بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : ایک کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتُخْرِجَ : تاکہ تم نکالو النَّاسَ : لوگ مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَي النُّوْرِ : نور کی طرف بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّھِمْ : ان کا رب اِلٰي : طرف صِرَاطِ : راستہ الْعَزِيْزِ : زبردست الْحَمِيْدِ : خوبیوں والا
الر۔ قف یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے اتارا ہے آپ کی طرف تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف ان کے رب کے حکم سے عزیز اور حمید کے راستے کی طرف ۔
(نام اور کوائف) اس سورة کا نام سورة ابراہیم ہے ، سورة کے چھٹے رکوع میں خانہ کعبہ کی تعمیر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور ملت ابراہیمیہ کا ذکر ہے اسی مناسبت سے سورة کا یہ نام رکھا گیا ہے ، سابقہ سورة کی طرح یہ سورة بھی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی ، اس کی باون آیات اور سات رکوع ہیں ، یہ سورة 831 الفاظ اور 3434 حروف پر مشتمل ہے ۔ (مضامین سورة ) جس طرح اس سورة کا سابقہ سورة سے زمانہ نزول ملتا ہے اسی طرح ان دونوں سورتوں کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں ، اس سورة میں بھی دین کے بنیادی عقائد ، توحید ، تردید شرک ، رسالت ، معاد اور قرآن کی حقانیت ، وصداقت کا ذکر ہے نبوت و رسالت کے متعلق معترضین کے جوابات دیے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے کلمہ حق و باطل کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا ہے ، تذکرہ انبیاء میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خصوصی ذکر ہے ، جب کہ باقی انبیاء کا ذکر اجمالی طور پر آیا ہے ، اسی لیے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سورة کا ایک خاص موضوع مقصد بعثت انبیاء بھی ہے چناچہ اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی بنیادی عقائد کی تعلیم وتبلیغ کے لیے انبیاء کو مبعوث فرمایا ، خصوصا اللہ کی وحدانیت کا مسئلہ اور ایمانیات کی تلقین ہمیشہ سے ملت ابراہیمیہ کا مقصد اور دین اسلام کی غرض وغایت اور منتہائے مقصود رہا ہے ، اس کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ ، نماز اور بعض دوسری چیزوں کا ذکر ضمنا اس سورة میں آئے گا ۔ اس سورة مبارکہ میں انبیاء کی تاریخ کا ایک حصہ بھی ذکر کیا گیا ہے اگلے درس میں آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “۔ اور انہیں تاریخی واقعات یاد دلائیں ، ایام اللہ سے وہ دن مراد ہیں ، جب اللہ تعالیٰ نے بعض اقوام پر نعمتیں نازل فرمائیں اور بعض کو سزا میں مبتلا کیا ، ان کو اصطلاحا ایام تنعیم اور ایام تعذیب بھی کہا جاتا ہے ، ایسے واقعات کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اور اسکی ناشکری کا ذکر کیا گیا ہے ، اس ضمن میں انبیاء کرام ﷺ کے طریقہ تعلیم وتربیت اور ان کی تبلیغ کو بھی بیان کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ مسلمانوں کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ کافروں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے وقت انہیں کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ، (حروف مقطعات) سابقہ سورة کی طرح اس سورة کی ابتداء بھی حروف مقطعات سے ہوتی ہے الٓر ، مفسرین نے تقریب فہم کے لیے حروف مقطعات کے بہت سے ممکنہ معانی بیان کیے ہیں ، بعض فرماتے ہیں کہ الر سے خود قرآن ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے ، بعض مفسرین تینوں حروف کے مختلف معانی بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” الف “ سے انا ، ل سے اللہ اور ر سے رویت مراد ہے ، اور پورا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں اور تمہاری تمام حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوں ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ” الر “ سورة کے موضوع کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ غیبی حقائق جو انبیاء کے ذریعے عالم بالا سے اس جہان میں متعین ہوتے ہی ، ان کا تصادم انسانوں سے سرزد ہونے والے شرور ونسیہ (گندے شرور) سے ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں حق بات واضح ہوتی رہتی ہے ، تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ” الر “ دراصل مقامات انبیاء کی طرف اشارہ ہے اور یہ بات مجھے ذوقی یعنی الہامی طریقے سے معلوم ہوئی ہے کیونکہ اسے عقلی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ حروف مقطعات قرآن پاک کی 29 سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں بعض فرماتے ہیں کہ ہر حرف مفرد اللہ تعالیٰ کے کسی اسم کی طرف اشارہ کرتا ہے ” الف “ سے اللہ کا اسم ذات اللہ ہو سکتا ہے ” ل “ سے لطیف اور را سے رحمان یا رحیم مراد لیا جاسکتا ہے بعض فرماتے ہیں کہ ” الر “ اس سورة کا نام ہے ، گویا اس سورة کے دو نام ہیں ابراہیم اور ” الر “ قرآن پاک کی بعض سورتوں کے متعدد نام بھی آتے ہیں ، سورة فاتحہ کے پندرہ نام عرض کیے تھے ، دسویں صدی کے حافظ الحدیث امام جلال الدین سیوطی (رح) حروف کی مراد کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، تاہم جو کچھ اس نے مراد لی ہے وہ برحق ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حروف ابتلائے عباد یعنی بندوں کے امتحان کی خاطر نازل فرمائے ہیں ، اسی لیے جب حضور ﷺ یہ حروف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے سامنے پڑھتے پڑھاتے تھے تو کسی نے بھی ان کے معانی میں کرید کرنے کی کوشش نہیں کی ، یعنی کسی نے ان کا مطلب یا مراد دریافت نہیں کی ، بلکہ جس طرح حضور ﷺ نے پڑھایا ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے پڑھ لیا اور خاموش ہوگئے ، حضرت علی ؓ کے زمانے میں جب عجمی لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے ان حروف کے معانی دریافت کیے ، چناچہ ان کے متعلق بعض باتیں حضرت علی ؓ نے اور بعض حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بھی بیان کیں تاکہ لوگوں کے اذہان قرآن کریم کے ساتھ مانوس رہیں ، حافظ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے ان حروف کے متعلق کرید نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر ایمان لانا ہی ضروری ہے اگر کوئی کرید کرے گا تو کسی غلطی میں مبتلا ہو سکتا ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے استاد امام شعبی (رح) جنہیں پانچ سو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ان سے حروف مقطعات کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا ، یہ اللہ کا راز ہے ، اس کے پیچھے نہ پڑو ، کیونکہ ایسا کرنے سے گمراہی میں پڑنے کا خطرہ ہے صرف ” امنا وصدقنا “ کہو کہ ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی تصدیق کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان حروف سے جو بھی مراد لی ہے وہ برحق ہے ۔ (ظلمت سے نور کی طرف) حروف مقطعات کے بعد سورة کی ابتداء قرآن کریم کی صداقت وحقانیت اور اس کی غرض وغایت سے ہوتی ہے (آیت) ” کتب انزلنہ الیک “ یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے آپ کی طرف ، لفظ کتاب کو نکرہ لایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ، اور حقیقت میں کتاب کہلانے کی مستحق یہی کتاب ہے ، اس کے مقابلے میں کوئی دوسری کتاب کتاب کہلانے کی حقدار نہیں ہے سورة القصص میں قرآن پاک اور تورات دونوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” قل فاتوا بکتب من عند اللہ ھو اھدی منھما “۔ اگر تم اس قرآن کریم کا انکار کرتے ہو تو پھر کوئی ایسی کتاب لے آؤ ، جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت دہندہ ہو ، اپنے زمانے میں تورات بھی عظیم کتاب تھی اور اس میں قانون ، شریعت اور عقائد کے تمام احکام تھے ، مگر اس کی جامعیت قرآن سے کم تھی ، بہر حال قرآن پاک ایک ایسی عظیم کتاب ہے کہ تمام مخلوق مل کر بھی اس کی کسی ایک آیت پر بھی حاوی نہیں ہو سکتی ، امام شاہ ولی اللہ (رح) محدث دہلوی اپنی کتاب فیوض رحمۃ اللہ علیہالحرمین 1 (فیوض الحرمین مترجم ص 42) میں فرماتے ہیں کہ جب میں قرآن پاک کی کسی آیت کے متعلق مراقبہ کرتا ہوں تو مجھے اس کے نیچے حقائق ومعارف کے لا انتہا سمندر نظر آتے ہیں اور پاک نفوس کو ایسی باتیں نظر آنا بعید از قیاس نہیں ۔ قرآن پاک (آیت) ” انزل بعلم اللہ “ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ صفت لامحدود ہے لہذا ” لا تنقضی عجآئباتہ “۔ قرآن پاک کے عجائبات لامتناہی ہیں ان میں جتنا بھی غور کریں ، یہ عجائبات ختم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جائیں گے ۔ فرمایا یہ ایک عظیم کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اور اس کی غرض وغایت یہ ہے (آیت) ” لتخرج الناس من الظلمت الی النور “ تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں ، یہ حضور ﷺ سے خطاب ہو رہا ہے ، اس میں رسالت کا بیان آگیا ، کہ جس طرح یہ کتاب عظیم الشان ہے ، اسی طرح جس رسول پر نازل کی گئی ہے ، وہ بھی عظیم الشان رسول ہے ، یہاں پر ظلمات سے مراد کفر ، بدعت ، شرک ، نفاق اور جملہ معاصی اور برائیاں ہیں ، گناہوں کی وجہ سے انسان کے دل اور روح پر تاریکی چھا جاتی ہے اور انسان کی روحانیت ختم ہوجاتی ہے ، اس کے مقابلے میں سنت ایک روشنی ہے ، جس سے روح وقلب اور دل و دماغ روشن ہوتے ہیں ، قرآن پاک کو بصائر بھی کہا گیا ہے ۔ ” ھذا بصآئر من ربکم “۔ (اعراف) یہ تمہارے رب کی طرف سے بصیرت ہے ، بصیرت ایسی چیز ہے جو دل کو روشن کرتی ہے ، دل میں اطمینان اور یقین پیدا ہوتا ہے ، تو قرآن کریم کی آیات بصیرت کی باتیں ہیں جو انسان کو ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر ایمان ، اخلاص ، نیکی اور اطاعت کی روشنی کی طرف لاتی ہیں ۔ یہ قرآن لوگوں کو رسومات باطلہ اور بدعات سے موڑ کر سنت کی طرف لاتا ہے دل کی تاریکیاں اگرچہ ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتیں مگر ان کی وجہ سے انسان کا فہم اور شعور ختم ہوجاتا ہے اور انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے قابل نہیں رہتا ، برخلاف اس کے ایمان دار قرآن کو برحق سمجھتا ہے اور اللہ کا وعدہ یہ ہے (آیت) ” ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا “۔ (الانفال) اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ ہر جگہ تمہارے لیے فیصلہ کن بات بناتا رہے گا ، تمہیں صحیح اور غلط کی تمیز آجائے گی اور تم تاریکی میں نہیں رہو گے ، فرقان قرآن پاک کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے جس کا معنی حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے قرآن کے ذریعے انسان ظلمت اور نور میں امتیاز پیدا کرتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ اس کی غرض وغایت ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں ، فرمایا روشنی کی طرف لانا کسی انسان کا ذاتی فعل نہیں بلکہ (آیت) ” باذن ربھم “ ان کے پروردگار کے حکم سے ہے جس انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی ، وہ حق کو پا لے گا اور آپ اسے روشنی کی طرف لے آئیں گے ، اور جو ضدی اور عنادی آدمی ہوگا ، وہ اس نور سے استفادہ حاصل نہیں کرسکے گا ، اور یہ نور کیا ہے (آیت) ” الی صراط العزیز الحمید “۔ کمال قدرت کے مالک اور تعریفوں والے پروردگار کی طرف جانے والا راستہ ہے وہ ایسی کمال تعریفوں کا مالک ہے کہ اگر کوئی اس کی تعریف نہ بھی کرے تو اس کی خوبیوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، وہ بہرحال اپنی جگہ موجود ہیں ، غرضیکہ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ آپ ان کے پروردگار کے حکم سے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ، آگے اللہ تعالیٰ کی یہ تعریف بھی بیان کی گئی ہے (آیت) ” اللہ الذی لہ ما فی السموت وما فی الارض “ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے کہ اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ہر چیز کا خالق اور مالک وہی ہے ، حقیقت میں کوئی دوسری ہستی کسی چیز کی مالک نہیں ، جو کوئی عارضی طور پر کسی چیز کا مالک بنتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے بنانے سے بنتا ہے ، انسان تو اپنے وجود اور دیگر لوازمات کا بھی خود مالک نہیں ہے ، ہر چیز کا مالک و متصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ، یہ اس کی تعریف بھی ہوگئی ۔ (کافروں کا انجام) ان تمام حقائق کے باوجود جو لوگ کفر کرتے ہیں ، اللہ نے ان کا انجام بھی بیان فرما دیا ہے (آیت) ” وویل للکفرین من عذاب شدید “۔ تباہی و بربادی ہے کفر کرنے والوں کے لیے سخت عذاب سے ۔ قرآن پاک کے پروگرام کو تسلیم نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی سخت سزا کا مزہ چکھیں گے ۔ فرمایا (آیت) ” الذین یستحبون الحیوۃ الدنیا علی الاخرۃ “۔ جو لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں یعنی ان کی تمام تگ ودو اسی زندگی کے لیے ہے جیسے فرمایا (آیت) ” یعلمون ظاھر ا من الحیوۃ الدنیا ، وھم عن الاخرۃ ھم غفلون “۔ (الروم) وہ لوگ دنیا کی باریک ترین باتیں بھی جانتے ہیں مگر آخرت سے کلی طور پر غافل ہیں ، دنیا کے اعتبار سے بڑے عقلمند ہیں مگر آخرت کے لحاظ سے بالکل بےبہرہ ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے ، اسی دنیا میں ہے آگے کچھ نہیں ، اسی لیے وہ اپنے پروردگار سے عرض کرتے ہیں (آیت) ” ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب “۔ ہمیں جو کچھ دنیا ہے قیامت سے پہلے پہلے اسی دنیا میں عطا کردے اللہ تعالیٰ نے عاد اور ثمود کے متعلق فرمایا ہے کہ بڑے بڑے کاریگر ، انجینر ، صناع اور ماہرین تھے ، دنیا کے اعتبار سے بڑی بصیرت رکھتے تھے ، عقل معاش کے لحاظ سے بڑے ترقی یافتہ تھے مگر عقل معاد کی نسبت سے بالکل کر رہے تھے حضور ﷺ نے دنیا کی تحقیر میں یہ دعا بھی سکھلائی ۔ 1 (ترمذی ص 504) ہے اللھم لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا “۔ اے اللہ ! صرف دنیا کو ہی ہمارا منتہائے مقصود نہ بنا ، اہل ایمان تو ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں (آیت) ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ، یہ بات قابل ذکر ہے کہ مطلقا دنیا کی پسندیدگی بری نہیں ہے مال ، دولت ، اولاد ، آسائش زندگی وغیرہ ایک فطری چیز ہے مگر اس کی طلب اور اس سے محبت اگر آخرت پر غالب آجائے تو پھر تباہ کن ثابت ہوگی ، سورة العادیات میں موجود ہے (آیت) ” وانہ لحب الخیر لشدید “ انسان میں مال کی محبت ضرور ہے ، مگر جب وہ آخرت کو فراموش کر کے حقوق وفرائض کو فراموش کر دے گا تو پھر یہی مال اس کے لیے وبال جان بن جائیگا ، کافروں کا یہی وطیرہ ہے ، خاص طور پر مغربی تمدن میں تو اس کی انتہا ہوچکی ہے شیطان نے دنیا کے لوازمات کو اس قدر مزین کر کے دکھایا ہے کہ اکثر لوگ اسی میں منہمک ہو کر رہ گئے ہیں اور آخرت کو بالکل بھول چکے ہیں ، دنیا کی زندگی سے محبت کا یہی مطلب ہے اور اسی کی مذمت کی گئی ہے ۔ (دین کے راستے میں رکاوٹ) فرمایا کافروں کی ایک صفت تو یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ (آیت) ” ویصدون عن سبیل اللہ “ وہ خدا کے راستے سے روکتے ہیں ، دوسری جگہ فرمایا کہ خود تو دین سے دور ہوتے ہیں دوسروں کو بھی روکتے ہیں یہود ونصاری کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے روک دیا جائے ، اس مقصد کے لیے انہوں نے ہمیشہ بڑے بڑے جال بچھائے ہیں ، کبھی طاقت استعمال کرکے ، کبھی سازش کرکے اور کبھی مکر و فریب کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی ہے ، عیسائی مشنریاں سکولوں ، کالجوں ، ہسپتالوں اور رفاہی اداروں کا جال پھیلاتی ہیں اور اس قسم کا پر اپگینڈا کرتی ہی کہ مسلمانوں کے دلوں میں دین سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں تاکہ نوجوان نسل دین سے بیزار ہوجائے یہ لوگ مال و دولت اور عورت کے لالچ میں دین سے بیگانہ کرتے ہیں اور کبھی وسیع لٹریچر کے ذریعے مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، شکیب ارسلان نے لکھا ہے کہ یورپی ممالک میں اسلام کے خلاف چھ لاکھ کتابیں شائع ہو کر تقسیم ہوچکی ہیں ، نزول قرآن کے زمانے میں یہ کام مکہ والے کرتے تھے کبھی رعب کے ذریعے اور کبھی لالچ کے ذریعے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے ، آج کی دنیا میں روس ، امریکہ اور انگریز اس کام کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ، غرضیکہ تمام کافروں کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو اسلام کے راستے سے روک دیا جائے ، (کجی کی تلاش) اللہ تعالیٰ نے کافروں کی تیسری صفت یہ بیان کی ہے (آیت) ” ویبغونھا عوجا “۔ یہ لوگ اللہ کے راستے میں کجی تلاش کرتے ہیں ، اسلام کو توڑ مروڑ کر اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے لوگوں کو اسلام کا راستہ ٹیڑھا نظر آئے اور وہ اسے چھوڑ دیں کافر ، مشرک ، منافق ، یہود ، ہنود اور عیسائی سب ایسا ہی کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” اولئک فی ضلل بعید “۔ یہ لوگ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ایمان والوں کے لیے تسلی کو پہلو بھی ہے کہ یہ لوگ شب وروز انہی سازشوں میں لگے رہتے ہیں ، لہذا ان سے قبول حق کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ، یہ اسی طرح گمراہی میں پڑے رہیں گے حتی کہ اس دنیا کا دور ختم ہوجائے گا اور پھر انہیں اس گمراہی کا بدلہ مل کر رہے گا ۔
Top