Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 149
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًا١ؕ هَلْ یَسْتَوٗنَ١ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
ضَرَبَ : بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال عَبْدًا : ایک غلام مَّمْلُوْكًا : ملک میں آیا ہوا لَّا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي : پر شَيْءٍ : کسی شئے وَّمَنْ : اور جو رَّزَقْنٰهُ : ہم نے اسے رزق دیا مِنَّا : اپنی طرف سے رِزْقًا : رزق حَسَنًا : اچھا فَهُوَ : سو وہ يُنْفِقُ : خرچ کرتا ہے مِنْهُ : اس سے سِرًّا : پوشیدہ وَّجَهْرًا : اور ظاہر هَلْ : کیا يَسْتَوٗنَ : وہ برابر ہیں اَلْحَمْدُ : تمام تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اللہ (ابطال شرک کے لئے) ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ (فرض کرو کہ) ایک غلام ہے جو دوسرے کا ایسا مملوک ہے کہ (اپنے مالک کی اجازت کے بغیر) وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، اور دوسرا وہ شخص ہے جس کو ہم نے اپنی طرف سے دے رکھی ہو عمدہ روزی، اور وہ اس میں سے (اپنی مرضی کے مطابق) پوشیدہ بھی خرچ کرتا ہو، اور ظاہراً بھی، تو کیا یہ دونوں آپس میں برابر ہوسکتے ہیں ؟ (پس ثابت ہوا کہ معبود حقیقی بھی اللہ ہی ہے اور) ہر تعریف کا حقدار بھی اللہ ہی ہے، مگر لوگوں کی اکثریت ہے کہ وہ جانتے نہیں (حق اور حقیقت کو) ،
150۔ ابطال شرک کے لئے ایک مثال کا ذکر وبیان : اور توحید کے بارے میں صحیح مثال وہی ہوسکتی ہے جو وہ خود بیان فرمائے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ابطال شرک کیلئے ایک مثال بیان فرمائی۔ یعنی وہ آزاد شخص چاہے اور جیسے چاہے اور جہاں چاہیے اور جس قدر چاہے خرچ کرتا ہے کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے۔ تو ایسا شخص اور دوسرا وہ شخص جو عاجز ہو اور کچھ نہ کرسکتا ہو، کیا یہ دونوں شخص باہم ایک برابر ہوسکتے ہیں ؟ اور جب نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم لوگ خداوند قدوس کے ساتھ اس کے مملوکوں کو برابر کس طرح مانتے ہو ؟ جب وہ خالق کل اور مالک مطلق ہے۔ اور باقی سب اس کی مخلوق اور اس کے مملوک ہیں۔ آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا اور تم کہاں اور کیسے اندھے اور اوندھے ہورہے ہو ؟۔ 151۔ مشرکوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے والا سوال : کہ کیا یہ دونوں شخص باہم برابر ہوسکتے ہیں ؟ جب نہیں اور یقینا وہرگز نہیں۔ حالانکہ یہ دونوں بشر، انسان، اور مخلوق ہیں، تو پھر حضرت خالق، جل مجدہ۔ کے ساتھ کسی کی برابری کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے ؟ (مراغی، صفوۃ اور معارف وغیرہ) جبکہ وہ خالق کل مالک مطلق دائرہ مخلوق سے وراء الوراء ہے۔ تو پھر کیسے اندھے اور کس قدر اوندھے ہیں وہ لوگ جو اپنے خود ساختہ معبودوں کو اس کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ (لایقدرعلی شیء) کہ " کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہو " کی صفت کا شفہ سے اس غلام کی بےاختیاری کو اور واضح کردیا گیا۔ کیونکہ غلاموں میں ایک غلام وہ بھی ہوتا ہے جس کو کسی قدر تصرف کی اجازت ہوتی ہے۔ جس کو " عبد ماذون " کہا جاتا ہے۔ اور ایک وہ ہوتا ہے جو " مکاتب " کہلاتا ہے۔ جسے مالک نے بقدر ضرورت وحاجت کمائی کیلئے اجازت دے رکھی ہوتی ہے۔ جو فقہ کی اصطلاح میں " بدل کتابت " کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔ مگر یہ غلام اس طرح کا کوئی اختیار بھی نہیں رکھتا۔ سو اس سوال سے مشرکوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے تاکہ وہ باز آجائیں شرک کے گھناؤنے جرم سے۔ مگر کہاں ؟ الا ماشاء اللہ۔ 152۔ سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں : کہ وہی ہے جو ہر نقص وعیب سے پاک اور ہر خوبی و کمال سے متصف ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ وبحمدہ۔ اور وہی معبود برحق ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے جبکہ تمہارے خود ساختہ معبودوں میں سے اے مشرکو ! نہ کسی کے اختیار میں کچھ ہے۔ اور نہ ان کیلئے کسی طرح کی تعریف و توصیف کا کوئی حق ہے کہ وہ سب سراسر بےبنیاد ہیں۔ جبکہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور جس کو جو کچھ ملا، یا ملنا ہے یا آئندہ ملے گا، وہ سب اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top