Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 20
الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُوْفُوْنَ : پورا کرتے ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا عہد وَلَا يَنْقُضُوْنَ : اور وہ نہیں توڑتے الْمِيْثَاقَ : پختہ قول و اقرار
جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے۔
20۔ 21۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے ذکر میں دو مثالیں بیان فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ اگرچہ ہر طرح کی نصیحت قرآن شریف میں ہے لیکن وہ نصیحت ان ہی لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے عہد کا خیال ہے کہ شریعت میں جس چیز کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اس کو بجا لانے کا عہد اور جس سے باز رہنے کا ارشاد فرمایا ہے اس سے باز رہنے کے عہد کو وہ لوگ پورا کرتے ہیں اور جس طرح یوم المیثاق میں اللہ تعالیٰ نے توحید پر قائم رہنے کا اور رسولوں کی فرمانبرداری کرنے کا اور کتب آسمانی کے پابندی کرنے کا عہد لیا ہے شریعت کو اس عہد کے یاد دلانے والی ایک چیز جان کر نہ منافقوں کی طرح ان لوگوں کی یہ عادت ہے کہ زبان سے تو شریعت کی پابندی کا اقرار ہے اور دل میں اس اقرار کا کچھ بھی اثر نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے اور حساب و کتاب ہونے سے ڈر کر جو کچھ کرتے ہیں اس کا اثر دل و زبان دونوں پر یکساں ہے اور نہ ان لوگوں کی عادت ریا کاروں کی سی ہے کہ شریعت کا کام دنیا کے دکھاوے کو کریں بلکہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ کی خوشنودی اور ثواب آخرت کی نیت سے کرتے ہیں اور کوئی برا کام شامت نفس سے چھوٹا یا بڑا ہوجاوے تو بڑے گناہ کو توبہ و استغفار سے اور چھوٹے گناہ کو آئندہ کی نیکی سے غرض ہر طرح اس برائی کے دھبہ کو مٹا دیتے ہیں کوئی مصیبت آزمائش کے طور پر خدا کی طرف سے آوے تو اس کے جھیلنے میں اور گناہ کی طرف جی للچاوے تو جی کے روکنے میں اور امر الٰہی کے بجا لانے میں کسی طرح کی تکلیف پیش آوے تو اس تکلیف کی برداشت کرنے میں صابر رہتے ہیں اسی طرح آٹھ نو وصف ایسے لوگوں کے ذکر فرما کر پھر فرمایا کہ اہل جنت یہی لوگ ہیں اور پھر جنت کی نعمتیں ذکر فرمائیں اور ان اہل جنت کی عادتوں کے برخلاف عادت کے جو لوگ دنیا میں ہیں اخیر رکوع تک پھر ان کا ذکر فرمایا غرض ان آیتوں میں اچھی اور بری دونوں عادتوں کا ذکر ہے قرآن شریف کی تلاوت اور قرآن شریف کا ترجمہ پڑھتے وقت ہر شخص کو چاہیے کہ اچھی حالت پر ذرا خیال جمادے کہ اس میں ان عادتوں میں سے کون سی عادتیں ہیں اور کوئی عادت بری ہو تو اس کے چھوڑنے کی کوشش کرے اور اچھی عادت پر قائم رہنے میں مضبوط رہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس ؓ کی حدیث گزر چکی ہے 1 ؎ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے ما بعد کے لئے کچھ سامان کر لیوے صحیح بخاری مسلم کے حوالہ سے معاذ بن جبل ؓ کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق ہر ایک بندہ پر توحید کے عہد کو پورا کرنا اور بندوں کا حق اللہ پر ایسے لوگوں کو جنت میں داخل کرنا ہے۔ 2 ؎ صحیح بخاری میں ابو ایوب انصاری ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے صلہ رحمی کرنے والوں کو جنتی فرمایا ہے 3 ؎ اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کے خوف سے جس شخص نے اپنی لاش کے جلانے اور آدھی خاک کو ہوا میں اڑانے اور آدھی کو دریا میں بہا دینے کی وصیت کی تھی اس کی مغفرت کے باب میں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے 4 ؎ آیتوں میں ترتیب وار جن لوگوں کا ذکر ہے یہ حدیثیں ان لوگوں کے حال کی گویا تفسیر ہیں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کو صلہ رحمی کہتے ہیں اسی صلہ رحمی کا ترجمہ شاہ صاحب نے ” جوڑنا کیا “ ہے جس سے مطلب رشتہ داروں کے ساتھ میل جول اور حسن سلوک کا ہے۔ 1 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 222۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 882 ج 2 آخر کتاب اللباس۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص 885 ج 2 باب فضل صلۃ الرحم 4 ؎ جلد ہذا ص 218۔
Top