بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Ibrahim : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : ایک کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتُخْرِجَ : تاکہ تم نکالو النَّاسَ : لوگ مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَي النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّھِمْ : ان کا رب اِلٰي : طرف صِرَاطِ : راستہ الْعَزِيْزِ : زبردست الْحَمِيْدِ : خوبیوں والا
ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
[الۗرٰ ۔۔] [ كِتٰبٌ: (یہ) ایک کتاب ہے ] [ انزَلْنٰهُ : ہم نے اتارا اس کو ] [اِلَيْكَ : آپ ﷺ کی طرف ] [ لِتُخْرِجَ : تاکہ آپ ﷺ نکالیں ] [ النَاسَ : لوگوں کو ] [مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے ] [اِلَي النُّوْرِ : روشنی کی طرف ] [بِاِذْنِ رَبِھِمْ : اپنے رب کی اجازت سے ] [اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ : حمد کئے ہوئے بالا دست کے راستے کی طرف ] ترکیب : (آیت۔ 1) کِتٰبٌ خب رہے اور اس کا مبتدا محذوف ہے۔ نوٹ۔ 1: ظُلُمٰت سے مراد عقائد و اعمال کی تاریکیاں اور نور سے مراد ایمان اور عمل صالح کی روشنی ہے۔ گمراہی کے ہزاروں راستے ہیں لیکن ہدایت کی راہ ایک ہی ہے۔ اس وجہ سے ظُلُمٰت جمع ہے اور نور واحد۔ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ کا مطلب یہ ہے کہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف آنا جن کو بھی میسر ہوگا وہ خدا کی دی ہوئی توفیق سے ہی میسر ہوگا۔ وہی اپنی سنت کے مطابق جن کو ہدایت کا اہل پائے گا ان کو ہدایت بخشے گا اور جن کو اس کا اہل نہیں پائے گا ان کو گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی ذمہ داری اس معاملے میں دعوت و تبلیغ کی ہے۔ لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لا کھڑا کرنا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔ 2: رسول اللہ 1 کی بعثت پوری اقوامِ دنیا کے لئے ہے۔ ایسی صورت میں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ قرآن ہر قوم کی زبان میں الگ الگ ہوتا۔ لیکن اس کو تو کوئی ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی درست نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے ضروری ہوا کہ قرآن کسی ایک ہی زبان میں آئے پھر دوسری زبانوں میں اس کے ترجمے پھیلائے جائیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی زبانوں میں سے عربی کا انتخاب فرمایا۔ اس کی وجہ ہے۔ عربی آسمان کی زبان ہے۔ فرشتوں کی زبان عربی ہے۔ لوح محفوظ کی زبان عربی ہے اور جنت کی زبان بھی عربی ہے۔ رسول اللہ 1 کا فرمان ہے کہ تم لوگ تین وجہ سے عرب سے محبت کرو۔ ایک یہ کہ میں عربی ہوں، دوسرے یہ کہ قرآن عربی ہے اور تیسرے یہ کہ اہل جنت کی زبان عربی ہے۔ تفسیر قرطبی وغیرہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی زبان جنت میں عربی تھی۔ زمین پر نازل ہونے کے بعد عربی ہی میں تغیرات ہو کر سریانی زبان پیدا ہوئی۔ اس سے ان روایات کی بھی تائید ہوتی ہے جو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ وغیرہ سے منقول ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں ان کی اصلی زبان عربی ہی تھی۔ جبرئیل امین نے قومی زبانوں میں ترجمہ کر کے پیغمبروں کو بتلایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فطری طور پر عربی زبان سے ایک مناسبت عطا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام ؓ جس ملک میں پہنچے تھوڑے ہی عرصہ بعد بغیر جبرو اکراہ کے پورے ملک کی زبان عربی ہوگئی۔ آج جو عربی ممالک کہلاتے ہیں، جیسے عراق، شام، مصر وغیرہ، ان میں سے کسی کی زبان عربی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے رسول کریم 1 کی امت میں تعلیم و تعلّم، تصنیف و تالیف اور تبلیغ و اشاعت کا ایسا جذبہ پیدا فرما دیا کہ اس کی نظیر پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے نتیجہ میں عجمی اقوام میں نہ صرف قرآن و سنت کے علوم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا بلکہ عربی زبان کو حاصل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت میں عجمیوں کا قدم عرب سے پیچھے نہیں رہا۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ اس وقت عربی لغت اور اس کی گرامر پر جتنی کتابیں دنیا میں موجود ہیں وہ بیشتر عجمیوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ قرآن و سنت کی جمع و تدوین اور تفسیر میں بھی ان کا حصّہ عربوں سے کم نہیں رہا۔ اس طرح رسول کریم 1 کی زبان اور آپ ﷺ کی کتاب عربی ہونے کے باوجود پورے عالم پر محیط ہوگئی اور دعوت و تبلیغ کی حد تک عرب و عجم کا فرق مٹ گیا اور رسول کو قوم کی زبان میں بھیجنے کی جو حکمت تھی وہ حاصل ہوگئی۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)
Top