Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا کہ تم نے آپس میں خونریزی نہیں کرنی، اور نہ ایک دوسرے کو اپنے گھروں سے نکالنا ہے، پھر تم خود (اس عہد کا) اقرار بھی کیا، اور تم خود اس پر شہادت (اور گواہی) بھی دیتے ہو،1
238 دوسروں پر زیادتی خود اپنے اوپر زیادتی ہے : یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو، اور اپنے ہم مذہب بھائیوں کو، ان کے گھروں سے نہیں نکالنا مگر اس کو یہاں پر تعبیر " اَنْفُسَکُمْ " کے الفاظ سے فرمایا گیا ہے کہ تم خود اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نہیں نکالنا، سو اس میں بڑی بلاغت اور معنویت ہے، کہ اس سے یہ عظیم الشان درس ملتا ہے کہ اپنے بھائیوں کو ان کے گھروں سے نکالنا گویا خود اپنے آپ ہی کو نکالنا ہے۔ ایک تو اس لئے کہ تمہارے بھائی تم ہی میں سے ہیں " بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ " کہ تم سب آپس میں ایک ہی جسم کی حیثیت رکھتے ہو۔ تو ان کو نکالنا گویا خود اپنے آپ کو نکالنا ہے، اور دوسرے اس لئے کہ اس طرح جب گھروں سے نکالنے کا یہ راستہ کھل گیا اور یہ ریت چل پڑی تو جس طرح آج تم نے ان کو نکالا ہے، کل وہ تمہیں نکالیں گے، تو گویا تم نے خود ہی اپنے آپ کو نکال باہر کیا، کہ یہ خود تمہارے اپنے کیے کا بدلہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 239 یہود کی عہد شکنی انکے اقرار کے باوجود : ۔ سو یہود نے خود گواہی دینے اور اپنے قول وقرار کا عہد کرنے کے باوجود عہد شکنی کے جرم کا ارتکاب کیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ یعنی تم اس پر خود گواہی دے رہے ہو کہ واقعی ہمارے بڑوں نے ایسے کیا تھا یعنی تمہیں اپنے اس عہد و پیمان سے انکار نہیں، بلکہ تم اس کو اور اس کی ذمہ داریوں کو مانتے اور تسلیم کرتے ہو، " مدینہ منورہ " میں مشرکین کے دو بڑے قبیلے آباد تھے۔ " اوس " اور " خزرج "۔ جن کی آپس میں ہمیشہ جنگ اور خونریزی چلتی رہتی تھی، تاآنکہ اسلام کی رحمتوں بھری اور انقلاب آفریں تعلیمات مقدسہ نے آ کر ان کو باہم شیر و شکر کردیا، ادھر یہود کے بھی مدینہ طیبہ میں دو بڑے قبیلے آباد تھے " بنو قریظہ " اور " بنونضیر " اپنی مشہور و معروف شر انگیزی اور فطری سازشی مزاج کے علاوہ یہود چونکہ وہاں پر اقلیت کی حیثیت میں رہتے تھے اس لئے بھی انہوں نے مشرکین کے ان دو قبیلوں کے ساتھ محبت و دوستی کی پینگیں بڑھائیں، اور ان کے ساتھ وہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ چناچہ بنوقریظہ اوس کے حلیف اور دوست بن گئے، اور بنو نضیر خزرج کے۔ اور جب ان دونوں کے درمیان جنگ ہوتی تو یہ بھی اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر باہم لڑتے اور آپس میں ایک دوسرے کے قتل و خونریزی کا ارتکاب کرتے اور ایک دوسرے کو جلا وطن کرتے، مگر جب کوئی یہودی گرفتار ہو کر اور قیدی بن کر آتا، تو یہ سب مل کر روپیہ پیسہ جمع کرتے، اور پھر زر فدیہ ادا کر کے اسے چھڑا دیتے، اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے، کہ جب ہمارا کوئی ہم مذہب بھائی قید ہوجائے، تو اس کو فدیہ دے کر چھڑانا ہم پر واجب ہے۔ جنگ اور باہمی قتل و خون ریزی تو وقت کا تقاضا، اور دنیوی مصلحت و ضرورت وغیرہ وغیرہ، سو ان آیات کریمہ میں ان کے اسی کردار و عمل پر تبصرہ فرما کر ان کے ضمیر کو جھنجوڑا گیا ہے، مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، وہ بھی جگہ جگہ اور طرح طرح سے آپس کے سر پھٹول، اور قتل و خونریزی، میں ملوث و مبتلا ہیں، یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے مل کر اپنے بھائیوں کو قتل کرانے کے مظاہر بھی جابجا موجود ہیں، جسکو دیکھ کر ایک درد مند انسان کی نگاہیں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دین حق کی پیروی نہیں بلکہ خواہشات نفس کی پیروی ہے، اور ظن و گمان کے پیچھے چلنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
Top