Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 20
الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُوْفُوْنَ : پورا کرتے ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا عہد وَلَا يَنْقُضُوْنَ : اور وہ نہیں توڑتے الْمِيْثَاقَ : پختہ قول و اقرار
جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے۔
آیت نمبر 20 اس میں دہ مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : الذین یوفون بعھد اللہ یہ عقلمندوں کی صفت ہے یعنی نصیحت صرف وہی عقلمند قبول کرتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرتے ہیں۔ العھد اسم جنس ہے یعنی اللہ کے تمام وعدے اور وہ اس کے وہ أوامر اور نواہی ہیں جو اس نے اپنے بندوں کو فرمائے ہیں۔ ان الفاظ کے تحت تمام فرائض کا التزام اور تمام گناہوں سے بچنا شامل ہے۔ ولاینقضون المیثاق اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد تو تمام وعدوں کی جنس مراد ہو یعنی جب وہ اللہ کی اطاعت میں کوئی وعدہ کرتے ہیں تو اسکو نہیں توڑتے۔ حضرت قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے وعدوں کو توڑنے اور ان سے روکنے کے بارے میں بیس اور کچھ آیات اپنے بندوں کو دی ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے ذریعے کسی معین وعدہ کی طرف اشارہ مقصود ہو، اور یہ وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اس وقت لیا تھا جب اس نے انہیں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی صلب سے نکالا تھا۔ قفال نے کہا : اس سے مراد توحید نبوت کے وہ دلائل ہیں جو اس نے بندوں کی عقل میں ڈال دئیے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: ابو داؤد اور دیگر لوگوں نے حضرت عوف بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ہم سات، آٹھ یانو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا :ْْکیا تم رسول اللہ ﷺ کی بیعت نہیں کرتے ؟ٗٗٗاور ہم بیعت کے ذریعے عہد کے متعلق گفتگو کر رہے تھے تو ہم نے عرض کیا : ہم نے آپ کی بیعت کرلی ہے۔ آپ نے تین دفعہ یہ الفاظ ارشاد فرمائے، تو ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور آپ کی بیعت کرلی، ایک کہنے والے نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کی بیعت کرلی تھی تو ہم کس بات پر آپ کی بیعت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” اس بات پر کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچ نمازیں پڑھو گے، تو جہ سے سنو گے اور اطاعت کرو گے “۔ اور آپ نے راز داری سے ایک کلمہ ارشاد فرمایا۔ اور فرمایا ” لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کروگے “ حضرت عوف بن مالک ؓ نے فرمایا کہ اس جماعت کے کسی بندے کا چابک بھی گر جاتا تو وہ اسے بھی پکڑانے کے لئے کسی سے سوال نہ کرتا۔ ابن عربی نے کہا : نصیحت میں بڑے وعدوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے سوال نہ کیا جائے۔ حضرت ابو حمزہ خراسانی اللہ کے (نیک) بندوں میں سے تھے انہوں نے سنا کہ کچھ لوگوں نے نبی کریم ﷺ کی اس بات پر بیعت کی ہے کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے، تو ابو حمزہ نے کہا : اے پروردگار ! ان لوگوں نے تو تیرے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو یہ وعدہ کیا میں تیرے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ کسی سے کچھ بھی نہیں مانگوں گا۔ شام سے مکہ کی طرف حج کے ارادے سے نکلے رات کے وقت راستے میں چل رہے تھے کہ اپنے دوستوں سے کسی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے پھر ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، اسی دوران راستے کے کنارے پر واقع ایک کنوئے میں گر گئے۔ جب کنوئے کے پیندے میں پہنچے تو سوچا کی کسی سے مدد طلب کروں ہوسکتا ہے کوئی سن لے۔ پھر سوچا کہ جس کے ساتھ میں نے عہد کیا ہوا ہے وہ مجھے دیکھ بھی رہا ہے اور سن بھی رہا ہے، اللہ کی قسم ! کسی انسان کے لیے ایک حرف بھی نہیں بولوں گا، پھر تھوڑی ہی دیر گزری کہ اس کنویں سے ایک وفد گزرا جب انہوں نے کنویں کو راستے کے کنارے پر دیکھا تو انہوں نے کہا : اس کنویں کو بند کردینا چاہیے، انہوں نے لکڑیاں کاٹیں اور انہیں کنویں کے منہ پر رکھ کر مٹی کے ساتھ انہیں ڈھانپ دیا، جب ابو حمزہ نے یہ دیکھا تو سوچا : یہ تو ہلاکت گاہ ہے، پھر لوگوں سے مدد طلب کرنا چاہی مگر کہا : اللہ کی قسم ! میں کبھی بھی اس عہد سے نہیں نکلوں گا، پھر اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : کیا تو نے اس کے ساتھ عہد نہیں کر رکھا جو تجھے دیکھ رہا ہے ؟ پس خاموش ہوگئے اور توکل کرلیا، پھر اپنے معاملہ میں غور و فکر کرتے ہوئے کنویں کے پیندے میں ٹیک لگالی تو اچانک مٹی پڑی اور لکڑی اوپر اٹھ گئی اور اسی دوران کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا : اپنا ہاتھ لاؤ ! ابو حمزہ نے کہا : میں نے اسے اپنا ہاتھ دے دیا تو اس نے ایک جست میں مجھے کنویں کے کنارے پر پہنچا دیا، باہر نکلا تو کسی کو بھی نہ پایا، غیب سے آواز سنی جو کہہ رہا تھا : تو نے توکل کا پھل کیسا پایا ؟ تو ابو حمزہ نے یہ اشعار کہے : نھانی حیائی منک أن أکشف الھوی فاغنیتنی بالعلم منک عن الکشف تلفت فی امری فأبدیت شاھدی إلی غائبی واللطف یدرک باللطف ترائیت لی بالعلم حتی کا نما تخبرنی بالغیب أنک فی کف أرانی وبی من ھیبتی لک وحشۃ فتونسنی باللطف منک وبالعطف وتحیی محبا أنت فی الحب حتفہ وذا عجب کیف الحیاۃ مع الحتف ابن عربی نے کہا : یہ ہے وہ آدمی جس نے اللہ کے ساتھ عہد کیا تو اسے تمام و مکمل پورا کیا، پس اس کی اقتدا کرو انشاء اللہ ہدایت پاجاؤ گے۔ ابو الفرج نے کہا : اس آدمی نے اس مقام پر بزعم خویش جو توکل اختیار کیا یہ درست نہیں۔ اگر وہ توکل کا معنی سمجھ لیتا تو اسے پستہ چل جاتا کہ اس حالت میں کسی سے مدد طلب کرنا توکل کے منافی نہیں، جس طرح رسول اللہ ﷺ کا مکہ سے چھپ کر نکلنا توکل سے خارج نہیں پھر آپ کا کوئی حیلہ سوچنا، اس معاملہ کا پوشیدہ رکھنا اور اپنے آپ کو غار میں چھپانا اور سراقہ کو اخف عنا کے الفاظ ارشاد فرمانا (توکل کے منافی نہیں) پس وہ توکل جو قابل تعریف ہے وہ کسی ممنوع فعل کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور کنویں میں یہ صورت اختیار کرنا اس کے لئے ممنوع تھا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کے لیے آلات پیدا فرمائے ہیں جن کے ذریعے وہ ضرر کو دور کرسکتا ہے اور ایسے آلات بھی پیدا فرمائے ہیں جن کے ذریعے وہ ضرر کو دور کرسکتا ہے اور ایسے آلات بھی پیدا فرمائے ہیں جن کے ذریعے وہ نفع حاصل کرسکتا ہے، اگر وہ ان آلات کو توکل کا دعویٰ کرتے ہوئے معطل کر دے تو یہ اس کی توکل سے عدم واقفیت اور تواضح کی حکمت کی تردید پر دلیل ہے، کیونکہ توکل تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دل کے اعتماد کا نام ہے اور اسباب کو ختم کردینا توکل کی ضرورت میں سے نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی بھوکا ہو اور کسی سے کچھ نہ مانگے اور مر جائے تو جہنم میں جائے گا، یہ حضرت سفیان ثوری اور دیگر لوگوں کا قول ہے، کیونکہ اسلام کے طریقوں کی جانب اس کی رہنمائی کی گئی ہے، اب اگر اس نے وہ طریقے اختیار نہیں کیے تو خود اپنے قتل پر اپنی معاونت کی ہے۔ ابو الفرج نے کہا : ابو حمزہ کے قول فجاء اسد فاخرجنی (شیر آیا تو اس نے مجھے نکالا) قابل التفات نہیں کیونکہ اگر یہ صحیح بھی ہوتب بھی ایسا اتفاقاً ہوا ہے اور ایک جاہل آدمی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوئی ہے اور اس کا تو کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مہربانی کی ہوگی، انکار تو اس کے اپنے فعل کا ہے جو اس نے کیا، کیونکہ اس کا اپنا فعل خود اس کی اپنی جان کے قتل پر معاونت تھی جو جان اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھی اور اللہ نے اسے اس کی حفاظت کا حکم فرما رکھا تھا۔
Top