Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 92
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖ٘ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
اِنَّ : بیشک هٰذِهٖٓ : یہ ہے اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک (یکتا) ڮ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو
92۔ 94:۔ امت کے معنی ایسی جماعت کے ہیں ‘ جس کے سب آدمی ایک ہی مقصد پر جمے ہوئے ہوں ‘ اس مطلب کے ادا کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے یہاں امت کے معنی دین کے لیے ہیں ‘ حاصل ان معنوں کا یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کے احکام کی پابندی اصل دین ہے ‘ اس مقصد کے پھیلانے میں سارے انبیاء ایک ہیں ‘ ضرورت وقتیہ کے لحاظ سے فقط حلال و حرام کے احکام بدلتے رہے ہیں جس کی ہر ایک نبی کی شریعت کہتے ہیں لیکن اصل دین کی ہر ایک شریعت میں تاکید ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اصل دین کے حساب سے سب انبیاء اس طرح سے ایک ہیں جس طرح ایک باپ کی اولاد میں بھائی ایک ہوتے ہیں ‘ ہاں حلال و حرام کے احکام ہر شریعت کے اس طرح الگ الگ ہیں جس طرح ایک باپ کی اولاد کے دو بھائیوں کی ماں جدا ہوا کرتی ہے ‘ اس حدیث سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اوپر کے قول کا مطلب اچھی طرح سجھ میں آجاتا ہے ‘ آگے فرمایا اصل دین میں اگرچہ سب انبیاء ایک ہیں لیکن جن لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجے گئے انہوں نے انبیاء کی نصیحت کو نہیں مانا اور ایک دین کے بہت سے دین ٹھہرائے مثلا کوئی بت پرست ہے ‘ کوئی ستارہ وآتش پرست ‘ پھر فرمایا ‘ ایک دن یہ سب اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوں گے اور ایماندار کے نیک عمل کی جزا رائیگاں نہ جائے گی کیونکہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ اجر جن نیکیوں کا ہے وہ سب نیکیاں دفتر الٰہی میں صبح وشام لکھی جاتی ہیں ‘ اسی طرح بد لوگ اپنی بدی کی سزا سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے کہ ان نیک لوگوں کے سب برے عملوں کا اعمال نامہ بھی دفتر الٰہی میں موجود ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک اور بعضی نیکیوں کا اس سے بھی زیادہ ہے اور بدی کی سزا میں کچھ زیادتی نہ ہوگی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے کا اور نیکی کے اکارت نہ جانے کا جو ذکر ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 509 باب بدء الخلق وذکر الانبیآئ۔ )
Top