Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 75
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًا١ؕ هَلْ یَسْتَوٗنَ١ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
ضَرَبَ : بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال عَبْدًا : ایک غلام مَّمْلُوْكًا : ملک میں آیا ہوا لَّا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي : پر شَيْءٍ : کسی شئے وَّمَنْ : اور جو رَّزَقْنٰهُ : ہم نے اسے رزق دیا مِنَّا : اپنی طرف سے رِزْقًا : رزق حَسَنًا : اچھا فَهُوَ : سو وہ يُنْفِقُ : خرچ کرتا ہے مِنْهُ : اس سے سِرًّا : پوشیدہ وَّجَهْرًا : اور ظاہر هَلْ : کیا يَسْتَوٗنَ : وہ برابر ہیں اَلْحَمْدُ : تمام تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
خدا یک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور ایک ایسا شخص ہے جس کو ہم نے اپنے ہاں سے (بہت سا) مال طیب عطا فرمایا ہے۔ اور وہ اس میں سے (رات دن) پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں ؟ (ہرگز نہیں) الحمد للہ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھ رکھتے۔
75۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو اللہ کا شریک اور مثل ٹھہرانے سے منع فرما کر دو مثالیں بیان فرمائیں جن میں سے ایک کو اس آیت میں یوں ذکر فرمایا کہ تم دنیا میں دیکھو کہ ایک وہ شخص ہے جو کسی کا غلام ہو اور اس میں کسی بات کی قدرت نہ ہو بالکل مفلس ہو اپنے آقا کا دست نگر ہو دوسرا وہ شخص جو آزاد ہو اور اللہ پاک نے اسے آسودہ حال کیا ہو ہر طرح کی جاہ و ثروت اسے دے رکھی ہو وہ اپنے مال میں سے اپنی خواہش کے موافق کھلے چھپے خرچ کر رہا ہو کسی بات کا محتاج نہ ہو تو فرمایا کہ کیا یہ دونوں شخص کبھی برابر ہوسکتے ہیں۔ ان میں آسمان و زمین کا فرق ہے باوجود اس بات کے پھر یہ دونوں خدا کی مخلوق ہیں اسی کے بندے ہیں صرف فرق ہے تو یہ ہے کہ ایک غلام و محتاج ہے دوسرا آزاد صاحب دولت ہے غرض کہ اللہ پاک کی بھی یہی مثال ہے کہ وہ سارے جہان میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا رہتا ہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں روک سکتا اور ماسوا خدا کے جن کی عبادت یہ مشرکین کرتے ہیں جن میں کسی بات کی قدرت نہیں خود وہ اپنے نفع اور ضرر کے مالک نہیں ہیں پھر وہ دوسروں کی کیا دستگیری کریں گے بہر حال جب ان میں کسی قسم کی قدرت نہیں ہے تو ہرگز یہ لائق اس کے نہیں ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے اور ان کو معبود ٹھہرایا جائے عبادت کے قابل اسی کی ذات ہے جس کا کوئی مثل نہیں اور جس کو ہر شئے پر پوری پوری قدرت حاصل ہے سارے جہان میں وہ جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ پھر اللہ پاک نے یہ بیان فرمایا کہ ساری خوبیاں اور کل بڑائیاں اللہ جل جلالہ کو سزا وار ہیں اور کوئی اس کا استحقاق ذرہ برابر نہیں رکھتا پھر فرمایا کہ اکثر لوگ جو گمراہ ہیں اور خدا و رسول کے منکر ہیں اور اللہ جل شانہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اس بات کو نہیں جانتے کہ عبادت کے لائق کون ہے اور جن مورتوں کی یہ پوجا کرتے ہیں ان کو یا جن کی شکل کی یہ مورتیں ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے کارخانوں میں کہاں تک دخل ہے اور اگر کچھ دخل نہیں ہے تو پھر ان کو لائق عبادت اور اللہ کا شریک کیوں ٹھہرایا جاتا ہے اور دنیا کی بادشاہی مصاحبوں کی مثال ان کے حق میں کیوں کر صادق کی جاتی ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 1 ؎، کہ جب قریش نے اپنی سرکشی نہیں چھوڑی تو اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ میں قحط کی بددعا کی اور مکہ میں ایسا سخت قحط پڑا کہ مشرک لوگ مردار جانوروں کی کھالیں کھا کھا کر زندگی بسر کرتے تھے اور اس سختی کے زمانے میں مشرکوں نے اپنے بتوں سے مینہ کے برسنے کی بہت کچھ التجا کی مگر کچھ نہ ہوا آخر اللہ کے رسول ﷺ کی دعا سے مینہ برسا۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جن مورتوں کی مشرک لوگ پوجا کرتے ہیں ان کو یا جن کی شکل کی یہ مورتیں ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے کارخانوں میں کچھ دخل نہیں ہے اس لئے یہ مورتیں اور مورتوں والے اللہ تعالیٰ کے شریک نہیں ٹھہرائے جاسکتے۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 314۔
Top