاق کے لئے پہلے سے کوئی اعلان نہیں ہوا ہے قاتل صرف اسی وقت سلب کا مستحق ہوتا ہے جبکہ مال غنیمت سمیٹ کر محفوظ کرلینے سے پہلے پہلے امیر لشکر کی طرف سے اس قسم اک کوئی اعلان ہوچکا ہو اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر امیر لشکر نے سلب کے استحقاق کے متعلق یہ اعلان کردیا ہو کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سلب مل جائے گا پھر کوئی شخص دشمن کے کسی آدمی کو ادبار یا اقبال کی حالت میں قتل کر دے تو اس کے سلب کا وہ مستحق ہوجائے گا اور اقبال یا ادبار کی حالت سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر سلب کا استحقاق نفس قتل کی بنا پر ہوتا تو اقبال اور ادبار کی حالت کے لحاظ سے اس کے حکم میں فرق نہ ہوتا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کے ہاتھ سے قتل ہونے والے دشمن کے آدمی کے سلب کے متعلق حضرت عمر ؓ کا یہ قول مروی ہے کہ ” ہم سلب میں خمس نہیں لیا کرتے تھے لیکن براء کو حاصل ہونے والے سلب اچھی خاصی مالیت کا ہے اور ہم ضرور اس کا خمس لیں گے “۔ امیر لشکر اگر یہ اعلان کر دے کہ جس شخص کو کوئی چیز ہاتھ لگ جائے وہ اس کی ہوگی تو اس اعلان کی کیا حیثیت ہوگی اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ اس اعلان کے بموجب عمل ہوگا اور اس میں سے خمس وصول نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک ؓ نے ایسے اعلان کو مکروہ سمجھا ہے اس لئے کہ پیسے اور انعام دے کر جنگ پر بھیجنے کے مترادف ہے۔ امام شافعی کا قول ہے مقتول کے سلب کے سوا جو چیز بھی کسی کے ہاتھ لگے گی اس میں سے خمس وصول کیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ امیر لشکر کی طرف سے اس قسم کا اعلان جائز ہے اور ایسے مال پر حق ثابت ہوجاتا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس میں سے خمس نہ لیا جائے اور اس مال میں سے خمس کے مستحقین کے حقوق کو منقطع کردینا اسی طرح جائز ہوجائے گا جس طرح تمام اہل لشکر کے حقوق کو اس سے منقطع کردینا جائز ہوتا ہے۔ نیز امیر لشکر کا یہ اعلان اس کے اس اعلان کی طرح ہے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کر دے گا اسے اس کا سلب مل جائے گا جب امیر کے اس اعلان کی بنا پر سلب میں خمس نکالنا واجب نہیں ہوتا تو پھر زیر بحث اعلان کی بنیاد پر حاصل ہونے والے مال میں سے خمس نکالنا واجب نہیں ہونا چاہیے نیز اللہ تعالیٰ نے اس مال میں خمس واجب کیا ہے جو مجاہدین کے لئے مال غنیمت بن چکا ہو۔ چناچہ ارشاد ہے واعلموا اذما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس لئے جو چیز مجاہدین کے لئے مال غنیمت نہ بنی ہو اس میں سے خمس نکالنا واجب قرار دینا نہیں چاہیے۔ اگر ایک شخص امیر کی اجازت کے بغیر دارالحرب میں گھس جائے اور مال وغیرہ سمیٹ کر واپس آجائے تو آیا اس مال سے خمس وصول کیا جائے گا یا نہیں ہمارے اصحاب کا قول ہے یہ مال اس کا ہوگا اور اس میں سے اس وقت تک خمس وصول نہیں کیا جائے گا جب تک کارروائی ایک جتھے کی شکل میں نہ ہوئی ہوگی جتھے سے مراد یہ ہے کہ یہ گروہ طاقت و قوت کا مالک ہو امام محمد نے جتھے کے لئے نفری کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے البتہ امام ابویوسف کا قول یہ ہے کہ اگر جتھا کم از کم نوافراد پر مشتمل ہو تو پھر اس مال سے خمس وصول کیا جائے گا سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ چاہے ایک فرد بھی یہ کارروائی کرے حاصل کردہ مال میں سے خمس وصول کیا جائے گا اور باقی چار حصے اس کے ہوں گے اوزاعی کا قول ہے کہ اگر امام چاہے گا تو اس شخص کو اس حرکت کی سزا دے گا اور سزا کے طور پر اسے مال سے محروم کر دے گا اور اگر چاہے گا تو مخس وصول کر کے باقی مال اسے دے دے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس بات کا مقتضی ہے کہ مال غنیمت حاصل کرنے والے ایک جماعت اور گروہ کی شکل میں ہوں۔ اس لئے کہ جماعت کی صورت میں مال غنیمت کا حصول استحقاق کی شرط ہے۔ اس حکم کی حیثیت قول باری اقتلوا المشرکین ، مشرکین کو قتل کردو) یا (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر۔ ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہ لاتے اور نہ ہی یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں) میں مذکور حکم کی طرح نہیں ہے۔ اس حکم میں ایک شخص کو بھی جب وہ مشرک ہو قتل کرنے کالزوم ہے خواہ اس کے ساتھ کوئی جماعت یا گروہ نہ بھی ہو۔ اس لئے کہ آیت میں مشرکین کی جماعت کو قتل کرنے کا حکم ہے اور جماعت کو قتل کرنے کا حکم پوری جماعت کے اعتبار کو متلزم نہیں ہے اس لئے کہ اس میں یہ اعتبار شرط نہیں ہے جبکہ قول باری واعلموا انما غنمتم من شئی) میں شرط کی صورت موجود ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ غنیمت ایک گروہ کو حاصل ہو اور اس گروہ کے قتال کی بنا پر حاصل ہو اس لئے اس حکم کی حیثیت قائل کے اس قول کی طرح ہے کہ اگر ” میں اس جماعت سے کلام کروں تو میرا غلام آزاد ہے “ اس جملے میں قسم ٹوٹنے کی شرط یہ ہے کہ پوری جماعت سے کلام کیا جائے۔ اگر اس جماعت کے بعض افراد سے کلام کرے گا تو احنث نہیں ہوگا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھے سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جب ایک لشکر مال غنیمت حاصل کرلے تو خمس نکالنے کے بعد باقی ماندہ چار حصوں میں دوسرے تمام مسلمان شریک نہیں ہوں گے اس لئے کہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے اور غنیمت کو سمیٹ کر محفوظ کرنے میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ دارالحرب میں گھس کر مال سمیٹ لینے والا یہ ایک شخص تنہا اس مال کا مستحق قرار پائے۔ رہ گئی خمس کی بات تو وہ اس مال غنیمت میں واجب ہوتا ہے جو مسلمانوں کی مدد اور ان کی نصرت کی بنا پر حاصل ہوتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مال غنیمت حاصل کرنے والوں کو دیگر مسلمانوں کی پشت پناہی حاصل ہو اب جو شخص تنہا لوٹ مار اور مال سمیٹنے کی نیت سے دارالحرب میں جا گھسے گا وہ امام المسلمین کی نصرت اور اس کی پشت پناہی سے اپنا تعلق قطع کرلے گا اس لئے کہ اس کی اجازت کے بغیر یہ کارروائی کرنے کی بنا پر وہ اس کی نافرمانی کرنے والا قرار پائے گا جس سے یہ ضروری ہوجائے گا کہ اس کے حاصل کردہ مال میں امام کے لئے خمس کا کوئی استحقاق نہ پیدا ہو۔ زمینی دفینوں کا حکم اسی بناء پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ایسا رکاز (زمین کے اندر موجود معدنیات دھاتیں نیز دفینے) جو دارالاسلام میں ملے اس میں خمس واجب ہوگا اس لئے کہ وہ ایسی سرزمین میں پایا گیا جس پر اسلام کا غلبہ ہے۔ لیکن اگر یہ رکاز دارالحرب میں مل جائے تو اس میں خمس واجب نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص امام کی اجازت سے دارالحرب میں گھس کر وہاں سے مال وغیرہ سمیٹ لائے تو اس مال میں خمس واجب ہوگا اس لئے کہ امام المسلمین نے جب اسے یہ کارروائی کرنے کی اجازت دے دی تو وہ اس کی مدد اور پشت پناہی کا ضامن بن گیا اور اس سلسلے میں وہ مسلمانوں کی جماعت کے قائم مقام ہوگیا اس لئے اس مال میں مسلمانوں کے لئے اسے خمس کا استحقاق حاصل ہوگیا۔ امام کی اجازت کے بغیر دارالحرب میں گھس کر لوٹ مار کرنے والے اگر ایک گروہ کی شکل میں ہوں جنہیں طاقت و قوت بھی حاصل ہو تو ان کے حاصل کردہ مال میں خمس واجب ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس صورت میں اس گروہ کی حیثیت فوجی دستے اور لشکر جیسی ہوگی۔ اس لئے کہ انہیں طاقت و قوت حاصل ہوگی اور مذکورہ بالا آیت میں ان کے غنائم سے خمس کے اخراج کا خطاب ان کی طرف متوجہ ہوگا۔ بعد میں شامل جنگ ہونے والوں کے خمس کا حکم اگر اسلامی لشکر دارالحرب میں مصروف پیکار ہو اور مال غنیمت محفوظ کرلینے سے پہلے کوئی اور فوجی دستہ یا لشکر کمک کے طور پر ان سے جا ملے تو آیا وہ بھی اس مال غنیمت میں حصہ دار ہوگایا نہیں۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب اسلامی لشکر کو دارالحرب میں مال غنیمت حاصل ہوجائے اور اسے دارالاسلام میں پہنچانے سیقبل کوئی اور دستہ بطور کمک ان سے آملے تو آنے والے لوگ اس مال غنیمت میں حصہ دار بنیں گے۔ امام مالک سفیان ثوری لیب بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ حصہ دار نہیں بنیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ا س مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ مال غنیمت میں حق اس وقت ثابت ہوتا ہے جب اسے دارالاسلام میں لا کر محفوظ کرلیا جائے اور پھر تقسیم کی بنا پر اس میں ملکیت ثابت ہوتی ہے لیکن دارالحرب میں اس مال کا ہاتھ آجانا حق کے اثبات کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دارالحرب میں جس جگہ اسلامی فوج پہنچ جائے اگر مسلمان اس جگہ کو فتح نہ کرسکیں تو وہاں سے حاصل شدہ مال مال غنیمت نہیں کہلائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اسلامی فوج اس جگہ سے نکل آئے اور اس کے بعد کوئی اور فوج وہاں داخل ہو کر اسے فتح کرلے تو وہ جگہ مسلمانوں کی ملکیت شمار نہیں ہوگی بلکہ اس کی حیثیت دارالحرب کے دوسرے علاقوں اور جگہوں کی طرح رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی فوج اس جگہ تک پہنچ گئی تھی لیکن چونکہ اس جگہ یا علاقے کا اتصال دارالاسلام کے ساتھ نہیں ہوا اور وہ دارالاسلام میں شامل نہیں کیا جاسکا اس لئے وہ دارالحرب کا ہی علاقہ رہا۔ اسی طرح دارالحرب میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہر چیز میں اس وقت تک حق ثابت نہیں ہوگا جب تک اسے دارالاسلام پہنچا کر محفوظ نہ کرلیا جائے اس لئے اس عمل سے پہلے پہلے اگر کمک کے طور پر اسلامی لشکر کے ساتھ کوئی اور لشکر یا فوجی دستہ آملتا ہے تو اس حاصل شدہ مال غنیمت کا حکم وہی ہوگا جو کافروں کے قبضے میں موجود اشیاء کا ہے اس لئے اس مال میں پرانے اور نئے آنے والے سب شریک ہوں گے۔ نیز قول باری واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) بھی اس امر کا مقتضی ہے کہ حاصل شدہ یہ مال غنیمت نئے آنے والوں کے لئے بھی مال غنیمت شمار کرلیا جائے اس لئے کہ اس مال کو دارالاسلام میں لاکر محفوظ کردینے میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب تک اسلامی لشکر دارالحرب میں پڑائو ڈالے رہے گا اسے مال غنیمت کو دارالاسلام میں لا کر محفوظ کردینے کے سلسلے میں ان نئے آنے والوں کی معاونت کی ضرورت رہے گی جس طرح اس صروت میں ان کی معاونت کی ضرورت رہتی جب وہ اس مال غنیمت کے حصول سے پہلے اسلامی لشکر سے آملتے۔ اس صورت میں مال غنیمت میں اس کی شرکت ہوجاتی ہے اس لئے زیر بحث صورت میں بھی مال غنیمت کے اندر ان کی شرکت ہونی چاہیے اگر مال غنیمت کا ہاتھ آجانا ہی حق کے اثبات کے لئے کافی ہوتا اور اس کے لئے اسے دارالاسلام میں لاکر محفوظ کرلینے کی شرط نہ ہوتی تو پھر اسلامی فوج کے قدموں تلے آنے والے دشمن کے ہر علاقے کو دارالاسلام شمار کرنا ضرور ی ہوجاتا جس طرح اس علاقے کو فتح کرلینے کے بعد اسے دارالاسلام کا حصہ شمار کیا جاتا ہے جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اسلامی فوج کے قدموں تلے آنے والے دشمن کا علاقہ صرف اتنی بات پر دارالاسلام کا حصہ شمار نہیں ہوتا تو اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ دارالحرب میں ہاتھ آنے والے مال غنیمت میں اس وقت حق ثابت ہوتا ہے جب اسے دارالاسلام میں لاکر محفوظ کرلیا جائے۔ جو حضرات کمک کے طور پر آنے والے لشکر کو مال غنیمت میں شامل نہیں کرتے ان کا استدلال یہ ہے کہ زہری نے عنبسہ بن سعید اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابان بن سعید کو نجد کی طرف جانے والی ایک فوجی مہم کا قائد بنا کر روانہ کیا تھا حضرت ابان ؓ کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے رفقاء سمیت حضور ﷺ کے پاس خیبر پہنچ گئے جب آپ وہاں پہنچے تو خیبر فتح ہوچکا تھا اور کھجور کی چھالوں سے گھوڑوں پر گٹھڑیاں باندھی جا چکی تھیں۔ حضرت ابان ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہمیں بھی خیبر کے مال غنیمت سے حصہ ملنا چاہیے حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے فوراً عرض کیا کہ انہیں کوئی حصہ نہ دیا جائے یہ سن کر حضرت ابان ؓ کو غصہ آگیا اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو نجدی دیہاتی، تمہاری یہ جرات کہہ کر ڈانٹ دیا حضور ﷺ نے حضرت ابان ؓ کو بیٹھنے کا حکم دیا اور انہیں کوئی حصہ نہیں دیا۔ اس روایت میں ان حضرات کے قول کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ خیبر پر جب حضور ﷺ کا غلبہ ہوا تھا اس کے ساتھ ہی وہ دارالاسلام بن گیا تھا اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ خیبر کا مال غنیمت شرکائے حدیبیہ کے لئے مخصوص تھا اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے انہوں نے عمار بن ابی عمار سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں میں حضور ﷺ کے پاس جب کبھی مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہوتا تو آپ ﷺ مجھے اس میں سے ضرور حصہ دیتے صرف خیبر کے موقع پر حضور ﷺ نے مال غنیمت میں سے مجھے کچھ نہی دیا اس لئے کہ یہ مال غنیمت صرف ان مجاہدین کے لئے مخصوص تھا جو حدیبیہ کے موقع پر حضور ﷺ کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس روایت میں یہ بات بتائی کہ خیبر میں حاصل ہونے والا مال غنیمت اہل حدیبیہ کے لئے مخصوص تھا خواہ انہوں نے غزوہ خیبر میں حصہ لیا تھا یا نہیں لیا تھا۔ اس مال غنیمت میں ان کے سوا کسی اور کا حصہ نہیں رکھا گیا تھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل حدیبیہ سے اس مال غنیمت کا وعدہ فرمایا تھا چنانچہ ارشاد ہے واخری لم تقدرواعلیھا قداحاط اللہ بھا۔ اور ایک اور فتح بھی ہے جو ابھی تمہارے قابو میں نہیں آئی ہے اللہ اسے احاطہ قدرت میں لئے ہونے ہے) اس سے پہلے ارشاد ہوا وعدکم اللہ مغانم کیثرۃ تاخذونھا فعجل لکم۔ اللہ نے تم سے اور بھی بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے کہ تم انہیں لوگے سو ان میں سے یہ فتح تمہیں سردست دے دی ہے۔ ابوبردہ نے حضرت ابوموسی ؓ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ہم فتح خیبر کے تین دن بعد حضور ﷺ کے پاس پہنچے آپ نے ہمیں مال غنیمت میں سے حصہ دیا اور ہمارے سوا کسی اور جو اس غزوہ میں شریک نہیں ہوا تھا کوئی حصہ نہیں د یا “۔ اس روایت میں یہ ذکر ہوا کہ حضور ﷺ کو حضرت ابوموسی ؓ اور ان کے رفقاء کو مال غنیمت میں حصہ دیا حالانکہ یہ حضرات فتح خیبر میں شریک نہیں تھے۔ ان کے سوا کسی اور کوئی حصہ نہیں دیا جو اس معرکہ میں شریک نہیں تھا۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے ان حضرات کو اس بنا پر حصہ دیا تھا کہ یہ لوگ اہل حدیبیہ میں سے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اسی بنا پر حصہ دیا تھا کہ اس غنیمت کے مستحقین نے خوشدلی سے اس کی اجازت دے دی تھی جس طرح خثیم بن عراک نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ اپنے رفقا سمیت مدینہ پہنچے اس وقت حضور ﷺ مدینہ سے جا چکے تھے یہ حضرات بھی مدینہ سے روانہ ہو کر حضور ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا ۔ حضور ﷺ نے ان حضرات کے حصوں کے بارے میں مجاہدین سے گفتگو کرنے کے بعد انہیں بھی مال غنیمت میں شریک کرلیا ان روایات میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ اگر دارالحرب میں موجود اسلامی لشکر کا کوئی کمک پہنچ جائے تو اسے مال غنیمت میں شریک نہیں کیا جاتا۔ قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے روایت کی ہے کہ اہل بصرہ نے نہاوند پر حملہ کیا۔ اہل کوفہ نے انکے لئے کمک بھیجی۔ اس وقت نہاوند فتح ہوچکا تھا۔ اہل بصرہ نے اہل کوفہ کو غنیمت کے مال میں شریک کرنا نہیں چاہا۔ اہل کوفہ کی کمک حضرت عمار ؓ کی سرکردگی میں گئی تھی بنو عطارد کے ایک شخص نے حضرت عمار ؓ سے گستاخانہ انداز میں کہا ” اوکن کٹے ! کیا ہمارے غنائم میں شریک ہونا چاہتے ہو ؟ آپ نے جواب میں فرمایا ہاں شریک ہونا چاہتے ہیں کیونکہ ہماری مدد سے تم نے یہ قیدی گرفتار کئے ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓ کو اس کے متعلق لکھا گیا۔ حضرت عمر ؓ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مال غنیمت ان لوگوں کو ملے گا جو اس جنگ میں شریک ہوئے ہیں اس روایت میں بھی ہمارے قول کے خلاف دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ مسلمان نہاوند پر قابض ہوگئے تھے جس کی بنا پر یہ بایں معنی دارالاسلام بن گیا تھا کہ کافروں کے لئے وہاں کوئی پشت پناہ گروہ باقی نہیں رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ حضرت عمار ؓ اور ان کے رفقاء اس وقت جا کر شامل ہوئے تھے جب نہاوند دارالاسلام بن چکا تھا تاہم عمار ؓ اور آپ کے رفقاء کا خیال یہ تھا کہ مال غنیمت میں شرکت ہونی چاہیے اور حضرت عمر ؓ کا خیال تھا کہ شرکت نہیں ہونی چاہیے اس لئے کہ یہ حضرات نہاوند فتح ہوجانے کے بعد شریک ہوئے تھے اور مال غنیمت بایں معنی دارالاسلام میں محفوظ کیا جا چکا تھا کہ اس وقت تک نہاوند کی سرزمین دارالاسلام بن چکی تھی۔ گھڑ سواروں کے حصے قول باری ہے (واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری سوار اور پیادہ کے حصوں میں مساوات کا مقتضی ہے۔ اس میں تمام غانمین کو خطاب ہے اور یہ اسم ان سب کو شامل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک ۔ اگر عورتیں دو سے زائد ہوں تو انہیں ترکہ کادوتہائی ملے گا) ظاہر آیت سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر میت کی بیٹیاں دو سے زائد ہوں تو دوتہائی ترک کی مساوی طور پر مستحق ہوں گی یعنی دوتہائی ترکہ کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرلیں گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرا یہ غلام ان لوگوں کے لئے ہے تو اسے اس مفہوم پر محمول کیا جائے گا کہ غلام مساوی طو ر پر ان لوگوں کا ہوگا۔ الایہ کہ ان لوگوں میں سے کسی کے حصے کی زیادتی بیان کردی گئی ہو اسی طرح قول باری غنمتم کا مقتضی یہ ہے کہ سب غانمین مال غنیمت کے حصوں میں مساوی اور یکساں ہوں گے اس لئے کہ قول باری غنمتم اس مفہوم سے عبارت ہے کہ مال غنیمت پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے تاہم گھڑ سوار کے حصے کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ پیادوں اور سواروں کے حصص میں اختلاف رائے امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ سوار کو دو حصے اور پیادہ کوا یک حصہ ملے گا امام ابویوسف امام محمد ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، سفیان ثوری، لیث بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ سوار کو تین حصے ملیں گے اور پیادہ کو ایک حصے ملے گا حضرت عمر ؓ کے گورنر المنذر بن ابی حمصہ سے امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح روایت منقول ہے کہ انہوں نے سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ دیا تھا اور حضرت عمر ؓ نے اس پر صاد کیا تھا حسن بصری سے بھی یہی قول منقول ہے شریک نے ابواسحاق سے راویت کی ہے کہ قثم بن العباس، سعید بن عثمان کے پاس خراساں پہنچے جبکہ انہیں مال غنیمت ہاتھ آچکا تھا۔ سعید بن عثمان نے ان سے کہا کہ ” میں تمہارا انعام یہ رکھتا ہوں کہ ما ل غنیمت میں سے ہزار حصے تمہیں دیتا ہوں “۔ قثم بن العباس نے یہ سن کر ان سے کہا کہ ایک حصہ میرا مقرر کرو اور ایک حصہ میرے گھوڑے کا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سابقہ سطور میں بیان کردیا ہے کہ ظاہر آیت سوار اور پیادہ کے درمیان حصوں میں مساوات کی مقتضی ہے لیکن جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ سوار کو ایک حصہ زائد ملے گا تو ہم نے اسے ایک حصہ زائد دیا اور اس اتفاق امت کی بنا پر ظاہر آیت کی تخصیص کردی اور آیت کے الفاظ کا حکم باقی ماندہ صورتوں کے لئے علی حالہ ثابت رہا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی۔ انہیں یعقوب بن غیلان العمانی نے انہیں محمد بن الصالح الجرجرائی نے انہیں عبداللہ بن رجا سفیان ثوری سے انہوں نے عبیداللہ بن عمر سے انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے سوار کے لئے دو حصے اور پیادہ کے لئے ایک حصہ مقرر فرمایا تھا۔ عبدالباقی نے کہا ہے کہ اس روایت کو ثوری سے محمد بن الصباح کے سوا کسی اور نے روایت نہیں کی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انہیں بشر بن موسیٰ نے انہیں الحمیدی نے انہیں ابواسامہ نے عبیداللہ سے انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا للفارس ثلثۃ اسھم، سھم لہ و سلیمان لفرسہ۔ سوار کے لئے تین حصے ہیں ایک حصہ اس کے لئے دو حصے اس کے گھوڑے کے لئے) اس بارے میں عبیداللہ بن عمر کی روایتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ممکن ہے یہ دونوں روایتیں اس طرح درست ہوں کہ آپ نے پہلے تو سوار کو دو حصے دیے ہوں اور یہی اس کا حق ہو۔ پھر کسی اور مال غنیمت میں تین حصے دیئے ہوں۔ ایک زائد اسے بطور نفل عطا کیا ہو۔ یہ بات تو واضح ہے کہ حضور ﷺ کسی کو اس کا حق دینے میں رکاوٹ نہیں ڈالتے تھے اور ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک شخص کو بطور نفل اس کے حق سے زائد دے دیتے تھے جس طرح حضرت ابن عمر ؓ نے اس روایت میں ذکر کیا ہے جسے ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ بقول حضرت ابن عمر ؓ ہمارے حصے میں بارہ بارہ اونٹ نظر آئے اور پھر حضور ﷺ نے ہمیں ایک ایک اونٹ بطور نفل عطا کیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں حسن بن الکیت الموصلی نے انہیں صبح بن دینار نے، انہیں غصیف بن سالم نے عبیداللہ بن عمر سے انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے معرکہ بدر کے موقع پر سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا کیا تھا۔ یہ روایت اگر ثابت بھی ہوجائے تو بھی امام ابوحنیفہ کے لئے بطور حجت کام نہیں دے سکتی اس لئے کہ غزوہ بدر میں مال غنیمت کی تقسیم اس بنیاد پر نہیں ہوئی تھی کہ اس پر مجاہدین کا حق تھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انفال حضور ﷺ کے حوالے کرکے آپ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ جسے جتنا چاہیں دے دیں۔ اگر آپ اس موقع پر انفال میں سے کسی کو کچھ نہ دیتے پھر بھی آپ کا یہ اقدام درست ہوتا۔ اس وقت تک مال غنیمت پر جنگ میں شریک افراد کا استحقاق ثابت نہیں ہوا تھا۔ مال پر استحقاق کا وجوب اس کے بعد ہوا جب یہ آیت نازل ہوئی واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس کے ذریعے انفال کا وہ حکم منسوخ ہوگیا جس میں پورے مال غنیمت کو حضور ﷺ کے سپرد کردیا گیا تھا۔ مجمع بن جاریہ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر غنائم کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ سوار کو دو حصے عطا کئے تھے اور پیادہ کو ایک حصہ دیا تھا۔ ابن الفضیل نے حجاج سے انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر غنائم کی تقسیم اس طرح کی کہ سوار کو تین حصے دیے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا کیا۔ یہ روایت مجمع بن جاریہ کی روایت کے خلاف ہے ان دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ آپ نے بعض سواروں کو دو حصے عطا کئے جو کہ ان کا حق تھا اور بعض کو تین حصے دیئے زائد حصہ بطور نفل عطا کیا۔ جس طرح حضرت سلمہ بن الاکوع سے مروی ہے کہ آپ نے انہیں غزوہ ذی قرد میں سوار اور پیادہ دونوں کے حصوں کے طور پر دو حصے عطا کئے تھے۔ حضرت سلمہ ؓ اس روز پیادہ تھے یا جس طرح مروی ہے کہ آپ نے اس دن حضرت زبیر ؓ کو چار حصے عطا کئے تھے۔ سفیان بن عینیہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے انہوں نے یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن الزبیر ؓ سے کہ حضرت زبیر کے لئے مال غنیمت میں سے چار حصے رکھے جاتے تھے یہ زائد حصے دراصل بطور نفل ہوتے تھے اور اس کے ذریعے سواروں کو دشمنوں پر گھوڑے دوڑانے کے لئے برانگیختہ کیا جاتا تھا جس طرح آپ اسی مقصد کے تحت قاتل کو مقتول کا سلب دیے دیتے تھے اور اعلان فرما دیتے من اصاب شیئاً فھولہ۔ جو چیز کسی شخص کے ہاتھ آجائے گی وہ اس کی ہوگی) یہ اقدام دراصل جنگ پر برانگیختہ کرنے کی خاطر اٹھایا جاتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب سوار کے حصے کے متعلق مروی روایات میں اختلاف ہے تو اس صورت میں وہ روایت اولی ہوگی جس میں زائد حصے کی بات منقول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس وقت ہوتی جب یہ چیز ثابت ہوجاتی کہ یہ زائد حصہ استحقاق کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ لیکن جب اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا ہے کہ شائد یہ زائد حصہ نفل کے طور پر دیا گیا تھا۔ تو اب زائد حصے کا اثبات استحقاق کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا اس میں ایک اور پہلو بھی ہے جس روایت سے ہم استدلال کرتے ہیں اس میں پیادہ کے حصے کے اندر اضافہ ہے اس لئے کہ جب سوار کا حصہ کم ہوجائے گا تو اس کے نتیجے میں پیادہ کو ملنے والا حصہ بڑھ جائے گا ہماری اس بات پر نظر اور قیاس کی جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ وہ یہ کہ جنگ میں گھوڑے کی حیثیت آلہ حرب کی طرح ہوتی ہے جس کی بنا پر قیاس کا تقاضا تھا کہ اسے کوئی حصہ نہ ملے جس طرح دیگر آلات جنگ کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوتا لیکن ہم نے ایک حصے کے سلسلے میں قیاس کو ترک کردیا اور باقی کو قیاس پر محمول کیا اسی بنا پر اگر میدان جنگ میں صرف گھوڑا موجود ہو اور اس کا سوار غائب رہے تو اس گھوڑے کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر ایک شخص گھوڑے کے بغیر جنگ میں موجود ہو تو وہ حصے کا مستحق ہوگا جب ایک شخص یعنی پیادہ کو ایک حصے سے زائد نہیں دیا جاتا تو گھوڑے کو بطریق اولی نہیں دیا۔ نیز حصے کے استحقاق میں پیادہ کا معاملہ گھوڑے کی بہ نسبت زیادہ موکد ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جنگ میں خواہ جتنے بھی افراد شریک ہوں سب کے سب اپنے اپنے حصوں کے مستحق قرار پائیں گے لیکن اس کے برعکس اگر ایک شخص کئی گھوڑے لے کر میدان جنگ میں جائے گا تو صرف ایک ہی گھوڑے کا حصہ ملے گا جب ایک آدمی کا معاملہ گھوڑے سے بڑھ کر موکد ہوتا ہے لیکن اسے ایک حصے سے زائد نہیں دیا جاتا تو گھوڑے کو بطریق اولی ایک حصے سے زائد نہیں ملنا چاہیے۔ مختلف الاقسام جنگی گھوڑوں کے حصص میں اختلاف رائے برذون یعنی ٹٹویا ترکی گھوڑے کے حصے کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے ہمارے صحاب امام مالک، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ فرس اور برذون دونوں یکساں ہیں اوزاعی کا قول ہے کہ مسلمانوں کے ائمہ یعنی خلفاء برذون کو کوئی حصہ نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ خلفیہ ولید بن یزید کے قتل کے بعد جب فتنہ و فساد پھیل گیا تو پھر برذون کو بھی حصہ ملنے لگا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ٹٹو اور دوغلی نسل کے گھوڑے دونوں کو صرف ایک حصہ ملے گا۔ یہ دونوں خالص عربی النسل گھوڑوں کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدوا اللہ وعدوکم۔ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کردو) نیز فرمایا فما اوجغتم علیہ من خیل ولارکاب۔ سو تم نے اس کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ) نیز فرمایا والخیل والبغال والحمیر۔ اور گھوڑے، خچر اور گدھے) ان آیات سے خیل کے اسم سے ترکی نسل کے گھوڑوں یعنی براذین کا اسی طرح مفہوم حاصل ہوتا ہے جس طرح عربی النسل کے گھوڑوں کا جب خیل کا اسم دونوں کو شامل ہے تو پھر یہ واجب ہوگیا کہ حصوں کے اندر بھی ان دونوں کو یکساں سمجھا جائے اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ برذون کا سوار بھی فارس کہلاتا ہے جس طرح عربی نسل کے گھوڑے کا سوار فارس کہلاتا ہے جب ان دونوں پر فارس کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے للناس سھمان والراجل سھم) تو اس حکم کے عموم میں برذون یعنی ترکی نسل کے گھوڑے کا سوار بھی اسی طرح داخل ہوگا جس طرح عربی نسل کے گھوڑے کا سوار داخل ہے نیز اگر برذون گھوڑا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس کے حصے اور عربی نسل کے گھوڑے کے حصے میں کوئی فرق نہ ہو اگر برذون گھوڑا نہیں ہے تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ اسے کسی حصے کا مستحق قرار نہ دیا جائے۔ جب لیث بن سعد اور ان کے ہمنوا اس بات پر ہمارے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ برذون کے لئے بھی حصہ نکالا جائے گا تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسے گھوڑوں میں شمار کیا جاتا ہے نیز یہ کہ اس کے اور عربی گھوڑے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کا گوشت کھانے کے جواز اور عدم جواز کے مسئلے میں اس کی حیثیت عربی گھوڑے جیسی ہے گھوڑے کے گوشت کے جواز اور عدم جواز کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے) یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں کی جنس ایک ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی طرح کا ہے جو نر اور مادہ فربہ اور لاغر جانور کے درمیان یا عمدہ اور گھٹیا گھوڑے کے مابین ہوتا ہے۔ اس جہت سے ان دونوں کے درمیان فرق ان کے حصوں کے درمیان فرق کا موجب نہیں بن سکتا۔ نیز اگر عربی گھوڑا ترکی گھوڑے یعنی ٹٹو سے تیز رفتاری میں فائق ہوتا ہے تو ترکی گھوڑا اسلحہ وغیرہ کا بوجھ اٹھانے میں عربی گھوڑے سے برتر ہوتا ہے نیز جب حصوں کے لحاظ سے عربی اور عجمی سپاہیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا توعربی اور عجمی گھوڑوں کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں میں نے سعدی بن المسیب سے براذین یعنی عجمی گھوڑوں کی زکواۃ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا ” آیا گھوڑوں پر بھی کوئی زکوا ۃ ہوتی ہے ؟ حسن سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” میرا ذہن خیل یعنی گھوڑوں کی طرح ہوتے ہیں “ مکحول کا قول ہے کہ سب سے پہلے جس سپہ سالار نے براذین کو حصہ دیا وہ حضرت خالد بن الولید تھے انہوں نے دمشق کی جنگ میں براذین کو گھوڑوں کے حصے کا نصف دیا جب انہوں نے ان کی تیز رفتاری اور بوجھ ڈھونے کی قوت دیکھی تو یہ طریق کار اختیار کیا اور براذین کو بھی حصے دینے لگے لیکن یہ روایت مقطوع ہے اور اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت خالد ؓ نے یہ قدم براذین کی طاقت و قوت کو دیکھنے کے بعد اپنی رائے اور اجتہاد سے اٹھایا تھا اس لئے یہ توقیف نہیں کہلا سکتی یعنی اسے کوئی شرعی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابراہیم بن محمد بن المنتشر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ سواروں کا دستہ شام کے علاقے پر حملہ آور ہوا اس دستے کے سالار ہمدان کے ایک شخص تھے جس کا نام المنذر بن ابی حمصہ الوادعی تھا پہلے روز تو عربی گھوڑوں پر سوار دستے نے کامیابی حاصل کی اور مال غنیمت حاصل ہوا دوسرے روز ٹٹوں یعنی غیر عربی گھوڑوں پر سوار دستے نے مال غنیمت حاصل کیا سالارنے یہ فیصلہ دیا کہ ٹٹوئوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا گویا ان کے ذریعے کچھ حاصل نہیں ہوا اس کے متعلق حضرت عمر ؓ کو لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا اس وادعی یعنی سالار کی ماں اسے گم کرے اس نے تو مجھے بھی بات یاد دلا دی ہے اس نے جو کہا ہے اس کے مطابق عمل کرو “۔ اس روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو براذین کو حصہ دینے کے قائل نہیں ہیں لیکن اس روایت میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ یہ حضرت عمر ؓ کی رائے تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس کی اجازت صرف اس لئے دی تھی کہ اس میں اجتہاد کی گنجائش تھی نیز امیر لشکر یہ حکم دے بیٹھا تھا اس لئے آپ نے اس کے حکم کی توفیق فرما دی۔ ایک شخص کئی گھوڑے میدان جہاد میں لے جائے انکے حصے کیا ہوں گے ؟ ایک شخص اگر کئی گھوڑے لے کر میدان جہاد میں جاتا ہے تو اسے کس قدر حصہ دیا جائے گا اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ امام محمد امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اسے صرف ایک گھوڑے کا حصہ ملے گا امام ابویوسف سفیان ثوری اوزاعی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اسے دو گھوڑوں کے حصے ملیں گے پہلے قول کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ تاریخ میں اس امر سے سارے آگاہ ہیں کہ اسلام کے غلبے کے بعد حضور ﷺ کی سرکردگی میں اسلامی لشکر نے خیبر مکہ اور حنین کے معرکوں میں حصہ لیا۔ اسلامی لشکر ایسے گروہ ہوتے تھے جن کے افراد کے پاس ایک سے زائد گھوڑے ہوتے لیکن یہ بات کسی روایت میں مذکورہ نہیں کہ حضور ﷺ نے ایسے کسی سوار کو ایک گھوڑے کے حصے سے زائد دیا ہو۔ نیز گھوڑا ایک آلہ جنگ ہے اس لحاظ سے قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسے بھی کوئی حصہ نہ دیا جائے جس طرح دیگر آلات حرب کو حصے نہیں دیئے جاتے لیکن جب سنت اور اتفاق امت کی جہت سے گھوڑے کے لئے بھی ایک حصے کا ثبوت مل گیا تو ہم نے اسے قیاس کے حکم سے مستثنیٰ کردیا اب اس پر اضافہ صرف کسی توقیف یعنی شرعی دلیل کے ذریعے ہی ثابت ہوسکتا ہے اس لئے کہ قیاس سے تو اس حکم کی ممانعت ہوتی ہے۔ خمس کی تقسیم کا بیان قول باری ہے فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین و ابن سبیل۔ اس کا پانچواں حصہ اللہ ، رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے) خمس کی تقسیم کے سلسلے میں سلف کے مابین بنیادی طور پر اختلاف رائے رہا ہے۔ معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ مال غنیمت کے پانچ حصے ہوتے تھے چار حصے ان لوگوں کو مل اجتے تھے جو جنگ میں ہوتے اور پانچویں حصے کے چار حصے کر کے چوتھائی حصہ اللہ اور رسول ﷺ اور حضور ﷺ کے قرابت داروں کے لئے مخصوص کردیا جاتا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام کا جو حصہ ہوتا وہ حضور ﷺ کے قرابت داروں کو مل جاتا۔ آپ خمس میں سے کوئی چیز نہ لیتے۔ دوسری چوتھائی یتیموں کے لئے مخصوص ہوتی۔ تیسری چوتھائی مسکینوں اور چوتھی مسافروں کے لئے مخصوص ہوتی۔ ابن السبیل سے مراد وہ مسافر ہوتا جو مہمان بن کر مسلمانوں کے پاس آکر ٹھہر جاتا قتادہ نے عکرمہ سے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔ قول باری فان للہ خمسہ) کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے کہ خمس کے پانچ حصے کئے جائیں گے اللہ اور اس کے رسول کا ایک حصہ حضور ﷺ کے قرابت داروں کا ایک حصہ اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا ایک ایک حصہ ہوگا۔ خطا اور شعبی کا قول ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے خمس میں سے ایک ہی حصہ ہوگا۔ شعبی کا قول ہے آیت میں اللہ کا ذکر صرف آغاز کلام کے طور پر ہوا ہے ۔ سفیان نے قیس بن مسلم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حسن بن محمد بن الحنفیہ سے قول باری فان للہ خمسہ) کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے جواب میں فرمایا ” دنیا اور آخرت میں اللہ کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے آیت میں اس کا ذکر صرف آغاز کلام کے طور پر ہوا ہے یحییٰ بن الجزار نے درج بالا قول باری کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ کے لئے تو ہر چیز ہے دراصل حضور ﷺ کے لئے خمس کا پانچواں حصہ ہے۔ ابوجعفر الرازی نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے پاس مال غنیمت یعنی خمس لایا جاتا آپ اپنا دست مبارک اس پر مارتے، اس کی گرفت میں جو چیز آجاتی وہ کعبۃ اللہ کے لئے مخصوص ہوجاتی یہ بیت کا حصہ کہلاتی۔ پھر باقی ماندہ خمس کے پانچ حصے کئے جاتے حضور ﷺ کو ایک حصہ ملتا آپ کے قرابت داروں کو ایک حصہ دیا جاتا اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے ایک ایک حصہ مخصوص کردیا جاتا جو حصہ کعبہ کے لئے مخصوص ہو وہ اللہ کا حصہ کہلاتا “۔ ابویوسف نے اشعث بن سوار سے انہوں نے ابن الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ خمس کو اللہ کے راستے میں اور لوگوں کی ضرورتوں میں صرف کیا جاتا تھا جب مال غنیمت کی کثرت ہوگئی جس کے نتیجے میں خمس بھی اچھا خاصا نکلنے لگا تو اسے دوسرے مصارف میں خرچ کیا جانے لگا۔ امام ابویوسف نے الکلبی سے انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں خمس کے پانچ حصے کئے جاتے تھے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ایک حصہ ہوتا۔ آپ کے رشتہ داروں کے لئے ایک حصہ ہوتا اور یتیموں مسکینوں نیز مسافروں کیلئے ایک ایک حصہ ہوتا پھر حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ اپنے اپنے زمانہ خلافت میں خمس کے تین حصے کرتے ایک حصہ یتیموں کا ہوتا دوسرا مسکینوں کا اور تیسرا مسافروں کا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ خمس کی تقسیم میں سلف کے مابین اختلاف رائے کی درج بالا صورتیں تھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بردایت علی ابن ابی طلحہ یہ قول ہے کہ اس کے چار حصے کئے جاتے تھے اللہ اللہ کے رسول اور آپ ﷺ کے رشتہ داروں کے لئے ایک حصہ ہوتا اور حضور ﷺ خمس میں سے کچھ نہ لیتے تھے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ فان للہ خمسہ) میں اللہ کے حصے کا ذکر محض آغاز کلام کے طور پر کیا گیا ہے اور خمس کو پانچ حصوں پر تقیسم کیا جائے عطا شعبی اور قتادہ کا یہی قول ہے جبکہ ابوالعالیہ کا قول ہے کہ خمس کے چھ حصے ہوتے تھے اللہ اک ایک حصہ اللہ کے رسول کا ایک حصہ رشتہ داروں کا ایک حصہ اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے ایک ایک حصہ ہوتا اللہ کا حصہ کعبۃ اللہ کے لئے مخصوص کردیا جاتا۔ الکلبی کی روایت کے بموجب حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ چاروں خلفائے راشدین نے خمس کے تین حصے کئے تھے جبکہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ خمس کو اللہ کے راستے میں خرچ کیا جاتا تھا لوگوں کی پیش آمدہ اجتماعی قسم کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں اور بعد میں جب خمس کی آمدنی میں بہت اضایہ ہوگیا تو دوسری مدوں میں بھی اسے صرف کیا جانے لگا محمد بن مسلمہ، جو اہل مدینہ کے متاخرین میں سے تھے فرماتے ہیں کہ خمس کے معاملے کو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا جس طرح تقسیم غنائم کی آیت کے نزول سے قبل انفال کا معاملہ بھی آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ آیت کے نزول کے بعد مال غنیمت کے چار حصوں کے بارے میں انفال کا حکم منسوخ ہوگیا لیکن باقی ماندہ پانچویں حصے کا معاملہ حسب سابق حضور ﷺ کی صوابدید پر رہنے دیا گیا جس طرح یہ قول باری ہے ماافاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم۔ جو کچھ اللہ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فی دلوائے سو وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا اور رسول کے قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا تاکہ وہ مال فے تمہارے تونکروں کے قبضے میں نہ آجائے۔ پھر فرمایا وما اتاکم الرسول فخذوہ۔ اور جو کچھ تمہیں اللہ کے رسول دیں اسے لے لو) اس آیت کے آخر میں بیان فرما دیا کہ اس معاملہ کو حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے اسی طرح خمس کے متعلق ارشاد ہوا کہ للہ وللرسول یعنی اس کی تقسیم کو حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ آپ جن مصارف میں اسے مناسب سمجھیں خرچ کریں اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے عبدالواحد بن زیاد نے حجاج بن ارطاۃ سے نقل کیا ہے انہیں ابوالزبیر نے حضرت جابر ؓ سے کہ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ حضور ﷺ خمس کو کن مصارف میں خرچ کرتے تھے تو فرمایا حضور ﷺ اس کے ذریعے اللہ کے راستے میں ایک شخص کا سازو سامان تیار کرتے پھر ایک شخص کا پھرا یک شخص کا حضرت جابرری اللہ عنہ کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ خمس میں سے مستحقین کو دیا کرتے تھے اور خمس کے پانچ حصے نہیں کیا کرتے تھے۔ خمس میں سے خانہ کعبہ کا حصہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اصل میں خمس کے چھ حصے کئے جاتے تھے اور اللہ کے حصے کو خانہ کعبہ پر خرچ کیا جاتا تھا ان کا یہ کہنا ایک بےمعنی سی بات ہے اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو تواتر کے ساتھ اس کی روایت ہوتی اور حضور ﷺ کے بعد خلفائے راشدین اس پر سب سے بڑھ چڑھ کر عمل کرتے جب حضرات خلفائے راشدین سے یہ بات ثابت نہیں ہے تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ سرے سے اس بات کا ثبوت ہی نہیں ہے نیز کعبہ کا حصہ آیت میں مذکورہ دوسرے تمام حصوں سے بڑھ کر اللہ کی طرف نسبت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ مذکورہ تمام حصے بھی تقرب الٰہی کے مصارف میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری فان للہ خمسہ) کعبہ کے حصے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جب یہ بات غلط ہوگئی تو اب مذکورہ بالا آیت سے دو باتوں میں سے ایک مراد ہے یا تو یہ آغاز کلام کے طور پر مذکور ہوا ہے جیسا کہ ہم نے سلف کی ایک جماعت سے یہ بات نقل کی ہے اس طرح آغاز کر کے دراصل ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ کا نام لے کر برکت حاصل کریں اور تمام کاموں کا آغاز اس کے نام سے کریں یا اس سے مراد یہ ہے کہ خمس کی تقرب الٰہی کے مصارف میں صرف کیا جائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان مصارف کی خود وضاحت فرما دی ارشاد ہوا للرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل) اس طرح ابتداء میں خمس کے حکم کو مجملا بیان فرمایا پھر اس اجمال کی آگے تفصیل یبان فرما دی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اگر آپ کی بیان کردہ وضاحت اللہ کی مراد ہوتی تو آپکے الفاظ اس طرح ہونے چاہئیں تھے فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی “۔ یعنی پھر اللہ کے نام اور اللہ کے رسول ﷺ کے نام کے درمیان حرف وائونہ آتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا ہونا ضروری نہیں تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے دو اسموں کے مابین وائو داخل کر کے اور اس سے کوئی معنی مراد نہ لینا لغت کے لحاظ سے جائز ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے ولقد اتیناموسی وھرون الفرقان وضیاً ۔ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور روشن کتاب عطا کی) نیز ضیاء دونوں کا مصداق ایک ہے۔ اسی طرح ارشاد ہے فلما اسلما وتلہ للجبین۔ جب دونوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے سرتسلیم خم کردیا اور اس ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا اس کے معنی ہیں جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) کو پچھاڑ دیا اس لئے کہ قول باری فلما اسلما جواب کا مقتضی ہے اور جواب تلہ للجبین ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان حرف وائو ملغیٰ ہے یعنی اس کے کوئی معنی نہیں ہیں جس طرح شاعر کا یہ شعر ہے۔ بلی شئی یوافق بعض شئی واحیانا وباطلہ کثیراً ۔ کیوں نہیں بعض دفعہ ایک چیز دوسری چیز کے موافق ہوتی ہے اگرچہ غلط باتوں کی بہت کثرت ہے۔ یہاں معنی کے اعتبار سے عبارت اس طرح ہے شئی یوافق بعض شیء حیانا اور حرف وائو کے کوئی معنی نہیں ہیں اسی طرح ایک اور شاعر کا شع رہے۔ فان رشیداً وابن مروان لم یکن…لیفعل حتی یصدرالامرمصدرا…بے شک رشید یعنی ابن مروان کوئی کام کرنے والا نہیں جب تک اس کام کا حکم صادر نہ ہوجائے یہاں رشید اور ابن مروان دونوں کا مصداق ایک شخص ہے یعنی مروان کا بیٹا رشید۔ ایک اور شاعر کا قول ہے : الی الملک القرم وابن الھمام… ولیث الکتیبۃ فی المزدحم…میں ایسے بادشاہ کی طرف جا رہا ہوں جو عظیم سردار اور ایک فیاض بہادر سردار کا بیٹا ہے۔ وہ میدان جنگ میں لڑنے والی فوج کا شیر ہے۔ یہاں الملک القوم اور ابن الھمام کا مصداق ایک شخص ہے اور حرف وائو ملغی ہے ان تمام مثالوں میں معنی کے اعتبار سے حرف وائو کا کلام میں آنا اور نہ آنا دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ اس سے ہماری بات ثابت ہوگئی کہ قول باری فان للہ خمسہ) میں دو باتوں میں سے ایک مراد ہے یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں باتیں مراد لی جائیں اس لئے کہ آیت میں ان دونوں کا احتمال موجود ہے۔ اس بنا پر آیت اس مفہوم پر مشتمل ہوگی کہ ہمیں تمام کاموں کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خمس کو اللہ کے تقرب اور رضا جوئی کی راہوں میں خرچ کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ کو خمس میں سے ایک حصہ ملتا، وہ چیز بھی آپ کی ہوجاتی جسے آپ پسند کرلیتے اور جنگ میں شریک ایک سپاہی کی حیثیت سے مال غنیمت میں سے بھی ایک حصہ مل جاتا۔ ابوحمزہ نے حضرت ابن عباس ؓ اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے عبدالقیس کے وفد سے فرمایا تھا امرکم باریع شھادۃ ان لا الہ الا اللہ، وتقیموا الصلوۃ وتعطواسھم اللہ من الغنائم والصفی، میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اس بات کی گواہی کا کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں نماز قائم کرنے کا غنائم میں سے اللہ کا حصہ نکالنے کا اور صفی ادا کرنے کا) مال غنیمت میں وہ حصہ یا چیز جسے سردار اپنے لئے مخصوص کرلے صفیٰ کے نام سے موسوم ہے۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top