Ahkam-ul-Quran - Al-Anfaal : 63
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَاَلَّفَ : اور الفت ڈال دی بَيْنَ : درمیان۔ میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل لَوْ : اگر اَنْفَقْتَ : تم خرچ کرتے مَا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کچھ مَّآ : نہ اَلَّفْتَ : الفت ڈال سکتے بَيْنَ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ اَلَّفَ : الفت ڈالدی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے۔ مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی۔ بیشک وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
اخوت اسلامی قول باری ہے (والف بین قولبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما اتفت بین قلوبھم اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان کے دل جوڑ نہ سکتے تھے) تا اخر آیت۔ ایک روایت ہے کہ اس سے قبیلہ اوس اور خزرج مراد ہیں۔ یہی دو قبیلے مدینے کے اصلی باشندے تھے اور ان کے درمیان اسلام سے قبل انتہائی درجے کی دشمنی اور بغض و عداوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ان کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے اور یہی لوگ پھر حضرات انصار کہلائے بشیر بن ثابت الانصاری، ابن اسحاق اور سدی سے یہی مروی ہے مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو صرف اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے اور الفت رکھتے ہیں۔
Top