Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 42
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ
: جب
اَنْتُمْ
: تم
بِالْعُدْوَةِ
: کنارہ پر
الدُّنْيَا
: ادھر والا
وَهُمْ
: اور وہ
بِالْعُدْوَةِ
: کنارہ پر
الْقُصْوٰي
: پرلا
وَالرَّكْبُ
: اور قافلہ
اَسْفَلَ
: نیچے
مِنْكُمْ
: تم سے
وَلَوْ
: اور اگر
تَوَاعَدْتُّمْ
: تم باہم وعدہ کرتے
لَاخْتَلَفْتُمْ
: البتہ تم اختلاف کرتے
فِي الْمِيْعٰدِ
: وعدہ میں
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
لِّيَقْضِيَ
: تاکہ پورا کردے
اللّٰهُ
: اللہ
اَمْرًا
: جو کام
كَانَ
: تھا
مَفْعُوْلًا
: ہو کر رہنے والا
لِّيَهْلِكَ
: تاکہ ہلاک ہو
مَنْ
: جو
هَلَكَ
: ہلاک ہو
عَنْ
: سے
بَيِّنَةٍ
: دلیل
وَّيَحْيٰي
: اور زندہ رہے
مَنْ
: جس
حَيَّ
: زندہ رہنا ہے
عَنْ
: سے
بَيِّنَةٍ
: دلیل
وَاِنَّ
: اور بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَسَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے (اتر گیا) تھا اور اگر تم (جنگ کے لئے) آپس میں قرارداد کرلیتے تو وقت معین (پر جمع ہونے) میں تقدیم و تاخیر ہوجاتی۔ لیکن خدا کو منظور تھا کہ جو کام ہو کر رہنے والا تھا اسے ہی کر ڈالے۔ تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا جانتا ہے۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) آنحضور ﷺ کی وفات کے بعد خمس کا مصرف حضور ﷺ کی وفات کے بعد خمس میں آپ کے حصے کے مصرف کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ سفیان نے قیس بن مسلم سے انہوں نے حسن بن محمد بن الحنفیہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے حصے اور آپ کے قرابت داروں کے حصے کے متعلق لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ ایک گروہ کا خیال یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کا حصہ آپ کی خلیفہ کو ملنا چاہیے۔ ایک اور گروہ کا خیال تھا کہ آپ کے قرابت داروں کا حصہ خلیفہ کے قرابت داروں کو ملنا چاہیے پھر سب کا اس پر اجماع ہوگیا کہ یہ دونوں حصے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے سازوسامان اور ہتھیاروں کی تیاری نیز اس مقصد کے لئے گھوڑوں وغیرہ کی پرورش پر صرف کئے جائیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا حصہ صرف اس وقت تک کے لئے تھا جب تک آپ زندہ تھے، آپ کی وفات کے بعد یہ حصہ بھی اسی طرح ساقط ہوگیا جس طرح صفی کا سقوط ہوگیا یعنی مال غنیمت میں آپ کے لئے مخصوص حصہ یا مخصوص چیز کا حکم آپ کی وفات کے ساتھ ہی ساقط ہوگیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے حصے کو نیز صفی کو مال غنیمت میں شامل کرلیا گیا اور اسے اجتماعی ضرورت کے مصرف میں خرچ کرنے کے لئے نہیں رکھا گیا۔ آپ کے قرابت داروں کے حصے کے مصرف کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ جامع صغیر کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک خمس کو تین حصوں پر تقسیم کیا جائے اور ان حصوں کو فقراء مساکین اور مسافروں پر خرچ کیا جائے گا۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ دونوں کے لئے ایک خمس ہے یعنی مال غنیمت کے خمس کا پانچواں حصہ۔ قرابت داروں کے لئے پانچواں حصہ اور آیت میں مذکورہ تین اصناف یعنی تیامی، مساکین اور مسافروں میں سے ہر ایک صنف کے لئے پانچواں حصہ ہے۔ اس طرح مال غنیمت کے خمس کے پانچ حصے کئے جائیں گے سفیان ثوری کا قول ہے کہ حضور ﷺ کے لئے مال غنیمت کے خمس میں سے پانچواں حصہ ہے اور باقیماندہ چار حصے ان اصناف کے لئے ہوں گے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر فرمایا ہے۔ امام مالک ؓ کا قول ہے کہ امام المسلمین اپنی صوابدید اور اجتہاد کے مطابق مال غنیمت کے خمس میں سے حضور ﷺ کے قرابت داروں کو دے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مال غنیمت کا خمس ان اصناف کے لئے ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت میں فرمایا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حضو ر ﷺ کے قرابت داروں کا حصہ ان کے اغنیاء اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولذی القربی) ایک مجمل لفظ ہے جس بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے اس میں عموم نہیذں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوی القربیٰ حضور ﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ بات واضح ہے کہ اس سے تمام لوگوں کے قرابت دار مراد نہیں ہیں۔ اس لئے یہ فقط مجمل بن گیا اور اسے بیان کی ضرورت پیش آ گئی۔ سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے حضور ﷺ کے قرابت دار مراد ہیں۔ پھر ان سے کچھ حضرات کا قول ہے کہ آپ کے قرابت داروں میں سے خمس کے پانچویں حصے کے مستحقین صرف وہی لوگ تھے جو آپ کی نصرت کرتے تھے اور اس حصے کا استحقاق دو باتوں پر مبنی تھا، ایک قرابت داری اور دوسری نصرت، آپ کی وفات کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے آپ کے رشتہ دار جن کا آپ کی نصرت میں کوئی حصہ نہیں تھا وہ فقر کی بناء پر اس حصے کے مستحق ہوں گے جس طرح دوسرے تمام فقراء اس کے مستحق ہیں۔ ان حضرات نے اپنے اس مسلک کے لئے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے زہری نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے ذوی القربیٰ کچا حصہ بنو ہاشم اور بنو المطلب کے درمیان تقسیم کردیا تو میں اور عثمان آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ بنو ہاشم کو جو فضیلت حاصل ہے اس کا ہم انکار نہیں کرتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خاندان میں پیدا فرمایا، لیکن بنو المطلب کو آپ نے حصہ دیا اور ہمیں یعنی بنو عبد شمس کو محروم رکھا، آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ جب کہ آپ سے ان کی اور ہماری قرابت یکساں ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” بنو المطلب نے میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا نہ زمانہ جاہلیت میں اور نہ ہی زمانہ اسلام میں، میرے لئے بنو ہاشم اور بنو المطلب ایک ہی چیز ہیں۔ “ یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلیوں کی تشبیک کی یعنی انہیں ایک دوسرے میں داخل کردیا۔ یہ روایت دو وجوہ سے اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صرف قرابت کی بناء پر اس حصے کا استحقاق نہیں ہوتا تھا۔ ایک وجہ تو یہ کہ بنو المطلب اور بنو عبد شمس قرابت کے لحاظ سے حضور ﷺ سے یکساں درجے پر تھے۔ لیکن آپ نے بنو المطلب کو حصہ دیا اور بنو شمس کو کوئی حصہ نہ دیا۔ گر قرابت کی بنا پر استحقاق ہوتا تو آپ ان دونوں خاندانوں کچو مساوی طور پر حصہ دیتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں ذوی القربیٰ کے ذکر میں جو اجمال تھا حضور ﷺ کا یہ فعل اس اجمال کا بیان اور اس کی تفصیل بن گیا اور حضور ﷺ کا کوئی فعل جب بیان کے طور پر وارد وتا ہے تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب حضور ﷺ نے قرابت ک ساتھ نصرت کا بھی ذکر فرمایا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اللہ کے ہاں بھی یہی مراد ہے اس لء جن قرابت داروں کا حضور ﷺ کی نصرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ فقر کی بنا پر ذوی القربیٰ کے حصے کے مستحق ہوں گے۔ نیز چاروں خلفائے راشدین اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن علی سے دریافت کیا تھا کہ حضرت علی ؓ نے ذوی القربیٰ کے حصے کی تقسیم کس طرح کی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب آپ خلیفہ بنے تو اس معاملے میں آپ نے حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کا طریقہ اپنایا۔ آپ یہ بات ناپسند کرتے تھے کہ ان دونوں حضرات کی مخالفت کا آپ پر الزام عائد کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر اس بارے میں حضرت علی ؓ کی اپنی بھی یہ رائے نہ ہوتی تو آپ ہرگز یہ فیصلہ نہ کرتے اس لئے کہ آپ نے بہت سے مسائل میں ان دونوں حضرات سے مختلف مسلک اختیار کیا تھا۔ مثلاً میراث میں دادا کے حصے کے متعلق اسی طرح وظائف میں یکسانیت کے بارے میں آپ کی رائے ان دونوں حضرات سے مختلف تھی۔ اسی طرح کئی اور مسائل ہیں جن میں آپ نے ان حضرات سے اختلاف کیا تھا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت علی ؓ کو اس بارے میں حضر ابوبکر ؓ اور عمر ؓ سے اتفاق تھا کہ ذوی القربیٰ کے حصے کا استحقاق حضور ﷺ کے صرف ان رشتہ داروں کو تھا جو فقراء تھے۔ جب چاروں خلفاء راشدین اس امر پر متفق ہوئے تو ان کے اجماع کی بنا پر اس مسئلے کی حجت اور قطعیت ثابت ہوگئی اس لئے حضور ﷺ کا ارشاد ہے (علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی۔ تم پر میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کے طریقے کی اتباع لازم ہے۔ ) یزید بن ہرمز نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ جب نجدہ حروری (خوراج کا ایک بڑا سردار) نے حضرت ابن عباس ؓ سے ذوی القربیٰ کے حصے کے متعلق دریافت کروایا تو آپ نے اسے جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ درج تھا۔ ” ہمارا خیال تھا کہ یہ حصہ ہمارے لئے ہے، حضرت عمر ؓ نے ہمارے خاندان والوں کو بلا کر یہ پیشکش کی تھی کہ اس حصے کی مد میں آنے والے مال سے ہم اپنی بین بیاہی اور بیوہ خواتین کی شادیاں کرا دیں اور قرض داروں کے قرض ادا کردیں لیکن ہم اس بات پر اڑ گئے تھے کہ یہ حصہ ہمیں نہ دیا جائے۔ ہماری قوم یعنی خاندان والوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ” بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں۔ لیکچن ہمارے بنو عم نے یہ بات تسلیم نہیں کی تھی۔ “ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بتایا کہ ان کی قوم نے جو سب کے سب حضور ﷺ کے صحابہ کرام تھے۔ یہ سمجھا تھا کہ یہ حصہ ان کے فقراء کے لئے ہے، اغنیاء کے لئے نہیں ہے۔ رہ گیا حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول کہ ” ہم سمجھتے ہیں تھے کہ یہ حصہ ہمارے لئے ہے۔ “ دراصل ان کی اپنی رائے تھی اور اسی بنا پر انہوں نے یہ بات کہی تھی، لیکن سنت اور خلفاء اربعہ کے متعفقہ طرزعمل کے مقابلہ میں اس رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے اس بیان کی روشنی میں جو انہوں نے حضرت عمر ؓ سے نقل کیا ہے، حضرت عمر (رح) کے قول کی صحت پر زہری کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عبداللہ بن الحارث بن نوفل سے روایت کی ہے اور انہوں نے المطلب بن ربیعہ بن الحارث سے بیان کیا ہے کہ مطلب ؓ اور فضل بن عباس ؓ دونوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہم شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں اور ہمارے پاس مہر میں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں صدقات کی وصولی پر مقرر کردیا جائے اور پھر ہم اس کی وصولی کر کے دوسرے عمال کی طرح آپ کو لا کردیں اور ان کی طرح اس میں سے ہمیں بھی حصہ مل جائے۔ اس پر حضور ﷺ نے انہیں فرمایا (ان الصدقۃ لا تنبغی لال محمد، انماھی اوساخ الناس) ۔ زکوٰۃ کا مال آل محمد کے گھروں میں نہیں جانا چاہیے تو یہ لوگوں کا میل کچیل ہے) پھر آپ نے محمیہ کو حکم دیا کہ ان دونوں کو مہر کی رقم کی مقدار خمس میں سے دے دیں۔ یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ذوی القربیٰ کے حصے کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ حضور ﷺ نے ان دونوں کو مہر کی مقدار دینے کا حکم دیا تھا، انہیں نکاح کرنے کے لئے اتنی ہی مقدار کی ضرورت تھی۔ آپ نے انہیں ان کی ضرورت سے زائد دینے کا حکم نہیں دیا۔ خمس کو حصول کے مطابق تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی تقسیم کا مسئلہ امام المسلمین کی رائے اور اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (مالی من ھذا الامال الا الخمس والخمس مردود فیکم۔ اسمال غنیمت سے میرے لئے صرف پانچواں حصہ ہے اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہارے اوپر صرف کردیا جاتا ہے) آپ نے اس میں اپنی قرابت داری کی کوئی تخصیص نہیں کی اور دوسروں کو اس سے خارج نہیں کیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ خمس کے معاملے میں حضور ﷺ کے قرابت دار دوسرے فقراء کی طرح ہیں اس میں ان کا صرف اتنا ہی حصہ ہوگا جو ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہوجائے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (یذھب کسری فلا کسری بعدہ ابدا و یذھب قیصر فلا قیصر بعدہ ابدا والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزھما فی سبیل اللہ۔ کسریٰ ، یعنی شہنشاہ ایران ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد کبھی کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہوگا۔ قیصر یعنی شاہ روم ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد کبھی کوئی قیصر پیدا نہیں ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لوگ ان دونوں کے خزانوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے) آپ نے یہ بتایا کہ ان کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ ہوں گے۔ آپ نے ان خزانوں کے ساتھ کسی قوم کی تخصیص نہیں کی۔ خمس کی تقسیم کا معاملہ حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے خمس میں ان لوگوں کو بھی دیا تھا جو مولفۃ القلوب کے ضمن میں آتے تھے حالانکہ آیت خمس میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ یہ چیز ہماری بیان کردہ بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ آیت خمس میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا انہیں صرف فقر کی بنا پر مستحق قرار دیا گیا ہے۔ یہ یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل یعنی مسافر لوگ ہیں اس لئے ذوی القربیٰ بھی ایسے ہی لوگ ہونے چاہئیں۔ اس لئے کہ انہیں بھی خمس سے حصہ ملتا ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب حضور ﷺ کے قرابت داروں پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام کردیا گیا تو اس کی جگہ ان کے لئے خمس میں سے حصہ مقرر کردیا گیا اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس حصے کے صرف وہی لوگ حقدار بنیں جو ان میں سے فقراء ہوں۔ جس طرح اصل یعنی زکوٰۃ و صدقات کے صرف وہی لوگ مستحق قرار پائے جو فقراء و مساکین ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ خمس کا یہ حصہ اس اصل کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بنو ہاشم کے موالی یعنی ان کے آزاد کردہ غلاموں اور ان کے ساتھ عقد موالات کرنے والوں کے لئے زکوٰۃ و صدقات کا مال حلال نہیں ہوتا لیکن یہ لوگ خمس کے حصے کے مستحقین میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہب ات غلط ہے۔ اس لئے کہ بنو ہاشم کے موالی کے لئے خمس کے اندر حصہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ فقراء ہوں جس طرح بنو ہاشم کے لئے حصہ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور ﷺ کے قرابت دار فقر اور حاجت کی بنا پر خمس کے حصے کے حق دار شمار ہوتے ہیں تو پھر آیت میں خصوصیت کے ساتھ ان کے ذکر کی کیا وجہ ہے جب کہ یہ مساکین کے گروہ میں شامل ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ان کے ذکر کی وہی حیثیت ہے جو یتامیٰ اور ابن السبیل کے ذکر کی ہے حالانکہ یتامیٰ اور ابن السبیل فقر کی بنا پر ہی خمس کے حصے کے مستحق ہوتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جب خمس کو یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل کے لئے مخصوص کردیا جس طرح صدقات کی اپنے اس قول کے ذریعے تخصیص کردی (انما الصدقات للفقراء والمساکین) تا آخر آیت۔ دوسری طرف حضور ﷺ نے فرما دیا (ان الصدقۃ لا تحل لال محمد آل محمد کے لئے صدقات حلال نہیں) تو اگر آیت خمس میں ان قرابت داروں کا ذکر نہ ہوتا تو کوئی یہ گمان کرسکتا تھا کہ خمس میں سے انہیں دینا جائز نہیں ہے جس طرح زکوٰۃ و صدقات میں سے انہیں دینا جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت خمس میں ان کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ خمس کے مال میں ان کا حکم زکوۃ و صدقات کے مال کے حکم سے مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ کو خمس میں سے دیا تھا، حالانکہ وہ مالدار تھے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خمس میں ذوالقربیٰ کا حصہ ان کے فقراء اور اغنیاء سب کے لئے ہے ۔ اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جائے گا۔ ایک تو یہ کہ حضور ﷺ نے یہ بتادیا تھا کہ آپ نے انہیں قرابت داری اور نصرت کی بنا پر خمس میں سے یہ حصہ دیا تھا۔ چناچہ آپ کا ارشاد ہے (انھم لم یفار قونی فی الجاھلیۃ ولا اسلام۔ ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا) اس لئے قرابت اور نصرت میں یکسانیت کی بناء پر آپ کے تمام رشتہ دار خواہ وہ فقیر ہوں یا غنی خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے کے یکساں مستحق ہوں گے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ شاید آپ نے حضرت عباس ؓ کو یہ حصہ فقراء بنی ہاشم کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے دیا ہو، خود ان کی ذات کو نہ دیا ہو۔ حضور ﷺ کے قرابت دار کون ہیں ؟ حضور ﷺ کے قرابت دار کون ہیں اس مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ آپ کے قرابت دار وہ لوگ ہیں جن پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام ہے۔ یعنی آپ ﷺ کے رشتہ دار اور آپ ﷺ کی آل، یہ لوگ آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ زید بن ارقم سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ عبدالمطلب کا سارا گھرانہ اس میں داخل ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے انہیں خمس میں سے حصہ دیا تھا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ پورا قبیلہ قریش حضور ﷺ کا قرابت دار ہے۔ خمس میں ان سب کا حصہ ہے۔ البتہ حضور ﷺ کو یہ اختیار تھا کہ اپنی صوابدید کے مطابق ان میں سے جسے چاہیں حصہ دے دیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن رشتہ داروں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے متعلق فقہاء کچا اتفاق ہے کہ یہ حضور ﷺ کے قرابت دار ہیں۔ بنو المطلب اور بنو عبد شمس قرابتداری میں یکساں درجے پر ہیں۔ اگر بنو مطلب کا ایسے قرابت داروں میں شامل ہونا ضروری ہے جن پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام ہے تو پھر بنو عبدشمس کا بھی ان کی طرح ہونا ضروری ہوگا اس لئے کہ حضور ﷺ سے قرابت داری میں بنو عبدشمس بنو مطلب کے ہم پلہ اور یکساں درجے پر ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ حضور ﷺ نے بنو مطلب کو خمس میں طے حصہ دیا تھا اور بنو عبدشمس کو نہیں دیا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بنو مطلب کو یہ حصہ آپ کی نصرت کرنے کی بنا پر ملا تھا اس لئے کہ آپ نے خود فرما دیا تھا کہ ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ رہ گئی زکوۃ اور دیگر صدقات تو تمام فقہاء کے نزدیک اس کی تحریم کا نصرت سے کوی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بنو المطلب بنی عبدشمس کی طرح حضور ﷺ کی آل میں سے نہیں ہیں جن پر زکوۃ حرام ہوتی ہے۔ بنو ہاشم کے موالی پر زکوۃ حرام ہوتی ہے حالانکہ ان کی حضور ﷺ سے کوئی قرابت داری نہیں ہوتی۔ یہ لوگ قرابت کی بنیاد پر خمس کے مستحق نہیں ہوتے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے آپ ﷺ سے خمس کے مال میں سے ایک خدمت گار طلب کیا تھا تو آپ نے انہیں تسبیحات پڑھنے کے لئے کہا تھا اور کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے حضرت فاطمہ ؓ کو خمس میں سے اس لئے نہیں دیا تھا کہ وہ آپ کے ذوی القربیٰ کے ضمن میں نہیں آتی تھیں اس لئے کہ وہ حضور ﷺ کے قرابت داروں سے بڑھ کر آپ کی قرابت دار تھیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بھی اسی خطاب سے پکارا تھا جبکہ حضرت علی ؓ آپ کے ذوی القربی کے ضمن میں شامل تھے۔ اسی طرح آپ نے اپین بعض چچازاد بہنوں کو جب وہ حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ آپ ﷺ سے خدمت گار طلب کرنے گئی تھیں فرما دیا تھا (سبتکن یتامی بدر، جو لوگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کی یتیم اولاد تم سے سبقت لے گئی) یعنی ان کی ضروریات پہلے پوری کردی گئیں جبکہ ان یتیموں میں ایے بھی تھے جن کا تعلق بنو ہاشم سے نہیں تھا۔ اس لئے کہ ان میں اکثر حضرات انصار کی اولاد تھی۔ اگر حضرت فاطمہ ؓ اور ان کے ساتھ جانے والی حضور ﷺ کے چچازاد بہن قرابت کی بنا پر کسی چیز کی مستحق ہوتیں جس سے انہیں روکنا جائز نہ ہوتا تو حضور ﷺ ہرگز ان سے ان کا حق نہ روکتے اور کسی اور کو نہ دیتے۔ اس امر میں دو باتوں پر دلیل موجود ہے۔ ایک تو یہ کہ خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے کی تقسیم کا معاملہ حضور ﷺ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ آپ ان میں سے جسے چاہتے اس حصے میں سے دے دیتے۔ دوسری بات یہ کہ انہیں خمس میں سے دینے یا نہ دینے کا تحریم صدقات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ قریش کا سارا قبیلہ آپ کا قرابت دار ہے وہ اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ جب قول باری (و انذر عشیرتک الاقربین اور اپنے کنبہ کے عزیزوں کو ڈراتے رہیں) کا نزول ہوا تو آپ نے قبیلہ قریش کے بطون یعنی مختلف شاخوں کا نام لے کر مثلاً ” اے بنی فہر، اے بنی عدی،۔ اے بنی فلاں وغیرہ “ ان سے فرمایا (انی نذیرلکم بین یدی عذاب شدید، میں تمہیں ایک زبردست عذاب کی آمد سے ڈرا رہا ہوں) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا : اے بنی کعب بن لوئی، اے بنی ہاشم۔ اے بنی قصی، اے بنی عبد مناف “ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے : ’ دشاید میں بنی ہاشم کو جمع کرلوں۔ “ بنو ہاشم کے افراد کی تعداد چالیس تھی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قبیلہ قریش سارے کا سارا آپ کا قرابت دار ہے اور خمس میں سے انہیں کچھ دینے کا معاملہ آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا تو آپ نے ان میں سے صرف ایسے لوگوں کو کچھ دیا، جنہوں نے آپ کی نصرت کی تھی۔ دوسروں کو کچھ نہیں دیا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں قرابت کے اسم کا ان سب پر اطلاق ہوتا ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے درج بالا آیت کے نزول کے بعد ان سب کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اکٹھا کیا تھا جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرابت کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ اس طرح حضور ﷺ کے ذوی القربیٰ کے ساتھ تین احکام کا تعلق ہوگیا۔ اول خمس کے ایک حصے میں ان کا استحقاق اس لئے کہ قول باری ہے (وللرسول ولذی القربی) تاہم ان شرطوں کے مطابق ان کا فقراء ہونا ضروری ہوگا جن کا ہم نے ان کے معتلق اختلاف رائے رکھنے والوں کے اقوال کی صورت میں ذکر کردیا ہے۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ و صدقات کا مال حرام ہے۔ یہ آل علی، آل عباس، آل عقیل، آل جعفر اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ یہ اہل بیت نبی کہلاتے ہیں، بنو المطلب کے ساتھ اس حکم کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے کہ یہ لوگ حضور ﷺ کے اہل بیت میں شمار نہیں ہوتے۔ اگر یہ لوگ آپ کے اہل بیت میں داخل ہوتے تو اس صورت میں بنو امیہ بھی آپ کے اہل بیت اور آل میں شامل ہوتے جب کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بنی امیہ کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے اس لئے بنو المطلب کو بھی یہی حیثیت ہوگی اس لئے کہ حضور ﷺ سے رشتہ داری کے اندر ان دونوں خاندانوں کو یکساں درجہ حاصل ہے۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے لئے اپنے قرابت داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کی تخصیص فرما دی۔ یہ چیز قبیلہ قریش کی تمام شاخوں کو شامل تھی جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ آیت (وانذر عشیرتک الاقربین) کے نزول پر حضور ﷺ نے قریش کے پورے قبیلے کو عذاب الٰہی سے ڈرایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ آیت کے نزول پر یہ طریق کار دین کی طرف بلانے کے لئے زیادہ موثر تھا اور اس کے ذریعہ اللہ کی طرف دعوت کے کام میں نرمی نہ دکھانے اور باہمی تعلقات الفت و نظرانداز کردینے کا بھوپر مظاہرہ ہوا تھا۔ اس لئے جب تمام لوگوں کو اس بات کا علم ہوگیا ہو گا کہ آپ نے اپنے قبیلے کے لوگوں کی بت پرستی کو برداشت نہیں کیا بلکہ انہیں اس کے انجام سے ڈرایا اور انہیں اس سے روکا تو انہیں یہ محسوس ہوگیا ہو گا کہ آپ دوسرے لوگوں کی بت پرستی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر باہمی الفت و محبت اور رشتہ داری اس کے آڑے آسکتی تو پھر آپ کے قرابت دار تمام لوگوں سے بڑھ کر اس لحاظ کے مستحق ہوتے۔ یتیم کسے کہتے ہیں ؟ قول باری ہے (والیتامی) یتیم کے اصل معنی تنہا رہ جانے کے ہیں۔ اسی بناء پر ریگستان میں تنہا ٹیلے کو یتیمہ کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ عورت بھی یتیمہ کہلاتی ہے جو شادی کے جھمیلوں سے اپنے آپ کو الگ رکھتی ہے ۔ تاہم عرف عام میں یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ گزر چکا ہو۔ جب اس کا اطلاق ہوتا ہے تو اس سے فقیر کے معنی کا بھی احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی بناء پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاندان کے یتیموں کے لئے کچھ وصیت کر جائے اور اس خاندان میں بیشمار یتیم ہوں تو وصیت درست ہوگی اور ان میں جو فقراء ہوں گے انہیں یہ وصیت مل جائے گی نیز اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت زیر بحث میں یتیمی کے ساتھ فقر بھی مراد ہے اور مالدار یتیموں کا خمس کے اندر کوئی حق نہیں ہوتا۔ یتیم کے لفظ کا اطلاق اس نابالغ پر ہوتا ہے جس کا باپ فوت ہوگیا ہو، بالغ پر نہیں ہوتا اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ (لا یتم بعد حلم۔ بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں رہتی) ایک قول ہے کہ انسان کے سوا ہر جاندار کا بچہ اپنی ماں کے مرجانے پر یتیم کہلاتا ہے لیکن انسان کا بچہ باپ کے مرجانے پر یتیم شمار ہوتا ہے۔ ابن السبیل قول باری ہے (وابن السبیل) اس سے مراد وہ مسافر ہے جو اپنے گھر سے بچھڑ گیا ہو اور اسے اپنے گھر تک پہنچنے کے لئے مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہو خواہ گھر پر مال کیوں نہ موجود ہو۔ اس کی حیثیت اس فقیر جیسی ہوگی جس کے پاس کوئی مال نہیں، اس لئے کہ فقیر کو خمس میں سے دینے کے وجوب کی علت یہ ہے کہ اسے مال کی حاجت ہوتی ہے۔ اس لئے ایسا شخص جس کے پاس مال تو ہو لیکن اس کی دسترس سے باہر ہو اس شخص کی طرح ہوتا ہے جس کے پاس سرے سے مال ہی نہیں ہوتا۔ ان دونوں میں احتیاج کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مسکین کے متعلق فقاء کے مابین اختلاف رائے ہے ہم اس کا صدقات کی آیت کی تفسیر میں ذکر کریں گے۔ جب تمام کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ ابن السبیل اور یتیم اپنے نام اور لیبل کی بنا پر خمس کے اندر حصے کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ فقر اور حاجت مندی کی بنا پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ خمس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسے مساکین پر صرف کیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب فقر استحقاق کی علت قرار پایا ہے تو پھر ذوی القربیٰ کے ذکر کا کیا فائدہ ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کے ذکر میں بہت بڑا فائدہ پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ جب آل نبی ﷺ پر صدقات و زکوۃ کا مال حرام کردیا گیا تو کسی شخص کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ ان پر صدقات کی طرح خمس بھی حرام ہے کیونکہ خمس کا مصرف بھی فقراء تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت خمس میں، ان کا ذکر کر کے یہ واضح فرما دیا کہ فقر کی بناء پر ذوی القربیٰ بھی خمس کے اندر حصوں کے حقدار ہوں گے اور انہیں اس علت کی بناء پر حصہ دینا جائز ہوگا۔ اس اعتراض سے خود معترض پر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ پھر اسے نام کی نبی اد پر یتیموں اور مسافروں کو خمس میں سے حصہ دینا چاہیے اور فقر و حاجت مندی کو نظرانداز کردینا چاہیے۔ اس لئے ذوی القربیٰ کی صورت میں اگر معترض کا اعتراف تسلیم کرلیا جائے تو یہی بات ابن السبیل اور یتامیٰ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ جب استحقاق فقر کی بنیاد پر ہوتا ہے تو پھر آیت خمس میں ابن السبیل اور یتامیٰ کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں جب کہ یہ دونوں فقرز ہی کی بنا پر خمس کے اندر کسی حصے کا استحقاق رکھ سکتے ہیں۔
Top