Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔
صدقہ باعث تطہی رہے قول باری ہے خذمن اموالھم صدقۃ تطھر ھم و ترکیھم بھا اے نبی ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور نیکی کی راہ میں انہیں بڑھائو ظاہری طور پر کنایہ ان لوگوں کی طرف راجع ہے جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا تھا۔ اس لیے کہ کنایہ کے لیے کسی اسم ظاہر کا ہونا ضروری ہوتا ہے جس کا سلسلہ خطاب میں پہلے ذکر ہو چکاہو ۔ آیت میں ظاہر کلام اور مقتضائے لفظ یہی ہے۔ اس سے تمام اہل ایمان مراد لینا بھی درست ہے اس لیے کہ اس پر دلالت حال موجود ہے جس طرح یہ قول باری ہے انا انزلناہ فی لیلۃ القدر بیشک ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا یعنی قرآن ۔ اسی طرح یہ قول باری ہے ما ترک علی ظھرھا من دابۃ اللہ تعالیٰ اس کی پشت پر ایک بھی چلنے والا جاندار نہ چھوڑتا یہاں اس سے زمین مراد ہے۔ نیز فرمایا حتی توارت بالحجاب یہاں تک کہ وہ پردے میں چھپ گیا ۔ یعنی سورج ان آیات میں دلالت حال کی بنا پر مذکور امور سے کنایہ کیا گیا جبکہ خطاب میں اسمائے ظاہرہ کی صورت میں ان کا ذکر موجود نہیں ہے۔ یہی صورت حال باری خد من اموالھم صدقۃ کے اندر بھی ہے کہ اس میں تمام اہل ایمان کے اموال مراد ہونے کا احتمال موجود ہے اور قول باری تطھر ھم وترکیھا بھا اس پر دلالت کرتا ہے ۔ اگر آیت میں کنایہ ان لوگوں کے متعلق ہے جن کا خطاب میں ذکر ہوچکا ہے یعنی وہ لوگ جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو اس صورت میں تمام اہل اسلام کیا موال سے صدقات وصول کرنے کے وجوب پر آیت ظاہرا ً دلالت کرے گی ، اس لیے کہ احکام دین میں تمام مسلمانوں کی حیثیت یکساں ہے الایہ کہ کسی دلیل کی بنیاد پر کوئی تخصیص ہر جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایساحکم جو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے بندوں میں سے کسی ایک کے بارے میں یا اس کے خلاف جاری کیا گیا ہو، وہ تمام لوگوں کے لیے لازم ہوگا ، الایہ کو تخصیص کی کوئی دلیل قائم ہوجائے۔ قول باری تطھرھم سے مراد گناہوں کی نجاست کا ازالہ ہے جو صدقہ نکالنے کی بنا پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب نجس کے اسم کا کفر پر اطلاق کیا گیا جس میں ظاہری نجاست کے ساتھ کفر کی تشبیہ کا پہلو مد نظر تھا تو اس کے بالمقابل ، نیز اس کے ازالہ کے لیے تطہیر کے اسم کا اطلاق کیا گیا ۔ جس طرح ظاہری نجاست کی تطہیر اس کے ازالہ کے ذریعے ہوتی ہے ۔ گناہوں پر نجس کے اسم کے اطلاق اور ایسے افعال کے ذریعے جو اللہ سے انہیں معاف کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں ، ان کے ازالہ پر تطہیر کے اسم کے اطلاق کی یہی کیفیت ہے۔ اہل ایمان کے اموال سے حضور ﷺ جو صدقات وصول کرتے تھے اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان پر تطہیر کے اسم کا اطلاق کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ اہل ایمان حضور ﷺ کو صدقات ادا کر کے تطہیر کے حق دار قرار پاتے ہیں ۔ اس لیے کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے صدقات کی ادائیگی نہ ہوتی بلکہ صرف حضور ﷺ کی طرف سے وصول ہوتی تو اس صورت میں وہ تطہیر کے اہل قرار نہ پاتے ، اس لیے کہ تطہیر کا استحقاق انہیں ان کی اطاعت اور صدقہ کی ادائیگی کے ثواب کے طور پر حاصل ہوتا ہے، اگر صدقات کے سلسلے میں انکا اپنا کوئی عمل نہ ہو تو وہ کسی اور کے عمل کی بنیاد پر نہ تو تطہیر کے حق دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں ۔ اور نہ ہی از کیاء یعنی پاک و صاف بن سکتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زیر بحث آیت کے مضمون میں حضور ﷺ کو صدقات کی ادائیگی کا مفہوم موجود ہے۔ اسی ادائیگی کی بنیاد پر وہ از کیا اور پاک و صاف قرار پائے۔ آیت میں صدقہ سے زکوٰ ۃمراد ہے یا ان گناہوں کا کفارہ جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا، اس مراد کے تعین میں اختلاف رائے ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ اس سے زکوٰۃ مراد نہیں ہے بلکہ ان گناہوں کا کفارہ مراد ہے جو ان سے سرزد ہوئے تھے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے زکوٰۃ مراد ہے ۔ درست بات یہی ہے کہ اس سے فریضہ زکوٰۃ کی تمام صورتیں مراد ہیں اس لیے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں پر اموال کی زکوٰۃ کے سوا کوئی صدقہ واجب کردیا تھا جس میں دوسرے لوگ شامل نہیں ہیں ۔ جب کسی دلیل سے اس کا ثبوت نہیں ہے تو پھر ظاہربات یہی ہے کہ گناہ گاروں اور دوسرے تمام لوگوں کا احکام و عبادات میں یکساں حکم ہے، صدقہ کے حکم کے ساتھ گناہ گار مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس حکم میں تمام لوگ برابر ہیں۔ ایک اور پہلو سے دیکھے آیت کا مقتضی تو یہ ہے کہ صدقہ تمام لوگوں پر واجب ہوجائے تا کہ احکام کے لحاظ سے تمام کی حیثیت یکساں ہوجائے۔ اور صرف دلیل کی بنا پر کسی کی تخصیص کی کوئی صورت نکلے اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ آیت میں مذکور صدقہ کا حکم تمام لوگوں پر واجب ہوجائے اور کوئی گروہ اس حکم کے ساتھ مخصوص نہ ہو ، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر آیت میں مذکورہ صدقہ سے زکوٰۃ ہی مراد ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تمام لوگوں کے اموال میں فریضہ زکوٰۃ کے سوا اور کوئی حق لازم نہیں ہے۔ قول باری تطھرھم و تزکیھم بھا میں اس پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ وہ صدقہ ہے ان کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور یہ فریضہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ بھی تو اس کے ادا کرنے والے کی تطہیر و تزکیہ کرتی ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ تمام کے تمام مکلفین کو تطہیر وت زکیہ والے عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ قول باری ہے خذ من اموالھم میں اموا ل کی تمام اصناف کے لیے عموم ہے اس لیے آیت اموال کی تمام اصناف سے وصولی زکوٰۃ کی مقتضی ہے، صرف بعض اصناف سے زکوٰۃ کی وصولی کافی نہیں ہوگی ، جب کہ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ صرف ایک ہی صفت سے زکوٰۃ کی وصولی آیت کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے کافی ہوگی ۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلی بات درست ہے۔ ہمارے شیخ ابو الحسن کرخی بھی یہی کہا کرتے تھے۔ مسائل زکوٰۃ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی مواقع پر زکوٰۃ کی فرضیت کا ذکر فرمایا ہے لیکن یہ ذکر مجمل الفاظ میں ہوا ہے ، جس میں اس وضاحت کی ضروت باقی رہ گئی تھی کہ لوگوں سے زکوٰۃ لی جائے اور کتنی مقدار میں لی جائے۔ زکوٰۃ کے واجب کے لیے مال کی مقدار کیا ہو ؟ اس کے لیے وقت کونسا ہو ؟ اس کے مستحقین کون سے لوگ ہیں ؟ اور اس کے مصارف کیا کیا ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تمام امور کے لحاظ سے زکوٰۃ کا لفظ ایک مجمل لفظ تھا، پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا خذ من امولھم صدقۃ اس میں لفظ صدقہ کے اندر اجمال ہے۔ اموال کے اندر اجمال نہیں ہے اس لیے کہ اموال کے اسم میں اپنے مدلولات کے لیے عموم ہے ، تا ہم یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس سے تمام اموال مراد نہیں ہیں ، بلکہ یہ حکم بعض اموال کے ساتھ خاص ہے ۔ اس طرح اس کا وجوب بھی ایک وقت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس سے سارا زمانہ مراد نہیں ہے۔ اس کی نظریہ قول باری ہے ۔ وفی اموالھم حق للسائل والمحروم ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہوتا ہے ۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں اوپر جن امورکا ذکر کیا گیا ہے انکے بارے میں اللہ کو یہ بات منظور تھی کہ حضور ﷺ ان کی تفصیلات بیان فرمائیں اور یہ سارا معاملہ آپ کے سپرد کردیا جائے۔ ارشاد باری ہے ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا رسول جو کچھ تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بشار نے ، انہیں محمد بن عبد اللہ انصاری نے ، انہیں صرد بن ابی المنازل نے ، انہوں نے حبیب المالکی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے یہ کہا کہ : ابو نجید ! آپ ہمیں ایسی باتیں سناتے ہیں جن کی قرآن میں ہمیں کوئی اصل نہیں ملتی ۔ یہ سن کر حضرت عمران ؓ کو غصہ آگیا اور فرمانے لگے : کیا تمہیں قرآن میں یہ بات ملی ہے کہ چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ ہے یا اتنی بکریوں پر ایک بکری ہے یا اتنے اونٹوں پر ایک اونٹ ہے۔ وغیرہ وغیرہ کیا تمہیں یہ تمام باتیں قرآن میں ملتی ہیں ؟ اس شخص نے نفی میں اس کا جواب دیا ، اس پر حضرت عمران ؓ نے فرمایا : پھر تم نے یہ باتیں کس سے لی ہیں ؟ یہ تمام باتیں تم نے ہم سے لی ہیں اور ہم نے حضور ﷺ سے لی ہیں ۔ حضرت عمران ؓ نے سلسلہ گفتگو میں اسی طرح کے بہت سے امور کا ذکر کیا ۔ اموال کی جن اصناف پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان میں سے چاندی اور سونے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے۔ والذین یکنزون الذھب والفصۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشر ھم بعذاب الیم جو لوگ سونا اور چاندی جمع رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دو ۔ اللہ تعالیٰ نے تاکید و تبیین کی خاطر سونا اور چاندی کے مخصوص ترین نام لے کر ان دونوں میں حق یعنی زکوٰۃ کے وجوب کا منصوص طریقے سے ذکر فرمایا ۔ فصلوں اور پھلوں پر زکوٰۃ کو منصوص طریقے سے اس آیت میں بیان فرمایا وھو الذین انشاء جنت معروشت وغیر معروشات وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تا کستان پیدا کیے تا قول باری کلوا من تمرہ اذا اثمروا توا حقہ یوم حصادہ کھائو ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور ان کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو جن اموال میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے وہ یہ ہیں۔ سونا، چاندی ، سامان تجارت ، اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکریاں بشرطیکہ یہ سب چرنے والے ہوں ۔ نیز زرعی اجناس اور پھل ، ان میں سے بعض میں زکوٰ ۃ کے وجوب کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے بھی ہے۔ بعض زرعی پیداوار اور اجناس نیز پھلوں کی زکوٰۃ کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے۔ چاندی کے نصاب کی مقدار دو سو درہم اور سونے کے نصاب کی مقدا ر بیس دینار ہے۔ حضور ﷺ سے اس کی رویات منقول ہے۔ اونٹوں کے نصاب کی مقدار پانچ اونٹ اور بھیڑ بکریوں کا نصاب چالیس بکریاں اور گایوں کے نصاب کی مقدار تیس گائیں ہیں ۔ سونے ، چاندی اور سامان تجارت کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں واجب ہوتا ہے۔ بشرطیکہ مذکورہ چیزیں نصاب کو پہنچ چکی ہوں ۔ پانچ اونٹوں میں ایک بکری چالیس بکریوں میں ایک بکری اور تیس گایوں میں ایک تبیع یعنی نر بچہ جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں ہو، واجب ہوتا ہے۔ گھوڑوں پر زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہے جس کا ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت وہ ہے جب مال پر ایک سال گزر جائے اور سال کی ابتداء اور انتہاء میں نصاب مکمل ہو، زکوٰۃ ایسے شخص پر واجب ہوتی ہے جو آزاد ، عاقل، بالغ اور مسلمان ہو، نیز مال پر اس کی ملکیت ازروئے شریعت صحیح ہو۔ اس پر کوئی قرض نہ ہو جو اس کے مال کی پوری مقدار کے مساوی ہو یا اس کے پاس اتنی مقدار کی مالت ہو جس کے بعد اس کے پاس دو سو درہم فاضل نہ بچتے ہوں ۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابو دائود نے ، انہیں القعنبی نے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے، مالک بن انس کو یہ روایت پڑھ کر سنائی ، انہوں نے عمر بن یحییٰ المازنی سے اس کی روایت کی ، انہوں نے اپنے والد سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے لیس فیما دون خمس ذود صدقۃ ولیس فیما دون خمس اواق صدقۃ و لیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقۃ پانچ اونٹوں سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، پانچ اوقیہ سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں سلیمان بن دائود المھری نے ، انہیں ابن وہب نے ، انہیں جریر بن حازم نے ، ابو اسحاق سے ، انہوں نے عاصم بن ضمرہ اور حارث الاعور سے ، ان دونوں نے حضرت علی ؓ سے ، انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا : ” جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم زکوٰۃ کے ہوں گے۔ سونا جب تک بیس دینار کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک تم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔ جب اس کی مقدار بیس دینارہو جائے اور اس پر سا ل گزر جائے تو نصف دینار زکوٰۃ ہوگی ۔ کسی مال میں اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی جب تک اس پر سال نہ گزر جائے ۔ سال گزرنے کے متعلق یہ روایت اگرچہ خبر واحد ہے لیکن فقہاء نے اسے قبول کیا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوئے میں اس بنا پر اس کا مرتبہ خبر متواتر جیسا ہے جو علم کی موجب ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر ایک شخص نصاب کا مالک ہوجائے تو جس وقت اسے اس کی ملکیت حاصل ہوجائے گی اس وقت ہی وہ اس کی زکوٰۃ نکال دے گا ۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ ا قول ہے کہ جب تک سال نہ گزر جائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔ جب تمام حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃ نکالنے کے بعد جب تک سال گزر نہ جائے اس وت تک اس مال میں دوبارہ زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کا وجوب سال گزرنے کا چھوڑ کر صرف مال کے ساتھ نہیں ہے بلکہ دونوں کے ساتھ ہے ۔ مال اور سال دونوں کی بنا پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پہلی مرتبہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد اگلی زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط والی روایت پر عمل کیا ہے جبکہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد میں سال گزرنے کے سلسلے میں ادائیگی سے قبل اورادائیگی سے بعد کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے بلکہ آپ نے تمام اموال میں زکوٰۃ کے ایجاب کی عام نفی کردی ہے، الایہ کہ سال گزر جائے ۔ اس لیے اس روایت پر ہر نصاب کے سلسلے میں عمل پیرا ہو یا واجب ہوگیا خواہ ادائیگی سے قبل کی صورت ہو یا بعد کی ، تا ہم یہاں یہ احتمال ہے کہ شاید حضرات ابن عباس ؓ نے اپنے قول سے نصاب کی ملکیت ہوتے ہی ادائیگی کا ایجاب مراد نہ لیا ہو، بلکہ انہوں نے یہ مراد لی ہو کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تعجیل جائز ہے۔ یعنی سال گزرنے سے قبل ہی زکوٰۃ نکال دی جائے تو اس کا جواز ہے اس لیے کہ روایت میں اس سلسلے میں وجوب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چاندی کی زکوٰۃ اگر چاندی کی مقدار دو سو درہم سے زائد ہوجائے تو آیا اس زائد مقدار کی بھی زکوٰۃ نکالی جائے گی یا نہیں ؟ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ دو سو سے زائد مقدار کی زکوٰۃ اسی کے حساب سے نکالی جائے گی ۔ امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے ۔ حضرت عمر ؓ سے مرو ی ہے کہ دو سو سے زائد مقدار پر کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک کہ چالیس درہم نہ ہوجائیں ۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے ۔ اس قول کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عبد الرحمن بن غنم نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ولیس فیما زاد علی المائتی الدرھم شی حتی یبلغ اربعین درھما ًدو سو درہموں سے زائد پر کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک کہ چالیس درہم نہ ہوجائیں نیزحضرت علی ؓ کی روایت جس میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے ھاتوا زکاۃ الورقۃ من کل اربعین درھما درھما و لیس فیما دونخمس اواق صدقۃ چاندی کی زکوٰۃ ہر چالیس درہم پر ایک درہم ادا کرو اور پانچ اوقیہ سے کم مقدار میں کوئی زکوٰۃ نہیں آپ کے ارشاد فی کل اربعین درھما دزھما پر بایں معنی عمل پیرا ہونا واجب ہے کہ آپ نے چالیس درہم کو چاندی کے اندر زکوٰۃ کے وجوب کی مقدار قرار دیا جس طرح آپ کا یہ ارشاد ہے۔ بکریوں کی زکوٰۃ واذا کثرت الغنم فی کل مائۃ شاۃ شاۃ ۔ جب بکریوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو ہر چالیس بکریوں پر ایک بکری ہوگی نظر اور قیاس کی جہلت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ وہ یہ کہ ایسا مال ہے جس میں زکوٰۃ کے وجوب کے لیے اصل کے لحاظ سے ایک نصاب مقرر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک نصاب مکمل ہونے کے بعد اس کے ساتھ زکوٰۃ سے وقفہ بھی آئے جس طرح چرنے والے مویشوں کی زکوٰۃ میں ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بات پھلوں کی زکوٰۃ کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ پر لازم نہیں آتی اس لیے کہ ان کے نزدیک پھلوں کی زکوٰۃ کے لیے اصل کے لحاظ سے نصاب مقرر ہے اور پھر اس نصاب کے حصول کے بعد کسی مقدار کا اعتبار ضروری نہیں ہوتا بلکہ قلیل اور کثیر دونوں مقداروں میں زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے۔ ان دونوں حضرات کے نزدیک درہم و دینار کی زکوٰۃ میں بھی یہی طریق کار ہے کہ ایک نصاب مکمل ہوجانے کے بعد پھر کسی مقدار کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ نصاب سے زائد مقدار پر اسی کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوجائے گی ۔ اگر امام ابو یوسف اور امام محمد کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو بھی درہم ودینار کی نصاب سے زائد مقدار کی زکوٰۃ کے سلسلے میں اسے پھلوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنے کی بہ نسبت مویشیوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنا اولیٰ ہوتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سال کی تکرار کے ساتھ حق یعنی زکوٰۃ کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن زمین کی پیداوار میں صرف ایک دفعہ زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہے اور سال کی تکرار کے ساتھ زکوٰۃ کے وجوب کی تکرار نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ایسا مال جس میں زکوٰ ۃ کا وجوب سال کی تکرار کی بنا پر بار بار ہوتا ہے اس میں اس مال کی بہ نسبت جس میں یہ تکرار نہیں ہے، نصاب سے زائد مقدار پر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر زکوٰۃ کا وجوب اولیٰ ہوجائے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کلیہ مویشیوں کی زکوٰۃ میں ٹوٹ جاتا ہے اس لیے کہ مویشیوں میں سال کی تکرار کے ساتھ زکوٰۃ کا وجوب بھی منکر ہوتا ہے لیکن یہ چیز انکی زکوٰ ۃ میں نصاب کے بعد وقفہ کے بعد مانع نہیں ہے۔ نصاب سے زائد درہم کی زکوٰۃ کو زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ پر قیاس کرنے کی بہ نسبت مویشیوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنا اولی ہے اس پر یہ حقیقت بھی دلالت کرتی ہے کہ قرض کی بنا پر عشر ساقط نہیں ہوتا اسی طرح زمین کے مالک کی موت سے بھی عشر کا سقوط نہیں ہوتا لیکن درہم و سوائم یعنی مویشیوں کی زکوٰۃ ان دونوں صورتوں میں ساقط ہوجاتی ہے ۔ اس بنا پر درہم کی زکوٰۃ کو زمین کی پیدوار کی زکوٰۃ پر قیاس کرنے کی بہ نسبت مویشیوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنا اولیٰ ٹھہرا۔ گایوں کی زکوٰۃ اگر گایوں کی تعداد چالیس سے اوپر ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق زائد پر زکوٰۃ اسی کے حساب سے نکالی جائے گی اور امام ابو یوسف نیز امام محمد کے نزدیک جب تک تعداد ساٹھ کو نہ پہنچ جائے زائد پر کوئی زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔ اسد بن عمر نے امام ابوحنیفہ سے ان دونوں حضرات کے قول کے مماثل قول کی بھی روایت کی ہے۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، سفیان ثوری اوزاعی ، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول بھی صاحبین کے قول کی طرح ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے لیے قول باری خذ من امرالھم صدقۃ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ آیت میں تمام اموال کے لیے عمو م ہے۔ خاص طور پر جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مال یعنی گائیں آئیت کے حکم میں داخل ہیں اور آیت میں مراد بھی ہے۔ اس بنا پر عموم کی رو سے قلیل اور کثیر سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ حسن بن زیاد سے امام ابوحنیفہ سے یہ روایت کی ہے کہ زائد پر کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک گایوں کی تعداد پچاس کو نہ پہنچ جائے ۔ اس میں ایک مکمل مسنہ یعنی مادہ بچہ جو دو سال پورا کر کے تیسرے سال میں ہو نیز مسنہ کا چوتھائی حصہ یعنی سوا مسنہ زکوٰۃ میں نکالی جائے گی ۔ امام ابوحنیفہ کے پہلے قول کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ چالیس سے زائد ہونے کی صورت میں وقص یعنی دو نصابوں کے درمیان والا حصہ نو رہ جاتا ہے جس سے زکوٰۃ میں کسر لازم آ تی ہے اور امام صاحب فروع صدقات میں کسر کے قائل نہیں کیونکہ اس میں عوام کو دقت پیش آتی ہے۔ اگر ساٹھ کا قول ہوا تو انیس کی تعداد پر وقص ہوگا اس صورت میں یہ گایوں کے اوقاص کے خلاف بات ہوگی کیونکہ گایوں میں دو نصابوں کا درمیانی فاصلہ اتنا نہیں ہوتا ۔ جب پچاس والی بات بھی غلط ہوگئی اور ساٹھ والی بھی ثواب تیسرا قول ثابت ہوگیا وہ یہ کہ چالیس سے زائد پر زکوٰۃ چالیس کے حساب سے واجب ہوگی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر ۔ سعید بن المسیب ، ابو قلابہ ، زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ پانچ گایوں پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ لیکن یہ قول شاذ ہے اس لیے کہ اہل علم کا اس کے خلاف اتفاق رائے ، نیز حضور ﷺ سے منقول صحیح روایت سے بھی اس قول کا بطلان ہوجاتا ہے۔ اونٹوں کی زکوٰۃ عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ پچیس اونٹوں میں پانچ بکریوں زکوٰۃ میں نکالی جائیں گی سفیان ثوری نے اس قول کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے علم و فضل کی بنا پر ایسی غلط بات کہنے سے بہت بلند ہیں ۔ دراصل راوی کو غلطی ہوگئی ہے۔ حضور ﷺ کی بکثرت روایات سے یہ ثابت ہے کہ پچیس اونٹوں میں ایک بنت فحاض ہے یعنی اونٹ کا مادہ بچہ جو ایک سال مکمل کر کے دوسرے سال میں پہنچ گیا ہو ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے ایک بنت مخاض کی قیمت کے عوض پانچ بکریاں لیے لی ہوں اور راوی کو گمان ہوگیا ہو کہ حضرت علی ؓ کے نزدیک پچیس اونٹوں پر پانچ بکریوں کی زکوٰۃ ہے۔ ایک سو بیس سے زائد اونٹوں کی زکوٰۃ میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ ایک سوبیس کے بعد فریضہ نئے سرے سے شروع کیا جائے گا ۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر اونٹوں کی تعداد ایک سو اکیس ہوجائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو میں بنت لبوں لے لے ، یعنی اونٹ کے مادہ بچے جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں ہوں اور اگر چاہے تو دو حصے وصول کرلے یعنی تین سال مکمل کر کے چوتھے سال والے بچے ۔ ابن شہاب کا قول ہے کہ اگر اونٹوں کی تعداد ایک سو اکیس ہوجائے تو ایک سو تیس تک تین بنت لبون لی جائیں گی اور ایک سو تیس پر ایک حصہ اور بنت لبون لی جائیں گی ۔ یہاں آ کر ابن شہاب زہری اور امام مالک کا قول یکساں ہے لیکن ایک سو اکیس سے ایک سو انتیس تک کی زکوٰۃ میں ان دونوں حضرات کے اقوال میں اختلاف ہے۔ اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایک سو بیس سے زائد کا حساب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حصہ واجب ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے مسلک سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ایک سو بیس کے بعد زکوٰۃ کا حساب نئے سرے سے شروع کیا جائے گا اور اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو ایک سو بیس تک اختیار کیا گیا تھا۔ زکوٰۃ کے اونٹوں کی عمریں حضرت علی ؓ سے یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ میں دیے جانے والے اونٹوں کی عمریں حضور ﷺ سے حاصل کی تھیں ، جب ان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا آپکے پاس حضور ﷺ کے فرمودات میں سے کوئی چیز ہے ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا کہ ہمارے پاس بھی وہی کچھ ہے جو لوگوں کے پاس ہے البتہ ہمارے پاس یہ صحیفہ ( کتابچہ) بھی ہے۔ سوال کیا گیا کہ اس میں کیا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ اس میں اونٹوں کی عمریں درج ہیں اور یہ عمریں میں نے حضور ﷺ سے حاصل کی تھیں ۔ جب حضرت علی ؓ کے قول سے زکوٰۃ کا حساب نئے سرے سے شروع کرنا ثابت ہوگیا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انہوں نے اونٹوں کی عمریں حضور ﷺ سے حاصل کی تھیں تو اب اس کی حیثیت توقیف یعنی شرعی دلیل جیسی ہوگئی اس لیے کہ حضرت علی ؓ حضور ﷺ کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے ۔ علاوہ ازیں حضور ﷺ نے عمرو بن حزم ؓ کے لیے جو تحریر لکھوائی تھی اس میں بھی ایک سو بیس کے بعد نئے سرے سے حساب شروع کرنے کا حکم درج تھا۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے کہ وہ یہ کہ اس قسم کے مفاد پر کا اثبات صرف توقیف یا امت کے اتفاق کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ جب ایک سو بیس اونٹوں میں دو حقوں کے وجوب پر سب کا اتفاق ہے اور ایک سو بیس سے زائد ہیں اختلاف رائے ہے۔ تو ہمارے لیے ان دونوں حقوق کا اسقاط جائز نہیں ہے اس لیے کہ ان کا وجوب نقل متواتر اور اتفاق امت سے ثابت ہے اور کسی چیز کا وجوب ہمیشہ یا تو توقیف کے ذریعے ثابت ہوتا ہے یا اتفاق امت کے ذریعے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے بہت سی روایات میں یہ منقول ہے کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے زائد ہوجائے تو ہر پچاس پر ایک حصہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون زکوٰۃ میں نکالی جائے گی ، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان روایات کے الفاظ میں اختلاف ہے بعض میں واذا کثرت الابل کے الفاظ ہیں یعنی جب اونٹ بہت زیادہ ہوجائیں اور ظاہر ہے کہ ایک سو بیس پر ایک کے اضافے سے اونٹ بہت زیاد ہ نہیں ہوجاتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی کہ اس اضافے سے حضور ﷺ کی مراد وہ کثرت ہے جس کی بنا پر اس فقرے کا اطلاق ہوسکتا ہو کہ اس اضافے سے اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ ہم بھی اس کثرت کی صورت میں حدیث میں وارد و زکوٰۃ کو واجب کردیتے ہیں ۔ وہ یہ کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو نوے ہوجائے تو اس میں تین حصے اور ایک بنت لبون زکوٰۃ میں دیئے جائیں گے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھے ایک سو بیس پر ایک کے اضافے سے زکوٰۃ کے حساب میں تبدیلی کے وجوب کا قائل یا تو اس ایک زائد اونٹ کی بنا پر تبدیلی کرتے ہوئے اصلی یعنی ایک سو بیس اور اس دونوں میں زکوٰۃ واجب کر دے گا یا ایک سو بیس میں تو واجب کردے گا لیکن اس ایک زائد میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں کرے گا ۔ اگر وہ پہلی صورت کرتے ہوئے تین بنت لبون وجب کر دے گا تو وہ چالیس پر ایک بنت لبون واجب نہیں کرے گا ، بلکہ چالیس اور ایک یعنی اکتالیس پر ایک بنت لبون واجب کرے گا حالانکہ یہ صورت حضور ﷺ کے قول کے خلاف ہے۔ اگر وہ دوسری صورت اختیار کرے گا یعنی ایک زائد اونٹ کی بنا پر حساب میں تبدیلی کر دے گا لیکن اس ایک کی کوئی زکوٰۃ نہیں نکالے گا تو گویا وہ ایک سو بیس پر تین بنت لبون دے گا اور اس ایک زائد کو عقو یعنی زکوٰۃ سے معاف قرار دے گا ۔ لیکن یہ صورت اختیارکر کے وہ اصول کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا اس لیے کہ زکوٰۃ سے معاف تعداد کے وجود کی بنا پر زکوٰۃ کے حساب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ کے حساب میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک ، سفیان ثوری ، اوزاعی لیث بن سعد اور امام شافعی ا قول ہے کہ دو سو ایک پر، چار سو تک تین بکریاں اور چار سو پر چار بکریاں زکوٰۃ میں دی جائیں گی ۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب ان کی تعداد تین سو ایک ہوجائے تو چار بکریاں دی جائیں گی اور جب چار سو ایک ہوجائے تو پانچ بکریاں دی جائیں گی ۔ ابراہیم نخعی نے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے تا ہم حضور ﷺ سے حد استفاضہ تک پہنچنے والی روایات سے پہلا قول ثابت ہوتا ہے۔ حسن بن صالح کا قول ثابت نہیں ہوتا ۔ کام کرنے والے اونٹ اور گایوں کی زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ثوری ، اوزاعی ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اس میں زکوٰ ۃ ہے۔ پہلے قول کی دلیل وہ روایت ہے جو میں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی ، انہیں حسن بن اسحاق التستری نے ، انہیں حمویہ نے ، انہیں سوار بن مصعب نے لیث سے ، انہوں نے طائو س سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لیس فی البقر العوامل صدقۃ ۔ کام کرنے والی گایوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے، انہیں عبد اللہ محمد النفیلی نے ، انہیں زہیر نے ، انہیں ابو الحاق نے عاصم بن ضمرہ سے نیز حارث الاعور سے ان دونوں نے حضرت علی ؓ سے زہیر کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ ہر تیس گایوں پر ایک تبیع اور چالیس پر ایک مسنہ اور کام کرنے والی گایوں پر کچھ نہیں ۔ تبیع دوسرے سال کا بچھڑا اور مسنہ تیسرے سال کی بچھڑی کو کہتے ہیں ۔ نیز حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا لیس فی النخۃ ولا فی الکسعۃ ولا فی الجبھۃ صدقۃ ، نسخہ، کسعہ اور جھیھہ میں کوئی زکوٰۃ نہیں الہ لغت کا قول ہے کہ نخہ کام کرنے والی گایوں کو ، کسعہ گدھوں کو اور جبھہ گھوڑوں کو کہا جاتا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھے چاندی اور سونے کے سوا دوسری تمام چیزوں میں زکوۃ کے نہ جوب کا تعلق اس امر سے ہوتا ہے کہ اس چیز کو رکھا اس مقصد کے لیے گیا ہو کہ خود اس چیز سے یا اس کی نسل سے مال کی افزائش حاصل کی جاسکے۔ چونے والے مویشوں میں یا تو خود ان سے یا ان کی نسل سے افزائش حاصل کی جاتی ہے اس کے برعکس کام کرنے والے جانوروں کو افزائش کے مقصد کے تحت نہیں رکھا جاتا ۔ ان کی حیثیت تو غلہ کے گوداموں اور استعمال کے کپڑوں وغیرہ جیسی ہوتی ہے۔ اس پر ایک اور پہلو سے نظر ڈالیے ۔ کام کرنے والے جانوروں میں زکوٰۃ کے جوب کے علم کی لوگوں کو اسی طرح ضرورت تھی ۔ جس طرح چرنے والے جانوروں میں زکوٰۃ کے وجوب کے علم کی ۔ اگر ان کی زکوٰۃ کے متعلق حضور ﷺ کی طرف سے کوئی ہدایت ہوتی تو یہ بھی اسی پیمانے پر منقول ہوتی جس پیمانے پر چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ کے متعلق ہدایت منقول ہے۔ جب حضور ﷺ سے بکثرت روایت کے ذریعے یہ ہدایت منقول ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے۔ تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ دراصل حضور ﷺ کی طرف سے اس کے ایجاب کے بارے میں سے سے کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے بلکہ آپ سے ایسے جانوروں میں زکوٰۃ کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات منقول ہیں جن میں سے بعض کو ہم اوپرنقل کر آئے ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت وہ ہے جسے یحییٰ بن ایوب نے المثنیٰ بن مصباح سے اور انہوں نے عمرو بن دینار سے نقل کی ہے کہ انہیں حضور ﷺ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا لیس فی ثورالمثیرۃ صدقۃ ہل میں کام کرنے والے بیل میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ حضرت علی ؓ ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، ابراہیم نخعی ، مجاہد ، حضرت عمر بن عبد العزیز اور زہری سے کام کرنے والی گایوں کی نفی کی روایت منقول ہے۔ اس پر حضرت انس کی یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے صدقات کے بارے میں ابوبکر ؓ کو ایک تحریر لکھ کردی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ھذہ فریضہ الصدقۃ التی فرضھا رسول اللہ ﷺ علی المسلمین فمن سلمھا من المومنین علی وجھھا فلیعطھا ومن سئل فوقھا فلا یعطہ صدقۃ الغم فی مائمتھا اذا انت اربعین فیھا شاۃ یہ فریضہ زکوٰۃ ہے جسے اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کردیا ہے، جو شخص مسلمانوں سے زکوٰۃ کی درست مقدار طلب کرے اسے زکوٰۃ ادا کردی جائے اور جو شخص اس سے زائد کا مطالبہ کرے اسے زکوٰۃ نہ دی جائے ، بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ جب ان کی تعداد چالیس کو پہنچ جائے اور وہ چرنے والی ہوں ، ایک بکری ہے۔ اس روایت میں حضور ﷺ نے نہ چرنے والی بھیڑ بکریوں میں زکوٰۃ کی نفی کردی اس لیے کہ آپ نے چرنے والیوں کا ذکرکر کے دوسری تمام سے زکوٰۃ کی نفی فرما دی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ فی خمس من الابل شاۃ پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ اس کا عموم ہے چرنے والے اور نہ چرنے والے تمام اونٹوں میں زکوٰۃ کا موجب ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس عموم کی تخصیص ان روایات سے ہوجای ہے جو ہم پہلے ذکر آ ئے ہیں ، لیکن کام کرنے والی گایوں میں زکوٰۃ کے وجوب کا امام مالک سے پہلے کسی نے بھی قول نقل نہیں کیا ہے۔ فصل ہمارے اصحاب اور عام اہل علم کا قول ہے کہ چالیس بڑی چھوٹی بکریوں میں یعنی سال بھر کی اور سال سے کم میں ایک مسنہ یعنی پورے سال کی بکری واجب ہوگی ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک سال بھر کی بکریاں چالیس نہ ہوجائیں ۔ اس وقت تک ان میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی، چالیس کی تعداد پوری ہوجانے کے بعد چھوٹی بکریوں کا ان کے ساتھ شمار کیا جائے گا ۔ امام شافعی سے پہلے کسی کا یہ قول نہیں ہے۔ عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے مویشیوں کی زکوٰۃ کے متعلق روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے فرمایا ویعد صغیرھا و کبیر ھا اور صدقہ وصول کرنے والا چھوٹی بڑی تمام بکریوں کی گنتی کرے گا آپ نے اس قول میں نصاب اور نصاب سے زائد بکریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔ نیز حضور ﷺ سے آثار مواترہ منقول ہیں کہ چالیس بکریوں میں ایک بکری ہے ۔ جب چھوٹی بڑی بکریاں اکٹھی ہوجائیں تو تمام پر اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور اس وقت کہا جاتا ہے کہ چالیس بکریاں ہوگئیں ۔ یہ چیز چھوٹی بڑی تمام بکریوں میں جب یہ اکٹھی ہوجائیں ، زکوٰۃ کے وجوب کی مقتضی ہے ۔ نیز نصاب کی تکمیل کے بعد بڑی بکریوں کے ساتھ چھوٹی بکریوں کو شمار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اسی طرح نصاب کے حکم میں بھی چھوٹی بڑی بکریوں کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ کیا گھوڑوں پر زکوٰۃ ہے ؟ چرنے والے گھوڑوں کی زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ اگر صرف گھوڑیاں ہوں یا گھوڑے گھوڑیاں ہوں تو اس صورت میں امام ابوحنیفہ نے ہر ایک گھوڑے گھوڑی پر ایک دینار زکوٰۃ واجب کردی ہے، اگر مالک چاہے تو ان کی قیمت لگا کر ہر دو سو درہم پر پانچ درہم زکوٰۃ نکال دے۔ امام ابو یوسف امام مالک ، امام شافعی اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ گھوڑوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، عروہ السعدی نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضر ت جابر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے چرنے والے گھوڑوں کے متعلق روایت کی ہے کہ ہر گھوڑے پر ایک دینار زکوٰۃ ہے ۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے ابو صالح الستمان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے گھوڑوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاھی ثلاثۃ لرجل اجر والاخر سترو علی رجل وزرفا ماالذیھی لہ ستر فالرجل یتخذھا تکرما ً وتجملا ً ولا ینسی حق اللہ فی رقابھا ولا فی ظھورھا ۔ گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں ، یہ ایک شخص کے لیے اجر کا باعث بنتے ہیں اور دوسرے شخص کے لیے پردہ پوشی کا اور تیسرے کے لیے گناہ کا بوجھ ہوتے ہیں جس شخص کے یہ پردہ پوش بنتے ہیں یہ وہ شخص ہے جو انہیں عزت و زینت کی خاطر پالتا ہے اور ان کی گردنوں ، نیز پیٹھوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولتا ۔ حضور ﷺ نے گھوڑوں میں ایک حق کا اثبات فرما دیا پھر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃکے سوا تمام حقوق کا اسقاط ہوگیا ہے، اس سے ضروری ہوگیا کہ حدیث میں مذکورہ حق سے صدقہ السوائم یعنی چرنے والے گھوڑوں کی زکوٰۃ مراد لی جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے اس سے تجارت کی زکوٰۃ مراد لی ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے جب گھوڑوں کا ذکر کیا تو آپ سے گدھوں کی زکوٰۃ کے متعلق پوچھا گیا ، آپ نے ارشاد فرمایا : گدھوں کے بارے میں اللہ نے مجھ پر اس جامع آیت کے سوا اور کوئی آیت نازل نہیں کی ۔ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا ً یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا ً یرہ، جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا آپ نے گدھوں پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں کی اگر اس پوری حدیث میں تجارت کی زکوٰۃ مراد ہوتی تو آپ تجارت کی غرض سے رکھے گئے گدھوں پر بھی زکوٰۃ واجب کردیتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مال میں زکوٰہ کے سوا اور بھی حقوق ہوتے ہیں ، اس لیے ہوسکتا ہے کہ درج بالاحدیث میں آپ نے زکوٰۃ کے سوا کوئی اور حق مراد لیا ہو ، اس کی دلیل شعبی کی روایت ہے جو انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے نقل کی ہے، انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا فی المال حق سوی الزکوۃ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے اس موقعہ پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لیس البر ان تولوا وجوھکم تا آخر آیت۔ سفیان نے ابو لزبیر سے روایت کی ہے انہوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے اونٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اونٹوں میں حق ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ سے اس حق کی تفسیر پوچھی گئی آپ نے فرمایا اطواق فعلھا واعارۃ دلوھا و منیحۃ سمیھا ۔ سانڈ کے ساتھ جفتی کرانے کی اجازت دینا ، پانی لانے کے لیے اونٹ مع ڈول عاریۃ ً دے دینا اور سواری کے لیے پلا ہوا اونٹ دے دینا ۔ ہوسکتا ہے کہ گھوڑوں کے سلسلے میں زکوٰۃ حق سے اس قس کا حق مراد ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر بات اس طرح ہوتی تو گھوڑوں اور گدھوں کے حکم میں کوئی فرق نہ ہوتا اس لیے کہ اس حق کے لحاظ سے گھوڑے اور گدھے ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں ، لیکن جب حضور ﷺ نے ان دونوں میں فرق کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آپ نے معترض کے بیان کردہ مفہوم کا ارادہ نہیں کیا بلکہ اس سے آپ نے زکوٰۃ مراد لی ہے ۔ علاوہ ازیں آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ زکوٰۃ نے ہر واجب حق کو منسوخ کردیا ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن اسحاق التستری نے ، انہیں علی بن سعید نے انہیں المسیب نے شریک نے عبید المکتب سے ، انہوں نے عامر سے ، انہوں نے مسرق سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے زکوٰۃ نے ہر صدقہ منسوخ کردیا ہے ، نیز یہ بھی مروی ہے کہ اہل شام نے حضرت عمر ؓ سے ان کے گھوڑوں کا صدقہ وصول کرنے کی درخواست کی ، آپ نے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا ، حضرت علی ؓ نے مشورہ دیا کہ ان سے صدقہ کی وصولی میں کوئی خرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ جزیہ نہ بن جائے ، چناچہ حضرت عمر ؓ نے اہل شام سے گھوڑوں کا صدقہ وصول کیا ۔ یہ بات ا س پر دلالت کرتی ہے کہ گھوڑوں کے صدقہ پر صحابہ کرام کا اتفاق ہوگیا تھا ، اس لیے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے اس بارے میں مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کیا تھا اور یہ بات واضح ہے کہ آپ نے ان سے نفلی صدقہ کے متعلق مشورہ نہیں لیا ہوگا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان سے واجب صدقہ یعنی زکوٰۃ کی وصولی کی تھی اور صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا تھا ۔ حضرت علی ؓ نے اس موقع پر یہ کہا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں جب تک یہ ان پر جزیہ نہ بن جائے ۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل شام سے اس کی وصولی صغار یعنی تذلیل و تحقیر کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ صدقہ کے طور پر ہوتی۔ جو حضرات گھوڑوں کی زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں وہ حضرت علی ؓ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں جو انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا عفوت لکم عن صدقۃ الخیل والرقیق ۔ میں نے تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف ک دی نیز ان کا استدلال حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لیس علی المسلم فی عبدہ ولا فی فرسہ صدقۃ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے سواری کے گھوڑے مراد ہیں ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ گھوڑے اگر تجارت کی غرض سے پالے گئے ہوں تو اس روایت کی بنا پر ان کی زکوٰۃ کی نفی نہیں ہوئی۔ شہد کی زکوٰۃ شہد کی زکوٰۃ میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنفیہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور اوزاعی کا قول ہے کہ اگر شعد عشری زمین میں ہو تو عشر وصول کیا جائے گا ۔ امام مالک ، سفیان ثوری ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ شہد میں کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ، لیکن یہ روایت بھی ہے کہ انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا اور جب صحیح صورت حال ان کے سامنے آئی اور اس کے متعلق روایات کا پتہ چل گیا تو انہوں نے دسواں حصہ وصول کرنے کا حکم دے دیا ۔ ابن وہب نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ شہد میں عشر ہے۔ ابن وہب نے کہا کہ مجھے عمرو بن الحارث نے یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے یہ روایت سنائی ہے یحییٰ کہتے ہیں کہ کہنے والے سے انہوں نے یہ سنا ہے کہ شہد میں ہر سال دسواں حصہ ہے اور اس سلسلے میں یہی سنت چلی آرہی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری خذ من اموالھم صدقۃ ۔ ان کے اموال سے صدقہ وصول کرو۔ شہد میں صدقہ واجب کرتا ہے ، کیونکہ شہد بھی ایک شخص کی مال میں شامل ہے۔ صدقہ کا لفظ اگرچہ مجمل ہے ، لیکن آیت بہر حال کسی نے کسی قسم کے صدقہ کے ایجاب کی مقتضی ہے ، جب صدقہ کا وجوب ہوگیا تو یہ صرف عشر کی صورت میں ہوگا ۔ اس لیے کہ شہد میں عشر کے سوا کوئی اور چیز واجب نہیں ہوتی۔ سنت کی جہت سے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ۔ انہیں ابو ائود نے ، انہیں احمد بن ابی شعیب حرانی نے ، انہیں موسیٰ بن اعین نے ، عمرو بن الحارث المصری سے ، انہوں نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ بنی متعان کا ایک شخص ہلال حضور ﷺ کی خدمت میں شہد کی پیداوا کا دسواں حصہ لے کر آیا اور آپ سے درخواست کی کہ شہد کے چھتوں والی اس کی وادی سلبہ کو اس کے لیے مختص کردیا جائے چناچہ آپ نے یہ وادی اس کے نام مختص کردی ۔ جب حضرت عمر ؓ نے خلافت کی باگ اپنے ہاتھ میں لی تو سفیان بن وہب نے آپ سے تحریر طور پر اس وادی کے متعلق استفسار کیا ۔ آپ نے جوابا ً تحریر فرمایا کہ ہلال حضور ﷺ کے زمانے میں اپنی پیداوار کا جو عشر اد ا کرتے تھے۔ وہی عشر اب تمہیں ادا کریں گے ۔ تم وادی سلبہ ان کے نام مختص رکھو ، ورنہ شہد کی یہ مکھیاں بارش کی پیداوار ہیں یعنی انہوں نے بارش کی بنا پر پیدا ہونے والے پھولوں اور پھلوں کا رس چوسا ہے۔ اس لیے ان کا بنایا شہد جو چاہے کھا سکتا ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے انہیں وکیع نے سعید بن عبد العزیز سے ، انہوں نے سلیمان بنی موسیٰ سے ، اور انہوں نے ابو سیارہ المتعی سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! میرے کچھ شہد کے چھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : پھر عشر ادا کرو “ ۔ میں نے عرض کیا : پھر میرے لیے اسے مختصر کر دیجئے ۔ چناچہ آپ نے میرے لیے اسے مختص کردیا۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں محمد بن شادان نے انہیں معلی نے ، انہیں عبد اللہ بن عمرو نے عبد الکریم سے ، انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمر بن عبد العزیز نے لکھا کہ ہم شہد کی زکوٰۃ ادا کریں یعنی دسواں حصہ ، انہوں نے زکوٰۃ کے اس حکم کو حضور ﷺ کی طرف منسوب کیا تھا۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں مسجد اہواز کے امام محمد بن یعقوب نے ، انہیں عمر بن الخطاب سجستانی نے ، انہیں ابوحفص العبدی نے ، انہیں صدقہ نے ، موسیٰ بن یسار سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا فی کل عشرۃ اذقاق من العسل زق ۔ شہد کے ہر دس مشکیزوں میں ایک مشکیزہ ہے ۔ یعنی ایک مشکیزہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے گا ۔ جب حضور ﷺ نے شہد میں دسواں حصہ واجب کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ آپ نے شہد کو پھلوں اور زمین سے پیدا ہونے والی ان اشیاء کی حیثیت دی جن میں عشر واجب ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب شہد عشری زمین میں پیدا ہوا ہو گا تو اس میں دسواں حصہ واجب ہوگا لیکن اگر یہ خرابی زمین میں پیدا ہوا ہو گا تو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی ۔ اس لیے کہ خراجی زمین پیدا ہونے والے پھلوں میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ہی پھل عشری زمین میں پیدا ہوئے ہوں تو ان میں دسواں حصہ واجب ہوجائے گا ۔ شہد کا بھی یہی حکم ہے۔ ہم نے ابو جعفر الطحاوی کی کتاب المختصر کی شرح میں زکوٰۃ کے سلسلے میں ان مسائل پر نیز ان کے نظائر پر میہ حاصل بحث کی ہے۔ یہاں ہم نے صران چند مسائل کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ ظاہر آیت کے حکم کا تعلق ہے۔ صدقات کی وصولی امام المسلمین کا حق ہے قول باری خذ من الموالھم صدقۃ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدقات کی وصولی امام المسلمین کا حق ہے ، اب بنا پر زکوٰہ ادا کرنے والا شخص اگر امام المسلمین کو اس کی ادائیگی کی بجائے از خود فقراء و مساکین کو دے دے گا تو زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی اس لیے کہ اس صورت میں زکوٰۃ کے اندر امام المسلمین کا حق باقی رہے گا اور اس شخص کے لیے اس حق کو ساقط کردینے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ حضور ﷺ مویشیوں کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عمال یعنی اہل کا دردانہ کرتے اور انہیں یہ حکم دیتے کہ چشموں پر جا کر جہاں مویشی موجود ہوتے ہیں ان کی زکوٰۃ وصولی کریں ۔ یہی وہ امر ہے جس کی حضور ﷺ نے وفد ثقیف پر شرط عائد کی تھی ۔ شرط کے الفاظ یہ تھے ۔ لا یحشر وا ولا یعشروا یعنی انہیں اپنے مویشی صدقات وصول کرنے والے کے سامنے پیش کرنے کی تکلیف نہیں دی جائے گی بلکہ محصل یعنی زکوٰۃکے جانو ر اکٹھے کرنے والا خود ان مقامات پر چشموں کا چکر لگائے گا جہاں ان مویشیوں کی موجودگی کا اسے گمان ہو اور وہاں پہنچ کر زکوٰۃ وصول کرے گا ۔ پھلوں کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھی یہی طریق کار ہے۔ جہاں تک اموال کا زکوٰۃ کا تعلق تھا تو اسے خود حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچایا جاتا تھا۔ تو اسے خود حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچایا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ اور حضر ت عمر ؓ کے عہد خلافت میں بھی یہی طریق کار جاری رہا ۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے اپنے عہد خلافت میں ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ۔ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے ، جس شخص کے ذمے قرض ہو وہ اپنا قرض ادا کر دے اور پھر باقی ماندہ رقم کی زکوٰۃ نکال دے۔ آپ نے لوگوں پر مساکین کو اپنی اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری ڈال دی اور اس بناء پر اموال کی زکوٰۃ میں امام المسلمین کی وصولی کا حق ساقط ہوگیا ۔ اس لیے کہ ایک عادل امام یعنی حضرت عثمان ؓ نے وصولی کے اس حق کے اسقاط کا عقد کیا تھا اور اس سلسلے میں حکم جاری کیا تھا اس لیے پوری امت پر اس حکم کا نفاذ ہوگا، کیونکہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے یعقد علیھم اولھم وہ مسلمانوں کے حق میں یا ان پر عائد ہونے والی ذمہ داری کا عقد کرسکتا ہے نیز ہمیں اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں پہنچی کہ حضور ﷺ اموال کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے کارندے بھیجا کرتے تھے جس طرح پھلوں اور مویشوں کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھیجتے تھے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ لوگوں کے تمام اموال امام المسلمین کے لیے ظاہر نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ انہیں مکانوں ، دکانوں اور محفوظ مقامات میں چھپا کے رکھا جاتا تھا۔ دوسری طرف زکوٰۃ وصول کرنے والے کارندوں کو ان مقامات میں داخل ہونے کی اجاز ت نہیں ہوتی نیز ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہوتا کہ لوگوں کو اپنے تمام اموال پیش کرنے پر مجبور کریں جس طرح تمام مویشیوں کو پیش کرنے پر مجبور کرنا جائز نہیں ، بلکہ کارندے کے لیے صرف اس بات کی گنجائش ہوتی کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائے جہاں مال موجود ہو اور جا کر اس کی زکوٰۃ وصول کرلے۔ انہی رکاوٹوں کی بنا پر حضور ﷺ نے اموال کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے کارندے اور عمال نہیں بھیجے۔ لوگ اپنی اپنی زکوٰۃ آپ کی خدمت میں خود پہنچا دیتے تھے۔ بعد میں بھی امام المسلمین کو یہ زکوٰۃ اسی طرح پہنچا دی جاتی تھی اور اپنی زکوٰۃ کے بارے میں ہر شخص کا قول قبول کرلیا جاتا تھا۔ پھر جب یہ اموال تجارت اور لین دین نیز دیگر تصرفات کے سلسلے میں گھروں سے نکل کر کھلے بازاروں اور شہروں میں آ گئے اور اس طرح ظاہرہو گئے تو ان کی مشابہت مویشوں کے ساتھ ہوگئی اور پھر ان پر عمال مقرر کردیئے گئے جو ان میں واجب ہونے والی زکوٰۃ وصول کرلیا کرتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عمرو بن عبد العزیز نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ جو مسلمان تجارتی مال لے کر گزرے تو ہر بیس دینار کی قیمت والے سامان کی نصف دینار زکوٰۃ وصول کرلیں ۔ اور اگر اتنی ہی مالیت کا سامان ذمی لے کر گزرے تو اس سے ایک دینار وصول کریں ۔ اس وصولی کے بعد سال بھر تک اس سے دوبارہ وصولی نہ کی جائے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے اس حکم کی دلیل کے طور پر عمال کو یہ لکھا تھا کہ مجھے اس حکم کے متعلق ان حضرات نے بتایا ہے جنہوں نے حضور ﷺ سے اسے سنا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ مسلمانوں سے ربع عشر یعنی چالیسواں حصہ اور ذمی سے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ اور حربی سے دسواں حصہ وصول کریں ۔ اس سلسلے میں مسلمانوں سے جو مال وصول کیا جائے گا اس کی حیثیت فریضہ زکوٰۃ کی ہوگی اس لیے اس میں زکوٰۃ کے وجوب کی تمام شرطوں مثلاً تکمیل نصاب ، حولان حول ، ملکیت کی صحت وغیرہ کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اگر ان شرطوں کی روشنی میں اس زکوٰۃ واجب نہ ہوتی ہو تو ایسے شخص سے کسی قسم کی وصولی نہ کی جائے گی ۔ حضرت عمر ؓ نے اس سلسلے میں وہ طریق کار اختیا ر کیا تھا جو حضور ﷺ نے مویشوں کی زکوٰۃ اور پھلوں نیز فصلوں کے عشر کی وصولی کے سلسلے میں اختیار فرمایا تھا، کیونکہ مویشوں ، پھلوں اور فصلوں کی طرح ان اموال کی حیثیت بھی اموال طاہر ہ جیسی ہوگئی تھی اور انہیں دارالسلام میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا اور تجارت وغیرہ کی غرض سے لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ کے اس طریق کار کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے آپ کو ٹوکا اس طرح اس پر گویا اجماع ہوگیا اس کے ساتھ حضور ﷺ سے وہ روایت بھی موجود تھی جس کا ذکر حضرت عمر بن عبد العزیز نے حکام کے نام اپنے گشتی مراسلے میں کیا تھا۔ درج بالا سطور میں ہم اس کا حوالہ دے آئے ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے کہ عطاء بن السائب جریر بن عبد اللہ سے، انہوں نے اپنے دادا ابو امہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لیس علی المسلمین عشور ازما العشور علی اھل الذمۃ مسلمانوں پر عشر نہیں ہوتا ، عشر تو اہل ذمہ پر عائد ہوتا ہے۔ حمید نے حسن سے ، انہوں نے عثمان بن ابو العاص سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ثقیف کے وفد سے فرمایا تھا لا تحشروا ولا تعشروا نہ تو تم اپنے مویشی اکٹھے کرو گے اور نہ ہی عشر ادا کرو گے۔ محصو ل چنگی کی ممانعت اسرائیل نے ابراہیم بن المہاجر سے روایت کی ہے انہوں نے عمرو بن حریث سے ، انہوں نے حضرت سعید بن زید سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا یامعشرالعرب ! احمد واللہ اذدفع عنکم العشور ، اے اہل عرب ! اللہ کی اس بنا پر حمد و ثنا کرو اور شکر بجالائو کہ اس نے تم سے عشر اٹھا لیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق مسلم بن یسار نے حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ آیا حضرت عمر ؓ مسلمانوں سے عشر وصول کیا کرتے تھے ؟ حضرت ابن عمر ؓ نے اس کا جواب نفی میں دیا ۔ اس پورے اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشادات بالا میں جن عشور کا ذکر کیا ہے ان سے زکوٰۃ مراد نہیں ہے بلکہ ان سے مراد وہ محصول اور چنگی ہے جو اہل جاہلیت وصول کیا کرتے تھے۔ محمد بن اسحاق نے یزید بن ابی حبیب سے ، انہوں نے عبد الرحمن بن شمامہ سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عام ؓ سے جو روایت کی ہے اس میں بھی یہ مکس یعنی محصول اور چنگی مراد ہے ، اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (چنگی اور محصول یعنی دسواں حصہ وصول کرنے والا جنت میں نہیں داخل ہوگا) درج ذیل شعر میں بھی شاعر نے یہی معنی مراد لینے ہیں۔ وفی کل امموال العراق اتاوۃ وفی کل ما باع امرء مکس درہم عراق کے تمام اموال میں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور انسان جو چیز بھی فروخت کرتا ہے اس میں اسے ایک درہم چنگی اور محصول کے طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح حضور ﷺ نے جس عشر کی ممانعت کردی ہے یہ وہ دسواں حصہ ہے جو چنگی اور محصول کے طور پر اہل جاہلیت وصول کرتے تھے ، لیکن جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے اس کی حیثیت ٹیکس یا محصول جیسی نہیں ہے۔ وہ تو ایک حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے والے کے مال میں واجب ہوجاتا ہے جسے امام المسلمین اس سے وصول کر کے مستحقین میں تقسیم کردیتا ہے جس طرح امام المسلمین مویشیوں کی زکوٰۃ نیز زمین کی پیداوار کا عشر اور خراج وصول کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضور ﷺ نے مسلمانوں سے جس عشر کی وصولی کی ممانعت کی ہے اس سے مراد وہ مال ہو جو ان سے جزیہ کے طور پر نیز ان کی ذلیل و تحقیر کی بنا پر وصول کیا جائے اسی لیے آپ نے فرمای انما العثور علی اھل الذمۃ عشور صرف اہل ذمہ پر عائد ہوتے ہیں اس سے آپ کی مراد وہ مال ہے جو جزیہ کے طور پر وصول کیا جاتا ہے۔ مویشیوں اور مال کی زکوٰۃ کا فرق بعض حضرات نے مویشیوں اور فصلوں کی زکوٰۃ اور اموال کی زکوٰۃ کے درمیان فرق بیان کرنے کے لیے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے سلسلے میں فرمایا واتوا الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو اور اس میں امام المسلمین کی طرف سے وصولی کی شرط عائد نہیں کی لیکن صدقات کے بارے میں فرمایا ۔ خذمن اموالھم صدقۃ تطھرھم ان کے اموال سے صدقہ وصول کرو جس کے ذریعے انہیں پاک کرو نیز فرمایا انما الصدقات للفقراء والمساکین صدقات تو فقراء اور مساکین کے لیے ہیں تا قول باری والعاملین علیھا اور صدقات کی وصولی کا کام کرنے والوں کے لیے انت صدقات کی وصولی پر عامل اور کارندے کا تقرر اس پر دلالت کرتا ہے ان کی وصولی پر امام المسلمین کے حق کا اسقاط کسی طرح جائز نہیں ہے نیزحضور ﷺ کا ارشاد ہے امرت ان اخذ الصدقۃ من اغنیاء کم اردھا فی فقراء کم مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے دولت مندوں سے صدقات وصول کر کے تمہارے فقراء کے درمیان تقسیم کر دوں اللہ تعالیٰ نے صدقات میں وصولی کی شرط عائد کردی لیکن اموال کی زکوٰۃ میں اس شرط کا ذکر نہیں کیا ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے ان کے نزدیک اگرچہ زکوٰۃ بھی صدقہ ہے لیکن زکوٰۃ کا اسم صدقہ سے زیادہ خاص ہے اور صدقہ کا اسم مویشیوں وغیرہ کی زکوٰۃ کے ساتھ خاص ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو ادائیگی کے لفظ کے ساتھ خاص کردیا اور فرمایا واتوا الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو ۔ امام کی طرف سے وصولی کا کوئی ذکر نہیں کیا دوسری طرف صدقہ کی وصولی کا حکم امام المسلمین کو دیاتو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری زکوٰ ۃ ادا کرنے والوں پر عائد کردی جائے ، البتہ اتفاق سلف کی بنا پر جو مسلمان سامان تجارت وغیرہ لے کر کہیں سے گزرے گا اس سے مقامی حکام دسواں حصہ وصول کرلیں گے، جبکہ صدقات کی وصولی کا حق امام المسلمین کو حاصل رہے ۔ زکوٰۃ وصول کرنے والا دعائے خیر کہے قول باری ہے وصل علیھم ان صلاتک سکن لھم اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی ۔ شعبہ نے عمرو بن مرہ سے اور انہوں نے حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص حضور ﷺ کی خدمت میں اپنے مال کا صدقہ لے کر آتا تو آپ اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ۔ ابن ابی اوفی ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دعا کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے اللھم صلی علی ال ابی اوفی ۔ اے اللہ ! ابی اوفی کی آل پر اپنی رحمت بھیج ثابت بن قیس نے خارجہ بن اسحاق سے انہوں نے عبد الرحمن بن جائز سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں کے پاس کچھ ایسے سوار زکوٰۃ وصول کرنے والے آئیں گے جو تمہارے لیے زیادہ پسندیدہ نہیں ہونگے اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں خوش آمدید کہو اور جس زکوٰۃ کا وہ مطالبہ کریں اسے ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالو ، اگر وہ زکوٰۃ کی وصولی میں تم سے انصاف کریں گے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوگی اور اگر ظلم کریں گے تو یہ بات ان کے خلاف جائے گی ، تا ہم تم انہیں ضرور راضی کر دو اس لیے کہ ان کا خوش ہوجانا تمہاری زکوٰۃ کی تکمیل ہے۔ انہیں بھی چاہیے کہ زکوٰۃ کی وصولی کے بعد وہ تمہارے لیے دعا کریں ۔ سلمہ بن بشیر نے روایت بیان کی ہے، انہیں النجتری نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ جب تم زکوٰۃ ادا کرو تو اس کے ثواب کو فراموش نہ کرنا ۔ صحابہ نے عرض کیا : اس کا ثواب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ زکوٰۃ دیتے وقت یہ دعا کرے اللھم اجعلھا مغنما ولا تجعلھا مغرما ًاے اللہ ! اس زکوٰۃ کی غنیمت بنا دے اسے جرمانہ نہ بنا یہ تمام روایات اسی پر دلالت کرتی ہیں کہ قول باری وصل علیھم سے دعامراد ہے۔ قول باری تسکن لھم سے مراد ۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ وہ امر ہے جو ان کے لیے وجہ تسکین ہے اور جسکی بنا پر ان کے دلوں میں فرحت اور خوشی پیدا ہوجائے اور اس کے نتیجے میں وہ اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی رغبت اور حضور ﷺ کی دعا کی برکت کے حصول کی خاطر صدقات واجبہ کی ادائیگی میں سرعت سے کام لیں ۔ صدقات وصول کرنے والے کو بھی یہی طریق کار اختیار کرنا چاہیے کہ جب صدقہ وصول کرلے تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں صدقہ دینے والے کے دعائے خیر کرے۔
Top