بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
طس، یہ قرآن اور کتاب روشن کی آیتیں ہیں
سورة النمل : (1 تا 4) سورتوں کے شروع میں جو حرف مقطعات ان کا حال مفصل طور سے سورة بقرہ کے شروع میں بیان ہوچکا ہے لفظ تلک سے یہ سورت اور تمام قرآن کی آیتیں مقصود ہیں اور مبین کے معنی واضح اور ظاہر کے ہیں اور دوسری آیت کا یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف سے اسی کو ہدایت اور بشارت ہوتی ہے جس نے قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا یقین کیا اور اس پر ایمان لایا اور جو احکام اس میں ہے ان پر عمل کیا فرض نماز پڑھے زکوٰۃ دے اور آخرت کو سچا جاننا کہ مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور نیکی بدی پر جزا و سزا ضرور ملے گی اور جنت اور دوزخ حق ہیں جیسا کہ سورة حم السجدہ میں فرمایا قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ھَدْیً وَّشَفَآئٌ وَالَّذِیْنَ لَا یُوْء مِنُوْنَ فِیْ اٰذَانِھِمْ وَفُرْ وَّھُوْ عَلَیْھِمْ عَمًٰی اَوْ لٰئِکَ یُنَا دَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَّعِید جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمانداروں کو قرآن سے سوجھ ہے اور روگ کا دفعیہ اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کو اندھاپن ہے ان کی مثال ایسی جیسے کسی کو دور سے بلایا جائے اور وہ نہ سنے غرض اور اسی قسم کی اور آیتیں ہیں پھر فرمایا جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کو چھا کر دکھایا ان کے عملوں کو اس لیے وہ سرگرداں ہیں اپنی گمراہی میں اور یہ سزا ہے ان کو آخرت کے جھٹلانے کی جیسا کہ سورة الانعام میں فرمایا ونقلب افئد تھم وابصار ھم کمالم یؤمنوابہ اول مرۃ ونذرھم فی طغیانھم یعمھون جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ سے راہ راست پر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اس واسطے نہ ایسے لوگوں کے دل پر نیک بات کا اثر پڑتا ہے نہ وہ آنکھوں سے اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھتے ہیں پھر فرمایا یہ لوگ ہیں جن کے لیے بری مار ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے یہ حدیث ھدی وبشری للمؤمنین کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کی نصیحت سے اچھے ایمان دار لوگ نفع حاصل کرتے ہیں اور بدلوگوں کے حق میں قرآن کی نصیحت اسی طرح رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے نیک عمل کے قبول ہونے میں عقبیٰ کے ثواب کی نیت اور دنیا کے دکھاوے سے بچنا ضروری ہے اس لیے نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ عقبیٰ کے یقین کا ذکر فرمایا رمضان کے روزے اور حج ہجرت کے بعد فرض ہوئے ہیں اس واسطے مکی آیتوں سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر 1 ؎ چکی ہے (1 ؎ ص 18 جلد ہذا۔ ) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو لوگ علم الٰہی میں بدقرار پاچکے ہیں ان کی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں برے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ حدیث زینا لھم اعمالھم کی گویا تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ برے کاموں کو اچھا جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ مجبور کر کے کسی کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اس لیے کہ دنیا نیک وبد کے امتحان کے لیے پیدا کی گئی ہے کسی کے مجبور کرنے کے لیے نہیں پیدا کی گئی سوء العذاب سے مقصود دنیا کا عذاب ہے جیسے مثلا مکہ کا قحط جس کا ذکر صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزرچکی ہے کیونکہ آخرت کے عذاب کا ذکر اسی آیت میں جدا آیا ہے۔ “
Top