بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : ایک کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتُخْرِجَ : تاکہ تم نکالو النَّاسَ : لوگ مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَي النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّھِمْ : ان کا رب اِلٰي : طرف صِرَاطِ : راستہ الْعَزِيْزِ : زبردست الْحَمِيْدِ : خوبیوں والا
الر (یہ) ایک (پرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لیجاؤ۔ (یعنی) انکے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے راستے کی طرف۔
1۔ 3۔ الٓر۔ انہیں حروف مقطعات میں سے ہے جن کا ذکر پہلے ہوچکا کہ اس کے معنے سوائے خدا کے اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ قرآن کا یہ طرز بیان ہے کہ بعد حروف مقطعات کے قرآن پاک کی عظمت بیان کی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں بھی فرمایا کہ یہ قرآن مجید اور آسمانی کتابوں سے اشرف ہے اور اشرف الانبیاء محمد ﷺ پر اس کو ہم نے اتارا ہے اور جس طرح پہلی کتابیں خاص خاص قوم اور علیحدہ علیحدہ امت کی ہدایت کو بھیجی گئیں اسی طرح یہ کتاب کل انسان کیا عرب کیا عجم ہر ایک بستی ہر ایک گاؤں ہر ملک کے رہنے والوں کی ہدایت کو اتاری گئی ہے تاکہ لوگوں کو کفر اور گمراہی سے نکال کر خدا کی توحید اور ایمان کے سیدھے رستہ کی طرف لاوے پھر اللہ نے اپنی یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ عزیز ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ایک شئے پر غالب ہے کسی سے مغلوب اور عاجز نہیں ہوتا اور حمید ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہر کام قابل تعریف ہے۔ پھر فرمایا کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے وہ سب کا مالک ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے اس میں کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اسی لئے اس کے بعد پھر یہ فرمایا کہ جب یہ باتیں ثابت ہو چکیں تو کافروں کی حالت بہت افسوس ناک ہے کیونکہ ان پر سخت سخت عذاب ہوں گے جو کسی طرح رک نہیں سکتے اس واسطے کہ ان لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ دوست رکھا ہے اور خود تو گمراہی میں ہی تھے اوروں کو بھی خدا کے سچے دین پر ایمان لانے سے روکتے ہیں اور اپنی خواہش اور غرض کے واسطے اس سیدھے راہ ٹیڑھی کرنی چاہتے ہیں یہ لوگ ایسی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں جو خدا سے بہت دور ہے۔ اس لئے کسی طرح امید نہیں ہے کہ یہ لوگ راہ حق تک پہنچیں گے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد نسائی اور دارمی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ نے ایک سیدھا خط کھینچ کر اس کو اللہ کا رستہ کہا اور سیدھے خط کے دائیں بائیں اور خط کھینچ کر یہ فرمایا کہ ان سب راستوں پر شیطان کا دخل 1 ؎ ہے۔ ان آیتوں میں ظلمت کے لفظ کو جمع اور نور کو مفرد جو فرمایا اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ ایک ہے اور شیطان کے دخل کے راستے بہت ہیں۔ ترمذی میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں وہی ایک ہدایت کا راستہ 2 ؎ ہے۔ ان آیتوں میں نور کا جو لفظ ہے یہ حدیث اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہدایت کا طریقہ اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ کے طریقہ پر منحصر ہے۔ ترمذی کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی ہے جس کو دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن یحییٰ بن سعید القطان نے اس کو ثقہ کہا 3 ؎ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت کے قابل کام کر کے جنت میں جاوے گا اور کون شخص دوزخ کے قابل کام کر کے دوزخ میں جاوے 4 ؎ گا۔ یہ حدیث باذن ربھم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں رسولوں کی نصیحت سے انہی کا دل نیک کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک کاموں کے پورا کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کفر کے اندھیرے سے ایمان کے اجالے کی طرف لانے کو پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا کام ٹھہرایا اور پھر باذن ربھم فرمایا اس لئے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے یہاں اذن کے معنے توفیق کے لئے ہیں 5 ؎۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا جس کے سبب سے انسان پر اللہ تعالیٰ کی تعظیم و اجب ہے ایسی موٹی بات کو جو لوگ نہیں سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان لوگوں کے گناہ سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی گناہ نہیں۔ 6 ؎ اس حدیث کو آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی پر گرویدہ ہو کر آخرت کے منکر اور بڑے گناہ کو گناہ نہیں جانتے اور ایک موٹی بات جو ان کو سمجھائی جاتی ہے اس کو دنیا کی گرویدگی کے آگے کچھ نہیں سمجھتے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب تجویز فرمایا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث گزرچکی ہے کہ نرم عذاب والے شخص کے پیروں میں آگ کی جوتیاں قیامت کے دن پہنادی جاویں گی جس سے اس شخص کا بھیجا پگل کر نکل پڑے 7 ؎ گا۔ اس نرم عذاب کا حال سن کر سخت عذاب کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے۔ اللہ کی راہ سے روکنا مثلاً جیسے عمرو بن لحی نے کیا کہ ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر لوگوں کو اس ملت کے موافق عمل کرنے سے روکا اللہ کے راستہ میں کجی کا ڈھونڈنا مثلاً جیسے ان مشرکوں کا یہ کہنا کہ قرآن میں سے بتوں کی مذمت کی آیتیں نکال دی جاویں۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 30 باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ایضاً ۔ 3 ؎ تہذیب التہذیب ص 174 ج 6۔ 4 ؎ جلد ہذا ص 482۔ 432۔ 235۔ 240۔ 5 ؎ تفسیر ابن جریر ص 179 ج 3۔ 6 ؎ جلد ہذا ص 204۔ 206۔ 222۔ 7 ؎ جلد ہذا ص 237۔
Top