Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 78
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا١ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَخْرَجَكُمْ : تمہیں نکالا مِّنْ : سے بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہ جانتے تھے شَيْئًا : کچھ بھی وَّجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
اور خدا ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور انکھیں اور دل (اور انکے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو۔
78۔ 79۔ اوپر ذکر تھا کہ جب وقت آئے گا تو پلک جھپکنے میں درمیانی یا آخری قیامت آجائے گی کیونکہ اسے ہر شے پر پوری قدرت ہے وہ کسی چیز سے عاجز نہیں ہے منکر حشر یہ نہ سمجھیں کہ قیامت نہ ہوگی اور پھر انسان دوبارہ زندہ نہ ہوں گے اب فرمایا کہ اللہ پاک نے تمہیں اس حالت میں پیدا کیا کہ تمہارا کچھ وجود نہ تھا باپ کی پیٹھ سے ماں کے شکم میں نطفہ کو ٹھہرا دیا اور رفتہ رفتہ اس نطفہ سے پتلا بنایا پھر روح پھونکی اور تمہیں ماں کے پیٹ سے جب روئے زمین پر ظاہر کیا اس وقت بھی تمہاری حالت یہ تھی کہ تم دنیا میں کسی چیز کو نہیں جانتے تھے نہ نفع کی چیزوں کا تمہیں علم تھا نہ ضرر دینے والی اشیا کو تم جانتے تھے نہ دوست کو پہچانتے تھے نہ دشمن کی شناخت تھی یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کو بھی نہیں پہچانتے تھے مگر اللہ پاک نے تمہیں کان دئیے کہ تم لوگوں کی باتوں کو سنو کہ وہ کیا کہتے ہیں اور آنکھیں بھی دیں کہ اچھے برے کو دیکھ کر تمیز کرو اور اپنی زندگی میں ان آنکھوں کے ذریعہ سے مناسب کام لو نفع و ضرر کو دیکھو دوست و دشمن کو پہچانو غرض کہ آنکھیں عجب نعمت ہیں ان کی حقیقت اور قدر وہی جانتا ہے جو کسی زمانے میں آنکھیں رکھتا ہو اور پھر بحکم قضا و قدر اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہوگیا پھر اسی پر اللہ پاک نے اکتفا نہیں کیا انسان کو دل بھی دیا تاکہ ہر شے کو سمجھے بوجھے اطباء کے قول کے موافق دل مرکز حیات ہے اگر دل میں کچھ فتور پڑجاوے تو انسان کی زندگی کے لالے پڑجاتے ہیں۔ بہر حال یہ نعمتیں ایسی نہیں ہیں جن کو انسان بھول جاوے اور ان پر منعم حقیقی کا شکر نہ بجا لائے انسان جس طرح اپنے کمال پر پہنچتا جاتا ہے اسی طرح اس کے کان اور دل کی قوت میں ترقی ہوتی جاتی ہے اور اس حقیقی مالک کی ہستی پر دلیل قائم کرتا ہے اور اس بات کو پائے ثبوت تک پہنچا دیتا ہے کہ انسان جیسے کل زرے کے پتلے کی پیدا کرنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ذات ہے جس کا کوئی مثل نہیں پھر اللہ پاک اپنی ہستی پر دلیل قائم کرتا ہے اور اس بات کو پائے ثبوت تک پہنچا دیتا ہے کہ انسان جیسے کل پرزے کے پتلے کی پیدا کرنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ذات ہے جس کا کوئی مثل نہیں پھر اللہ پاک نے اپنی ہستی پر دوسری دلیل قائم کی کہ آسمان و زمین کے درمیان میں تم سینکڑوں جانوروں کو اڑتے ہوئے دیکھتے ہو جن کو نہ آسمان سے کوئی تعلق نہ زمین سے کوئی علاقہ جس طرح انسان دریا میں تیرتا ہے اسی طرح یہ ہوا میں سیر کرتے پھرتے ہیں کیا ان کا تھامنے والا اور روکنے والا سوائے خدا کے اور کوئی ہے ہرگز نہیں یہ بھی اس کی ادنیٰ قدرت ہے ورنہ یہ خاکی جانور اپنے اجسام کے بوجھ کے سبب سے فوراً زمین پر آن پڑتے پھر فرمایا کہ یہ باتیں ایسی ہیں جن پر سلیم عقلیں ایمان لاتی ہیں اور ایمان دار بندے جو خدا کے دین کے تابعدار ہیں ان باتوں سے خدا کی وحدانیت اور اس کے عجائب قدرت پر دلیل پکڑتے ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے اور صحیح مسلم میں حذیفہ بن اسید ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ حمل کے دوسرے چلے میں بچے کے آنکھ کان اور دل کی بناوٹ شروع ہوجاتی ہے اور چار مہینے میں بچہ کا پتلا بالکل تیار ہو کر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے 1 ؎۔ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پایا کہ آنکھ کان اور دل کی بناوٹ تو ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے اور ان اعضاء سے نفع اٹھانے کا موقع ماں کے پیٹ سے پیدا ہوجانے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور آیتوں میں ان اعضاء سے نفع اٹھانے کا اور اس کی شکر گزاری کا ذکر ہے اس لئے آیتوں میں بچہ کی پیدائش کے بعد ان اعضاء کا ذکر فرمایا اور حدیثوں میں ان اعضاء کی ساخت اور بناوٹ کے وقت کا ذکر فرمایا گیا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ آیتوں اور حدیثوں میں کچھ مخالفت نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی تفسیر ہے۔ اوپر اڑتے ہوئے جانور آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز پر آدمی کو پورا یقین ہوجاتا ہے اس لئے آنکھوں کے ذکر کے بعد اڑتے ہوئے جانوروں کا ذکر فرمایا تاکہ آنکھوں والا شخص اس قدرت الٰہی کو دیکھے اور اس صاحب قدرت کو پہچانے اور اس کی تعظیم میں کسی کو شریک نہ کرے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 580 ج 2۔
Top