Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 55
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) من گھڑت باتیں ہیں جو اس (مدعی رسالت) نے بنا لی ہیں اور لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ہے یہ لوگ (ایسا کہنے سے) ظلم اور جھوٹ پر (اتر) آئے ہیں
4۔ 6:۔ صحیح 1 ؎ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ہرقل بادشاہ روم اور ابوسفیان کا جو قصہ ہے ‘ اس میں ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا ہے کے نبوت سے پہلے تم قریش کے لوگوں کو ان نبی کے جھوٹ بولنے کا کچھ تجربہ ہوا ہے ‘ اس کے جواب میں ابو سفیان کیونکہ روا رکھے گا۔ ان آیتوں میں مشرکین مکہ کو بےانصاف اور جھوٹا جو فرمایا ‘ اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ نبوت سے پہلے چالیس برس تک جب یہ آزما چکے کہ محمد ﷺ کی عادت ہرگز جھوٹ بولنے کی نہیں ہے تو اب نبوت کے بعد ان لوگوں کا اللہ کے رسول کو جھٹلانا اور یہ کہنا بڑی ناانصافی اور بالکل جھوٹ ہے ‘ کہ مکہ میں چند یہودی جو رہتے ہیں وہ صبح وشام پچھلی قوموں کے کچھ قصے محمد ﷺ کو لکھ کر دے دیتے ہیں اور محمد ﷺ زبردستی ان باتوں کو اللہ کا کلام بتلاتے ہیں ‘ آگے فرمایا ‘ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ قرآن میں جو آسمان و زمین کی غیب کی خبریں ہیں ان سے تم لوگ سمجھو تو یہ بات تمہاری سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ قرآن اس اللہ کا کلام ہے جس کو آسمان و زمین کے سب بھید کی باتیں معلوم ہیں اور باوجود اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے تم لوگوں پر جلدی سے کوئی آفت جو نہیں آتی ‘ اس کا سبب یہی ہے کہ ہمیشہ سے یہ ایک عادت الٰہی ہے کہ نافرمان لوگوں کو پہلے اللہ تعالیٰ اپنی درگزر اور مہربانی سے مہلت دیتا ہے ‘ پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کی ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت کے حوالہ سے اس کی عادت الٰہی ہے کہ نافرمان لوگوں کو پہلے اللہ تعالیٰ پانی درگز اور مہربانی سے مہلت دیتا ہے ‘ پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کی ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت کے حوالہ سے اس عادت الٰہی کا ذکر کئی جگہ اوپر گزر چکا ہے 1 ؎‘ یہ حدیث اِنَّہٗ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا کی گویا تفسیر ہے جس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نافرمان لوگوں کو پہلے مہلت دیتا ہے ‘ پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے چناچہ تیرہ چودہ برس کی مہلت کے بعد بدر کی لڑائی میں اس وعدہ کا جو کچھ ظہور ہوا ‘ اس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے کہ اس لڑائی میں بڑے بڑے قرآن کے جھٹلانے والے دنیا میں نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جن کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا ‘ کہ اب تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کو سچا پایا۔ (1 ؎ صحیح بخاری ص 4 جلد اول۔ ) (1 ؎ نیز حوالہ کے لیے دیکھئے مشکوٰۃ ص 434 باب الظلم )
Top