Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اور اگر ایک مدت معین تک ہم ان سے عذاب روک دیں تو کہیں گے کہ کون سی چیز عذاب کو روکے ہوئے ہے۔ دیکھو جس روز ان پر واقع ہوگا (پھر) ٹلنے کا نہیں اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزأ کیا کرتے ہیں وہ ان کو گھیر لے گی۔
8۔ اوپر حشر کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کہ اگر تم ان مشرکوں سے یہ بات کہہ گے کہ مرنے کے بعد خدا پھر تمہیں زندہ کرے گا تو یہ لوگ اس کو جادو ٹھہرائیں گے باوجود اس بات کہ انہیں خوب معلوم ہے کہ آسمان اور زمین چاند سورج سب کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے۔ لیکن یہ لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں حالانکہ بغیر نمونہ کے پہلے پہل ہر چیز کا بنانا مشکل ہے دوبارہ اس کا بنانا کوئی مشکل نہیں ہے ان کا یہ کہنا کہ یہ تو جادو کی باتیں ہیں محض کفر کی راہ سے ہے۔ پھر فرمایا کہ باوجود کلام اللہ کے جھٹلانے کے ہم جو ان لوگوں پر عذاب نہیں بھیجتے ڈھیل دے رکھی ہے اس کو تعجب اور مسخرا پن سے وہ یوں کہتے ہیں کہ عذاب میں دیر کیوں لگا رکھی ہے کیوں نہیں نازل ہو چکتا اس پر فرمایا کہ جس روز عذاب آجائے گا تو کسی کے ٹالے بھی نہیں ٹلنے کا ہے اور ان کی یہ ہنسی اور مسخرا پن سب دھرے رہ جائیں گے۔ عذاب کی جلدی جو مسخرا پن سے کرتے تھے اور حشر کو جھٹلاتے تھے یہ مشرکین مکہ میں وہ بڑے بڑے سردار تھے جن کا دین و دنیا کا جو کچھ انجام ہو اور صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی روایت سے گزر چکا کہ بدر کی لڑائی میں یہ لوگ مارے گئے اور تین دن تک بےگور و کفن ان کی لاشیں پڑی رہیں اور پھر ان لاشوں کو کھینچ کر ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا 1 ؎ یہ تو ان لوگوں کی سرکشی کی سزا دنیا میں ہوئی ان کا عذاب آخرت کا حال جتلانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کے وعدہ کو سچا پایا حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو ارشاد تھا کہ اب تو یہ لوگ مسخراپن سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں لیکن جب اپنے وقت پر عذاب آجاوے گا تو پھر ٹالے نہیں ٹلے گا۔ انس بن مالک ؓ کی اس روایت سے اس کی تغیر اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے حشر کی آیتوں کو مشرکین مکہ جادو جو کہتے تھے اس سے ان کا یہ مطلب تھا کہ جس طرح جادو کی باتیں خلاف عقل ہوتی ہیں اسی طرح کی یہ حشر کی باتیں بھی ہیں۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 566 ج 2 باب قتل ابی جہل۔
Top