Kashf-ur-Rahman - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اے نبی اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ نے اس سے پیشتر کہ آپ کو سچ بولنے والے ظاہر ہوجاتے اور آپ جھوٹ بولنے والوں کو جان لیتے ان کو رہ جانے کی اجازت کیوں دی۔
43 اے پیغمبر ﷺ ! اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان کو رخصت دینے میں جلدی کیوں کی اور آپ نے اس سے پیشتر کہ آپ کو سچ بولنے والے اور سچے لوگ ظاہرہوجاتے اور آپ جھوٹوں اور جھوٹ بولنے والوں کو جان لیتے ان کو رہ جانے کی اجازت کیوں دی۔ غزوئہ تبوک کا اعلان ہونے پر منافقوں نے طرح طرح کے بہانے بنانے شروع کئے جب کوئی منافق جھوٹا بہانا بناکر پیش کرتا تو آپ ﷺ اس کو مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دے دیتے۔ اس پر فرمایا کہ اجازت دینے میں تعجیل سے کیوں کام لیا اگر آپ جلدی نہ کرتے تو جھوٹوں کا جھوٹ اور سچوں کا سچ ظاہر ہوجاتا۔ یہ ایک خلاف اولی اور نامناسب کام ہوا اس پر تنبیہہ فرمائی لیکن تنبیہہ سے پہلے معافی کا اظہار کردیا تاکہ پیغمبر کو تکلیف نہ ہو اگرچہ وہ لوگ جہاد میں لے جانے کے قابل نہ تھے مگر اجازت دینے میں جلدی نہ کرنی چاہئے تھی۔
Top