Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور پھر جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کا خون مت بہاؤ اور اپنے لوگوں کو جلا وطن مت کرو ، تم نے اقرار کیا اور تم اس اقرار کی خود گواہی بھی دیتے ہو
بنی اسرائیل کے عہد و پیمان میں درج ذیل تین باتیں بھی تھیں : 166: علاوہ وہ ان وعدوں کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تین باتیں اور بھی ان باتوں میں شامل تھیں اور بنی اسرائیل نے ان تینوں باتوں کا بھی اقرار کیا تھا مگر ان کو بھی حسب سابق پورا نہ کرسکے۔ ان میں سے ایک عہد یہ تھا کہ خانہ جنگی کر کے باہم خونریزی نہ کرنا کہ اس سے تمہاری اجتماعی قوت کو نقصان پہنچے گا ، اور اس سے حیات قومی فنا ہوگی۔ دوسرا عہد یہ تھا کہ اپنے لوگوں کو ترک و طن پر مجبور نہ کرنا کہ ادھر تو تمہاری جماعت روز بروز کم ہوتی جائے گی اور دوسری طرف وہ جلا وطنی کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے تنگ آکر تمہارے دشمنوں سے سازش کرلیں گے اور اس طرح غیروں کو تم پر حملہ کرنے اور تمہیں غلام بنانے میں آسانیاں پیدا کردیں گے۔ تیسرا عہد یہ تھا کہ اپنی قوم میں سے کسی کو گرفتار ہوتا دیکھو تو فدیہ دے کر اسے چھڑا لینا۔ ان لوگوں نے پہلے دو احکام کی تو پروا نہ کی مگر تیسرے کے لئے خوب اہتمام کرتے تھے ان کو یہ بات کہی جا رہی ہے کہ تم بھی عجیب لوگ ہو کہ بعض کتاب کو مانتے ہو اور بعض کے ماننے سے انکار کردیتے ہو ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمہاری مرضی کی بات ہے جس کو چاہو مانو جس کو چاہو انکار کر دو ۔ واقعہ اس طرح ہے کہ مدینہ میں اوس و خزرج کی دو قومیں بستی تھیں جن کی ہمیشہ آپس میں جنگ رہتی تھی۔ شہر کے اطراف میں یہودیوں کے بھی دو قبیلے آباد تھے بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ ان میں سے اوس اور بنو قریظہ باہم ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ایسے ہی خزرج اور بنو نضیر آپس میں معاہد تھے جب کبھی اوس اور خزرج میں جنگ ہوتی ان قبائل کو بھی بوجہ دوستی اور حلافت کے ان کی مدد کرنا پڑتی پھر جنگ کے نتائج میں جہاں اوس اور خزرج بےخانماں برباد ہوتے۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر بھی اس مصیبت سے محفوظ نہ رہ سکتے اور بالکل ظاہر بات ہے کہ بنو نضیر کے اخراج میں بنو قریظہ کا دخل ہوتا تھا اور بنو قریظہ کی جلا وطنی میں بنو نضیر حصہ دار ہوتے تھے ۔ البتہ اتنا ضرور تھا کہ جب ایک جماعت میں سے کوئی امیر ہوجاتا تھا تو ہر جماعت اپنے دوستوں کو مال سے راضی کر کے قیدی کو رہا کرا دیتی۔ اگر کوئی ان کی اس حرکت پر اعتراض کرتا تو کہتے کہ امیر کا رہا کرنا ہمارا مذہبی فرض ہے اور جب لوگ یہ کہتے کہ قتل و اخراج میں تم نے کیوں دشمنوں کی مدد کی تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ دوستوں کا سا تھ نہ دینا عار وننگ کی بات ہے۔ اس بیہودہ حرکت پر ان کو کہا گیا کہ مرض بھی برابر پیدا کرتے رہیں اور علاج بھی جاری رکھیں یہ کہاں کی دانشمندی ہے اس طرح سے مرض کبھی نہیں زائل ہوا کرتا پس ایسے لوگوں کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے دنیا میں ذلیل کردیئے جائیں اور کبھی انہیں عزت نصیب نہ ہو ۔ چناچہ بنو نضیر کو رسول اللہ ﷺ نے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا بنو قریظہ کے مردوں کو قتل کیا اور عورتوں ، بچوں کو لونڈی غلام بنایا۔ سچ ہے ایسے لوگوں کی سزا میں نہ تو کسی قسم کی تخفیف ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ان کی طرفداری کرسکتا ہے۔ آخرت کا عذاب اس کے سوا ہے جو یقیناً ان کی بد اعتدالیوں کے نتیجے کے طور پر بھگتنا لازم ہے۔ اس جگہ یہود کا قِصّہ بیان کر کے توجہ مسلمانوں کی دلائی جا رہی ہے مگر وقت آنے پر وہ بھی انہی کے نقش قدم پر چلے اور جو نقشہ یہاں کھینچا ہے وہ دراصل پیشگوئی کے رنگ میں مسلمانوں کا نقشہ ہے ایک طرف تو ہمدردی کا اظہار اس قدر ہے کہ جنگوں میں دنیا کے ایک حصہ میں مسلمان زخمی ہوجائیں تو دوسرے حصہ میں دنیا میں چندہ جمع ہوتا ہے ان کی ہمدردی کا علاج کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک ملک دوسرے اسلامی ملک کو تباہ کرنے کی فکر میں ہے۔ کبھی دوسروں سے مل کر کبھی خودبخود ۔ ایک طرف خود مسلمان عیسائیوں سے مل کر ، کبھی یہودیوں سے مل کر ایک اسلامی حکومت کو تباہ کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک مسلمان حکومت کے قیام کے لئے اپیلیں اور مظاہرے کرتے ہیں۔ یہود کا قِصّہ بیان کر کے مسلمانوں کو سمجھایا ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں۔ مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کر کے ان کے خون کی ہولی کھیلنا اور ان کا ملک چھیننا جائز نہیں۔ حدیث میں ہے کہ : ( المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ) مسلم وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان دکھ نہ اٹھائیں ۔ ہاتھ سے دکھ دینا ، ان کو قتل کرنا ، ان کے مال لوٹنا ، ان کے ملک چھیننا اور زبان سے ان کی عزت پر حملہ کرنا ، گالیاں دینا ، کافر کہنے کا شیوہ بنا لینا آج غور کرو کہ کیا مسلمانوں میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں ؟ پچھلے پچاس برس میں جو حالات دنیا کی تاریخ میں لکھے گئے کیا مسلمان ان دونوں جرموں کے مرتکب نظر نہیں آتے ؟ عیسائی غداروں نے اسلامی ممالک کو تہس نہس کر کے پہلے اپنے قبضہ میں کیا اور پھر ان کو آزادی کے نام سے مختلف ممالک میں تقسیم کردیا اور ان کو آزاد کرنے کے انعام میں ان کے گلے میں یہ دونوں لعنتوں کے طوق ڈال کر جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے آرام کرنے کے لیے ایک کونہ میں بیٹھ گئے۔ اب ان اسلامی حکومتوں کو اس طرح دست و گریبان کردیا ہے کہ یہ خود ہی ایک دوسرے کو مارتے اور مرتے رہیں۔ عیسائی شاطر آرام سے بیٹھ کر ان کی اس کشتی کا تماشا دیکھتے ہیں پھر جس کو چاہتے ہیں کامیاب اور جس کو چاہتے ہیں ناکام قرار دے کر دوبارہ کشتی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ مسلمان ہیں کہ ان کی سمجھ میں اب یہود کی طرح کچھ آتا ہی نہیں کہ ہم کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ؟ اب وہ وقت ہے کہ علماء اور مشائخ کو یہ فکر نہیں کہ کافروں کو مسلمان بنائیں یا اسلام پر جو حملے ہو رہے ہیں ان کا جواب دیں ان کا کام اب صرف یہ ہے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہے وہ مسلمانوں کو کافر بنائیں اور اس طرح مسلمانوں کو اگر سیاسی امن میسر ہو تو مذہبی گروہ بندی کی لعنت میں ان کو پھنسا کر دن بدن کمزور سے کمزور تر کرتے چلے جائیں۔ اس وقت مسلمانوں کی جتنی مملکتیں ہیں ان میں انتشار ، بدامنی ، لڑائی جھگڑا ، ڈاکہ زنی ، قتل و غارت ، گروہ بندی ، فرقہ پرستی ، فتویٰ بازی اور شور و غوغا ہے۔ ان تمام حکومتوں کی اندورنی حالت ہے تو ازحد خراب ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ہیں تو ان کا پوری طرح سے ستیاناس ہے ، کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا 00 آیت 84 اور 85 کا ترجمہ ایک بار پھر پڑھو اور سر پکڑ کر بیٹھ جاؤ ایک ایک لفظ پر غور کرو۔ ایمانداری سے بتاؤ کہ اس کا ایک ایک لفظ ایک ایک فقرہ ایسا نہیں جو ہماری اس وقت کی حالت پر فٹ ہوتا چلا جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو تم ہی بتاؤ کہ یہود کی داستان غم ہے یا ہماری حالت زار کا نقشہ۔ جو قوم اپنی کتاب کو وحی الٰہی کہے اور پھر کتاب کے کسی حصہ پر عمل کرے اور کسی حصہ سے بےنیاز ہوجائے اس کے لیے ذلت و رسوائی کے سوا اس دنیا میں کچھ ہے ؟ اگر نہیں تو اس وقت دنیا میں ہماری حالت کیا ہے ؟ کیا روز بروز یہود مسلمان اور مسلمان یہود تو نہیں ہو رہے ؟ اعمال کے لحاظ سے ؟ کردار کے لحاظ سے ؟ اخلاق کے لحاظ سے ؟ عادات واطوار کے لحاظ سے ؟
Top