Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
پھر وہ اس (بچے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تو نے برا کام کیا
27۔ 33:۔ تفسیر سدی میں ہے کہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے کے بعد شیطان نے مریم (علیہا السلام) کی قوم میں یہ خبر پھیلا دی کہ مریم کے ہاں بن باپ کا بچہ پیدا ہوا اس خبر کو سن کر قوم کے لوگ بڑے جوش میں آئے اور مریم (علیہا السلام) کو اس الگ مکان میں سے بستی میں بلایا اس پر مریم (علیہا السلام) چلہ نہانے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر قوم کے لوگوں کے پاس گئیں یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق ہے کہ گھبراہٹ کے وقت مریم (علیہ السلام) کو جو آواز آئی تھی وہ جبرئیل (علیہ السلام) کی آواز نہیں تھی۔ اوپر گذر چکا ہے کہ مجاہد کے قول کو ترجیح دی ہے اس واسطے تفسیر ابن جریر میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بولنے سے جب مریم (علیہا السلام) کو یہ اطمینان ہوگیا کہ قوم کے لوگوں سے عیسیٰ (علیہ السلام) خود جوابدہی کرلیں گے تو اسی اطمینان کے بھروسہ پر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں لے کر قوم کے لوگوں کے پاس آئیں غرض جب مریم (علیہا السلام) گود میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو قوم کے لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے مریم تم نے یہ انوکھا کام کیا اور یہ بھی کہنے لگے کہ نیک نامی کی شہرت میں ہارون کی بہن مریم تمہارے ماں باپ تو ایسے بد رویہ نہ پھر تم کس پر ہوئیں جو تم نے ایسا انوکھا کام کیا قوم کے لوگوں کی یہ باتیں سن کر مریم (علیہا السلام) نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ میرا تو خاموشی کا روزہ ہے مگر جس لڑکے کی پیدائش کو انوکھا کہا جاتا ہے اس کی جواب دہی خود وہ لڑکا ہی کرلے گا۔ حضرت مریم کے اس اشارہ کے مطلب کو سمجھ کر قوم کے لوگوں کو بہت غصہ آیا اور غصہ سے یہ کہنے لگے کہ چالیس دن کے بچہ نے دنیا میں کہیں باتیں کی ہیں جو ہم اس لڑکے سے بات چیت کریں قوم کے لوگوں کی سب باتیں سن کر عیسیٰ (علیہ السلام) نے وہ جواب دیا جس کا ذکر آگے آتا ہے اگرچہ تفسیر سدی میں ہے کہ مریم (علیہا السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے خاندان میں سے تھیں اس واسطے قوم کے لوگوں نے مریم (علیہا السلام) کو ہارون کی بہن کہا کیونکہ عرب کا یہ محاورہ ہے مثلا تمیمی قبیلہ کے مردوں کو تمیم کا بھائی اور عورتوں کو تمیم کی بہن کہتے ہیں۔ یہی قول شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں لیا ہے لیکن قتادہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک نیک شخص مریم (علیہا السلام) کے زمانہ کا تھا اسی تشبیہ سے قوم کے لوگوں نے مریم (علیہا السلام) کو ہارون کی بہن کہا ہے 1 ؎۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مریم تم تو بنی اسرائیل میں کے زمانہ حال سے ہارون کی طرح نیک مشہور تھیں ‘ پھر تم نے انوکھا کام کیوں کیا۔ صحیح مسلم میں مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن میں مریم (علیہا السلام) کو جس ہارون کی بہن کہا گیا ہے وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بھائی کے علاوہ دوسرا شخص تھا 2 ؎۔ اس حدیث سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس واسطے حافظ ابو جعفر، ابن جریر نے قتادہ کے قول کی پوری تائید کی ہے عیسیٰ علیہ اسلام نے قوم کے لوگوں کو جو جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اے لوگوں میں اللہ کا بندہ اور نبی ہوں اس طرح خلاف عادت میرا پیدا ہونا ایسا ہی میرا ایک معجزہ ہے جس طرح خلاف عادت میرا بولنا معجزہ ہے قرآن شریف کے ان آیتوں میں جس طرح یہ ذکر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو اللہ کا بندہ کہا اس طرح کا ذکر یوحنا کی انجیل کے باب میں بھی ہے قرآن کا جھٹلانا تو عیسائیوں کے نزدیک سہل ہے مگر معلوم نہیں انجیل کے باب 17 کو یہ لوگ کس طرح جھٹلاتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن کی عمر میں اپنے آپ کو نبی صاحب کتاب جو جتلایا اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ ان کو صاحب کتاب نبی کرے گا۔ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے عالم ارواح میں جو عہد لیا گیا ہے اس کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہر نبی کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے اپنی نبوت کا حال معلوم ہے اسی واسطے ترمذی میں ابوہریرہ ؓ کی صحیح روایت ہے جس میں خاتم الانبیاء ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پیدا ہونے سے پہلے میں نبی تھا 3 ؎۔ اپنی نبوت کے ذکر کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نبی ہو کر ہر وقت میں اللہ کی رضامندی کے کاموں کی نصیحت لوگوں کو کرتا رہوں گا اس لیے میں جہاں رہوں گا وہاں خیرو برکت رہے گی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو زندگی نماز و زکوۃ کا حکم فرمایا عی سے (علیہ السلام) کے حال میں علماء نے لکھا ہے کہ زکوٰۃ کے قابل نقد روپیہ کا جمع کرنا تو درکنار عیسیٰ (علیہ السلام) دور سے ان کے لیے کوئی کھانے کی چیز نہیں رکھتے تھے اسی واسطے زکوٰۃ کے معنی گناہوں سے پاک رہنے کے ہیں پھر فرمایا مجھ کو یہ بھی حکم ہے کہ میں ماں کے ساتھ سلوک سے رہوں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایتیں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے انجام 4 ؎ اور لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کے انجام میں اوپر گزر چکی ہیں وہی روایتیں (وبرا بوالدتی ولم بجعلنی جبارا شقیا) کی گویا تفسیر ہیں۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ماں باپ سے بدسلو کی کرنے والا جنت کے اور ظلم و زیادتی کرنے والا دنیا کے ہاتھ سے کھو دینے کے سبب سے بڑا بدنصیب ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہر ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس بچے کی پسلی میں اپنی انگلی چبھو کر اس بچہ پر تسلط جماتا ہے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس تسلط سے امن وامان میں رکھا ہے 5 ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے نواس بن سمعان کی روایت سورة الکہف میں گزر چکی ہے کر قیامت کے قریب عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتر کر آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے 6 ؎۔ سورة الانبیاء میں آئے گا کہ مشرکین مکہ نے جب اپنے بتوں کا دوزخ کا ایندھن بنائے جانے کا حال سنا تو مشرک یوں کہنے لگے کہ نصرانی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں تو عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی کیا ہمارے بتوں کے ساتھ ہوں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ کے ایسے خاص بندے قیامت کے دن کی ہر ایک آفت سے بےفکر اور ہر طرح امن وامان میں رہیں گے عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جو فرمایا کہ پیدا ہونے کے دن مرنے کے دن اور حشر کے دن کی پریشانی سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو امن وامان میں رکھا ہے اس کا مطلب سورة الانبیاء کی آیتوں اور اوپر کی حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونے کے دن مرنے کے دن ان کو شیطان کے تسلط سے امن میں رکھا اور غازی نبی ہونے کا مرتبہ دے کر دنیا سے اٹھایا اور حشر کے دن کی ہر ایک آیت سے امن میں رکھنے کا وعدہ اپنے کلام پاک میں فرمایا۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 118 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 119 ج 3۔ 3 ؎ جامع ترمذی ص 201 ج 2 باب ماجاء فی فضل انبی ﷺ ۔ 4 ؎ صحیح مسلم ص 312 ج 2 کتاب البروالصلہ۔ 5 ؎ مشکوٰۃ ص 18 باب فی الوسوسہ۔ 6 ؎ صحیح مسلم ص 400 ج 2 باب ذکر الدجال۔
Top