Anwar-ul-Bayan - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
سو وہ اس بچہ کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس لے کر آئی ان لوگوں نے کہا کہ اے مریم یہ تو تو نے بڑے غضب کا کام کیا
ولادت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قوم کے پاس گود میں لے کر آنا، قوم کا معترض ہونا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب دینا اور اپنی نبوت کا اعلان فرمانا چونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ مریم کے بچہ تولد ہونا ہے اور وہ بھی بغیر باپ کے لہٰذا وہ بچہ پیدا ہوگیا جب اس کی ولادت ہوگئی تو اسے آبادی میں لے کر آنا تھا وہ اس بچہ کو گود میں اٹھا کر آبادی میں لے آئیں وہاں قوم کے لوگ موجود تھے انھوں نے بچہ کو گود میں دیکھ کر کہا کہ اے مریم یہ بچہ کہاں سے آیا ؟ ہمارے علم میں تو یہی بات ہے کہ تیری شادی نہیں ہوئی جب بچہ حلال کا نہیں ہے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بچہ بدکاری سے پیدا ہوا ہے یہ تو تو نے بڑے ہی غضب کا کام کیا تیری جیسی خاتون سے بدکاری کا سرزد ہونا بڑے تعجب کی بات ہے اے ہارون کی بہن نہ تو تمہارے باپ برے آدمی تھے نہ تمہاری ماں بدکار تھی تمہیں بھی انھیں کی طرح پاک رہنا لازم تھا۔ تمہارے بھائی ہارون (جو خاندان کے ایک شخص ہیں) وہ بھی نیک شخص ہیں جب سارا ہی خاندان نیک ہے تو تمہیں بھی ہر اعتبار سے نیک اور صالح ہونا چاہیے تھا۔ حضرت مریم [ نے لوگوں کی طعن وتشنیع والی باتیں سنیں اور خود سے جواب نہیں دیا بلکہ نومولود بچہ کی طرف اشارہ کردیا جو ان کی گود میں تھا۔ لوگ کچھ یوں سمجھے کہ یہ ہم سے تمسخر کر رہی ہے۔ کہنے لگے ہم ایسے شخص سے کیسے بات کریں جو ابھی گود میں بچہ ہی ہے۔ ان لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ بچہ خود ہی بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی (یعنی عطا فرمائے گا) اور اس نے مجھے نبی بنایا یعنی مجھے نبوت عطا فرمائے گا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے برکت والا بنایا میرے ذریعہ خیر پھیلے گی اور اس نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم فرمایا جب تک کہ میں زندہ رہوں اور مجھے والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔ (لہٰذا میں اپنے خالق کے حقوق ادا کروں گا اور اپنی والدہ کے بھی) ۔ اور مجھ پر اللہ کی طرف سے سلام ہے جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میری وفات ہوگی اور جس روز میں زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہودی اس بچہ سے دشمنی کریں گے اور ان کی نبوت کے انکاری ہوں گے اور نصرانی ان کے بارے میں بہت زیادہ غلو کریں گے کچھ لوگ ان کے بارے میں کہیں گے کہ اللہ انھیں کی ذات ہے اور کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ اللہ کا بیٹا ہے اس لیے ابھی سے ان کی زبان مبارک سے یہ کہلوا دیا کہ میں اللہ نہیں ہوں بلکہ اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ کی مخلوق ہوں اور اللہ کا مامور ہوں اس نے مجھے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم فرمایا (جو خود عبادت گزار ہو وہ کسی کا معبود نہیں ہوسکتا اور عابد و معبود ایک نہیں ہوسکتے) اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک اور خدمت گزار کے طریقہ پر پیش آؤں گا۔ بَرًّام بْوَالِدَتِیْ فرما کر یہ بتادیا کہ میرا کوئی باپ نہیں یاد رہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں برا بوالدیہ فرمایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں ان کی زبان سے بَرًّا بْوَالِدَتِیْ کہلوایا اس لفظ میں ہمیشہ کے لیے اس بات کی نفی ہوگئی کہ ان کا کوئی باپ ہو۔ نصاریٰ کی حماقت اور ضلالت کو دیکھو کہ جس ذات کو اللہ یا ابن اللہ یا الٰہ (معبود) کہہ رہے ہیں اس کا اپنا بیان تو یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور صرف ماں کا بیٹا ہوں لیکن یہ لوگ کبھی انھیں یوسف نجار کا بیٹا بتاتے ہیں اور کبھی اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں العیاذ باللہ من ذلک کلہ درحقیقت یہود و نصاریٰ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں جن گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے نہایت صفائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان فرما دیا سورة مریم میں اور سورة آل عمران میں واضح طور پر یہ بتادیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن قرآن کی تصریحات کے خلاف دور حاضر کے بہت سے زندیق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باپ تجویز کرتے ہیں۔ (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ انّٰی یُؤْفَکُوْنَ )
Top