Tafseer-e-Saadi - Al-Anfaal : 63
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَاَلَّفَ : اور الفت ڈال دی بَيْنَ : درمیان۔ میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل لَوْ : اگر اَنْفَقْتَ : تم خرچ کرتے مَا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کچھ مَّآ : نہ اَلَّفْتَ : الفت ڈال سکتے بَيْنَ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ اَلَّفَ : الفت ڈالدی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اس نے ان کے قلوب میں اتفاق پیدا کردیا اگر آپ دنیا بھر کا مال خرچ کر ڈالتے جب بھی ان کے قلوب میں اتحاد نہ پیدا کرسکتے لیکن اللہ نے ان میں اتحاد پیدا کردیا بیشک وہ بڑا قدرت والا بڑا حکمت والا ہے،94 ۔
94 ۔ وہ جو چاہے اپنی قدرت سے اور جس طریق مناسب سے چاہے اپنی حکمت سے کردکھائے۔ (آیت) ” الفت بین قلوبھم “۔ یہ اللہ کی کریمی اور کارسازی تھی کہ مسلمانوں سے نسلی، قبائلی، لسانی تفریقیں مٹ مٹا کر سب نصرت دین پر متحد ویکجا ہوگئے۔ بغیر اس یکجہتی کے نصرت دین پوری طرح پر ممکن ہی نہ تھی اللہ کا خاص موقع احسان پر اس نعمت اتحاد کو یاد لانا دلیل ہے اس کی کہ یہ نعمت کتنی اہم وعظیم الشان ہے۔ (آیت) ” لوانفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الف بینھم “۔ یعنی باوجود اس کے کہ آپ دنیابھر میں سب سے بڑھ کر صاحب حکمت، صاحب تدبیر ہیں، آپ تک سارے ممکن مالی ذرائع کے استعمال کے بعد بھی اس نعمت اتحاد واتفاق پر قادر نہ ہوپاتے، یہ تو محض فضل خداوندی کا کرشمہ ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” لوانفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم “۔ سے یہ بھی نکلتا ہے کہ قلب میں کسی صفت محمود کا پیدا کردینا شیخ کے اختیار میں نہیں۔
Top