Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور آسمانوں اور زمین کا علم خدا ہی کو ہے اور (خدا کے نزدیک قیامت کا آنا یوں ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ (اس سے بھی) جلد تر۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
77۔ آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم کو ذکر فرمایا کہ غیب کا علم سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں ہے انبیاء اور رسول کوئی بھی غیب دان نہیں ہیں اللہ پاک نے جس کو جتنا وحی یا الہام کے ذریعہ سے خبردار کردیا وہ اتنا ہی جانتا ہے اور ماسوا اس کے آسمان و زمین میں جو جو باتیں غیب کی ہیں اس کا علم کسی کو نہیں خدا ہی جانتا ہے اور غیب کا علم اسی کے ساتھ خاص ہے چناچہ صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ سے روایت ہے 1 ؎، کہ جب حضرت جبریل (علیہ السلام) نے انسان کی شکل میں آکر آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کب ہے تو آپ نے یوں اپنی لا علمی ظاہر کی کہ پوچھنے والے سے میں زیادہ نہیں جانتا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پوچھنے والے کو اس کا علم نہیں ہے کیونکہ اگر وہ جانتا ہوتا تو پھر پوچھتا کیوں اسی طرح مجھے بھی اس کا علم نہیں ہے۔ جو چیز مخلوقات کی نظر سے غائب ہے اس کو غیب کہتے ہیں مثلاً دنیا میں یہ کہ قیامت کب آوے گی یا کل کیا ہوگا یا مینہ کب برسے گا یا حاملہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی یا عقبیٰ میں عذاب قبر جنت دوزخ کا حال یہ سب غیب کی باتیں ہیں سورت الجن میں آوے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے بذریعہ وحی کے ان کی باتوں میں سے کچھ باتیں بتلا دیتا ہے تاکہ اس غیب کی بات کا ظاہر کردینا نبوت کی نشانی ٹھہرے۔ مثلاً بدر کی لڑائی میں جو سرکش لوگ مارے جانے والے تھے ان کے مارے جانے سے ایک رات پہلے ان لوگوں کے نام اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتلا دئیے۔ اور اللہ کے رسول ﷺ نے یہ حال صحابہ سے کہہ دیا۔ چناچہ صحیح مسلم کی انس بن مالک ؓ کی یہ روایت ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوذر ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ سے فرمایا دوزخ کا حال جو کچھ مجھ کو معلوم ہے اگر وہ تفصیل سے تم لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو تم ہنسنا بالکل کم کر دو ہر وقت روتے رہو بستی چھوڑ کر جنگل کو نکل جاؤ اور وہاں ہر دم اللہ سے لو لگائے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لئے بعض غیب کی باتیں اللہ کے رسول نے بقدر ضرورت مختصر طور پر امت کو بتلائی ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان جھوٹے معبودوں کو جب بھلا برا حال ہی کسی کا معلوم نہیں کہ آئندہ ان کے پوجنے والوں کے حق میں کیا ہونے والا ہے تو پھر یہ اپنے پوجنے والوں کے آئندہ کے نہ کسی ضرر کو دفع کرسکتے ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں چناچہ مکہ کے قحط میں ان مشرکوں کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے کہ ان جھوٹے معبودوں سے کچھ مدد و رفع قحط میں ان مشرکوں کو نہ ملی آخر اللہ کے رسول کی دعا سے وہ قحط رفع ہوا جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بارگاہ الٰہی میں اللہ کے رسولوں کا کیا مرتبہ ہے اور ان جھوٹے معبودوں کی رسائی اس بارگاہ میں کہاں تک ہے۔ حدیث شریف میں قیامت کا لفظ آنحضرت ﷺ نے دو معنے میں فرمایا ہے ایک تو کسی زمانے کے سارے موجودہ لوگوں کا رفتہ رفتہ اپنی عمر پا کر مرجانا اور دوسرے زمانہ کے لوگوں کا ان پہلے لوگوں کی جگہ پیدا ہوجانا مثلاً رفتہ رفتہ سارے صحابہ کا وفات پا کر تابعیوں کے زمانہ کا آجانا یہ گویا ایک زمانے کے لوگوں کے مرجانے کے حساب سے ایک درمیانی قیامت ہے اسی زمانہ کو قرن صحابہ اور قرن تابعین کہتے ہیں۔ دوسرے تمام دنیا کی عمر پوری ہو کر صور کا پھونکا جانا غرض یہ دونوں صورتیں اس طرح کی ناگہانی اور اچانک آنے والی ہیں کہ جب ان کا وقت آوے گا تو آنکھ جھپکانے میں آجاوے گا کیوں کہ ہر شخص کو اپنی عمر کا حال معلوم نہیں کہ آنکھ جھپکانے میں کب مرجاوے اسی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ جس قدر روحوں کا دنیا میں پیدا کرنا اللہ تعالیٰ نے ازل میں ٹھہرایا ہے ان کی گنتی کب پوری ہوجاوے اور اس آخری قرن کے ختم پر دنیا کی عمر ختم ہو کر پلک جھپکانے میں صور پھونک دیا جاوے اور تمام عالم تباہ ہوجاوے اس واسطے ہر انسان کی عمر بھروسہ نہ ایک پل کا ہے نہ دنیا کی عمر کا کچھ بھروسہ ہے۔ اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ غفلت سے لوگ اپنی عمر اور دنیا کی عمر کے بھروسہ پر بڑے بڑے دیر طلب کام کرتے ہیں اللہ کے نزدیک وعدہ آجانے کی دیر ہے پھر اس کی قدرت کے روبرو درمیانی اور آخری قیامت کا قائم ہوجانا پلک کے جھپکنے سے بھی نزدیک ہے کیونکہ اس کی درگاہ میں ہر کام کے لئے فقط حکم کی دیر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ برے کام سے توبہ اچھے کام کا سرانجام جو کچھ انسان کو کرنا ہے وہ آج کرلے آج کے کام کو کل پر نہ رکھے کس لئے کہ جب انسان کی عمر کو قیام ہی نہیں تو نہیں معلوم کہ کل کیا ہو۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ جب آنحضرت ﷺ سے قیامت کے آنے کا حال پوچھا کرتے تھے تو آپ ایک نو عمر لڑکے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے کہ یہ لڑکا بوڑھا نہ ہونے پاوے گا کہ اتنے میں تم لوگوں کی قیامت قائم ہوجاوے گی۔ مطلب یہ ہے کہ اس لڑکے کے بوڑھا ہونے سے پہلے اس قرن کے سب عمر رسیدہ لوگ مرجاویں گے یہ حدیث قیامت کے پہلے معنے کی تفسیر ہے۔ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو ہلاک کر چکیں گے تو ملک شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا آوے گی جس سے اس طرح کے سب لوگ مرجاویں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اب دنیا میں پھر شرک پھیل جاوے گا۔ اسی حالت میں پہلا صور پھونکا جاوے گا اور تمام دنیا برباد ہوجاوے گی 3 ؎۔ یہ حدیث قیامت کے دوسرے معنے کی تفسیر ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ مر نے کے بعد جو شخص قیامت کے دن جنت میں جانے والا ہے اس کو اس کا جنت کا ٹھکانہ اور جو دوزخ میں جانے والا ہے اس کو اس کا دوزخ کا ٹھکانا صبح شام اللہ کے فرشتے دکھا کر یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اس ٹھکانے میں جانے کے لئے تجھ کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا 4 ؎۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں ہر قرن کی موت کو قیامت جو فرمایا ہے اس کی یہ تفصیل عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی ہر شخص کو قیامت کے دن کا اپنا انجام معلوم ہوجاتا ہے اس لئے ہر قرن کے لوگوں کے حق میں ان کی موت بھی گویا قیامت ہے ان اللہ علی کل شئی قدیر اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے اس لئے وقت مقررہ پر ایک قرن کے لوگوں کی موت اور تمام دنیا کی بربادی اور پھر جزا و سزا کے لئے حشر کا قائم ہونا ان سب چیزوں کی اس کو قدرت ہے جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ نادان ہیں۔ کیونکہ دنیا کا کارخانہ دیکھ کر یہ ہر سمجھدار سمجھ سکتا ہے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ بغیر جزا و سزا کے بےٹھکانے رہ جاتا ہے۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 202۔ 208 وغیرہ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 480 باب قرب الساعۃ الخ۔ 3 ؎ صحیح مسلم ص 403 ج 2 باب ذکر الدجال۔ 4 ؎ صحیح بخاری ص 184 ج 1 باب المیت یعرض علیہ مقعدہ الخ۔
Top