Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 98
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
ذٰلِكَ : یہ جَزَآؤُهُمْ : ان کی سزا بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہوجائیں گے ہم عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم لَمَبْعُوْثُوْنَ : ضرور اٹھائے جائیں گے خَلْقًا : پیدا کر کے جَدِيْدًا : از سر نو
یہ ان کی سزا ہے اس لئے کہ وہ ہماری آیتوں سے کفر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا کیے جائیں گے ؟
98۔ 99:۔ اوپر نافرمان لوگوں کے عذاب کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ یہ عذاب ان لوگوں پر کچھ ظلم کے طور پر نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پر حرام ٹھہرایا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی روایت کی حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس لیے فرمایا کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی عقل سے باہر اس پاک ذات نے بغیر ستون کے آسمان کس طرح بنائے اور پانی پر زمین کیونکر بچھائی پھر آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی طرح مٹی سے ان کے دوبارہ پتلے بنانا اور ان میں روح کا پھونکنا اس کی قدرت کے آگے کیا مشکل ہے۔ وہی یہ بات کہ آخر یہ کب ہوگا اس کے واسطے اللہ کے کارخانہ میں ایک وقت مقرر ہے اس وقت کو بغیر کسی سند کے جو یہ لوگ جھٹلاتے ہیں اس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑے گا۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ ؓ کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 2 ؎ کہ منکر نکیر کے سوال اور مردہ کے جواب کے بعد نیک شخص کو جنت کا اور بدشخص کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر فرشتے یہ جتلا دیتے ہیں کہ اس ٹکھانے میں رہنے کے لیے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا 3 ؎۔ ابوداؤد اور مسند امام احمد کے حوالہ سے براء بن عازب کی صحیح حدیث بھی گزر چکی ہے 4 ؎۔ کہ نیک لوگ اپنا جنت کا ٹھکانا دیکھ کر قیامت کے جلدی سے قائم ہونے کی اور بد لوگ اپنے دوزخ کے ٹھکانا سے ڈر کر قیامت کے قائم نہ ہونے کی آرزو کریں گے ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اب تو یہ لوگ مسخرا پن سے قیامت کے آنے کی جلدی کرتے ہیں مگر مرنے کے ساتھ ہی جب ان کا قیامت کا انجام ان کو دکھا دیا جائے گا تو پھر اس سے ڈر کر بجائے قیامت کی جلدی کے انہیں قیامت کے قائم نہ ہونے کی آرزو کرنی پڑے گی۔ 1 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 34 ج 3۔ 2 ؎ تفسیرہذاص 171 ج 2۔ 3 ؎ تفسیر ہذاص 171 ج 2۔ 4 ؎ ایضا۔
Top