بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
طس یہ آیتیں ہیں قرآن پاک کی اور کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة النمل ہے عربی زبان میں نمل چیونٹی کو کہتے ہیں ۔ اس سورة کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وادی نمل سے گزرنے اور وہاں پر دلائل توحید کے طور پر ایک واقعہ پیش آنے کا ذکر کیا ہے اسی نسبت سے اس سورة کو سورة النمل کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی ، گزشتہ سورة الشعراء اور اس سورة کا زمانہ نزول قریب قریب ہی ہے ۔ دونوں سورتیں مکی دور کے وسط یا آخری حصہ میں نازل ہوئیں ۔ سورة ہذا کی ترانوے آیتیں ہیں اور یہ سات رکوع 9411 الفاظ اور 7674 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة اس سورة میں بھی دیگر مکی سورتوں کی طرح چار اہم اور بنیادی مضامین بیان ہوئے ہیں ۔ پہلے نمبر پر قرآن کریم کی حقانیت و صداقت کا مضمون ہے ۔ اللہ کی یہ کتاب علم کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ اس میں توحید کا مضمون بھی آئے گا ۔ مگر گزشتہ سورة کی نسبت کچھ زیادہ دلائل توحید کے ساتھ ساتھ شرک اور مشرکین کا رد بھی آئے گا ۔ رسالت کے ضمن میں منکرین کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہوگا اور پھر چوتھا اہم مضمون وقوع قیامت بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا ۔ ان چار بنیادی مضامین کے علاوہ اس سورة مبارکہ میں اللہ نے بعض انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر بھی کیا ہے ۔ پچھلی سورة میں انبیاء کا تذکرہ تسلی کے مضمون کے طور پر ہوا تھا کہ اللہ نے کس طرح سابقہ نافرمان اقوام کو ہلاک کیا اور اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو کامیاب بنایا ، اب اس سورة میں بعض انبیاء کا تذکرہ اللہ کی قدرت کاملہ کے نمونہ کے طور پر کیا گیا ہے ، مثلاً حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ایک چیونٹی کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا ذکر ہے ، وہ بھی اللہ کی قدرت کا نمونہ تھی ، بلکہ سبا کا ذکر ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائی ، اس کے علاوہ بھی اللہ کی وحدانیت کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں ۔ جنہیں دیکھ کر ہر عقل مند آدمی توحید خداوندی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ بعض ذیلی مضامین اور مسائل بھی اسی سورة مبارکہ میں آگئے ہیں ۔ حروف مقطعات یہ سورة مبارکہ بھی حروف مقطعات طس سے شروع ہوئی ہے ۔ ان حروف کے بارے میں زیادہ بہتر بات وہی ہے جو تفسیر جلالین 1 ؎ والے بیان کرتے ہیں اللہ اعلم بمراد بذلک یعنی ان حروف سے اللہ تعالیٰ کی جو بھی مراد ہے ہمارا اس پر ایمان ہے ، یہی طریقہ زیادہ صحیح ہے ، البتہ بعض مفسرین نے تقریب فہم کے لیے اور معترضین کے اعتراضات کے ازالے کے لیے ان حروف کے کچھ معافی بھی ذکر کیے ہیں ، اسی سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ، حضرت علی ؓ اور بعض دوسرے اکابرین کے اقوال موجود ہیں ۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) بیان کرتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر یہ بات سمجھائی ہے کہ حروف مقطعات حقیقت میں سورة کا اجمالی عنوان ہوتا ہے۔ جس طرح علمی ڈگریوں بی اے ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی وغیرہ حروف میں وسیع معانی پائے جاتے ہیں ، اسی طرح قرآن پاک میں مذکورہ حروف مقطعات بھی اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتے ہیں ۔ شاہ صاحب (رح) اپنی کتاب شرح حزب البحر میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح مفتی ، قاضی ، عالم ، فقیہ وغیرہ محض انضرادی الفاظ نہیں بلکہ ان کے نیچے وسیع مفہوم ہوتا ہے جس کو عام طور پر سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح حروف مقطعات سورة کا جمالی مضمون ہوتا ہے ۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ طس میں منازل الانبیاء یعنی انبیائے کے منازل و مراتب کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اس کائنات میں اللہ کا پیغام ہدایت کس طرح پہنچاتے رہے اور ان کے ساتھ کیا کیا واقعات پیش آتے رہے۔ بعض فرماتے ہیں طس میں ط سے مراد طیبات الاثبار یعنی پاکیزہ خبریں اس سے مراد سنی و یعنی خدا تعالیٰ کی عزت اور بلندی ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر پاکیزہ خبریں اور اللہ تعالیٰ کے اعلی وارفع مقام کے متعلق معلومات حاصل کرنے چاہتے جو تو اس سورة مبارکہ کو پڑھ لو بعض فرماتے ہیں کہ طس سے مراد طرق السعادت ہے۔ 1 ؎۔ جلالین ص 4 ( فیاض) یعنی اگر سعادت اور نیک بختی کے راستے معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس سورة کی تلاوت کرو۔ بہر حال یقینی طور پر تو کوئی بھی معنی متعین نہیں کیا جاسکتا ، محض انسانی اذہان کو قرآن کریم سے قریب تر کرنے کے لیے مفسرین نے بعض معانی بیان کیے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔ قرآن پاک کی تبیین ارشاد ہوتا ہے تلک ایت القرآن و کتب مبین یہ آیتیں ہیں قرآن پاک اور کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی ، قرآن کی تبیین کبھی خود قرآن کی زبان سے ہوتی ہے اور کبھی اللہ کے نیب کی زبان سے ، اگر کی مسئلہ میں قرآن کریم کے ایک مقام پر اجمال ہے تو دوسرے مقام پر تفصیل ہوگی ۔ اس طرح گویا قرآن اپنی تفصیل آپ بیان کرتا ہے اور اگر کسی معاملہ میں ایسا نہ ہو تو پھر نبی کے واسطے وضاحت کردی جاتی ہے ۔ سورة النمل میں موجود ہے وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ( آیت : 44) ہم نے یہ نصیحت نامہ ( قرآن) آپ کی طرف اتارا ہے تا کہ اے پیغمبر ﷺ ! آپ لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کردیں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے ، گویا اللہ نے تبیین کا کام اپنے نبی کے ذمے لگایا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اس فرض منصبی کو برطریق احسن جام دیا ۔ امام شافعی (رح) ، شاہ ولی اللہ (رح) اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے یہی نتیجہ نکالا ہے ۔ حضرت مولانا گنگوہی (رح) اس کا لب لباب تو یہ بیان کرتے ہیں ’ ’ پس صحیح حدیث شرح ہے قرآن کی “ یہ صحیح حدیث کی بات ہے جو صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہو وگرنہ یہاں پر غلط ، موضوع اور ضعیف حدیث سے حجت قائم نہیں کی جاسکتی ۔ اگر قرآن پاک کی تبیین ان دو طریقوں سے نہ ہو سکے تو پھر صورت یہ ہے کہ متعلقہ مسئلہ اجتہاد کے ذریعے حل کیا جائے اور یہ طریقہ خود قرآن نے پیش کیا ہے ، یعنی اگر مسئلہ میں قرآن و سنت خاموش ہوں اور صحابہ کرام ؓ کے اجماع میں بھی حل نہ پایا جاتا ہو تو پھر معاملہ مجتہدین کے سامنے پیش کیا جائے گا جو اس کا حل غور و فکر کے بعد پیش کردیں گے ۔ سورة النساء میں اللہ تعالیٰ نے اسی اصول کو بیان کیا ہے لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ( آیت : 38) تو پھر اسے اہل علم کے سامنے پیش کرو جو تحقیق کر کے مسائل کو حل کرنے کے اہل ہیں ۔ اسی لیے اصول فقہ والے شرح کی چار دلیلیں بیا ن کرتے ہیں ۔ اولاً کتاب اللہ ، ثانیا ً ، سنت رسول اللہ ، ثالثا ً اجماع صحابہ ؓ اور رابعا ً قیاس مجتہدین ، صرف دائو د ظاہری چوتھی دلیل قیاس کے قائل نہیں ۔ باقی تمام محدثین اور فقہاء ان چار دلائل شروع کو تسلیم کرتے ہیں۔ قرآن بطور ہدایت اور بشارت فرمایا یہ آیتیں ہیں قرآن اور کتاب مبین کی ھدی و بشری للمومنین جو ہدایت اور خوشخبری ہے ایمان والوں کے لیے قرآن پاک مجسم ہدایت ہے ، زندگی کے جس موڑ پر بھی ضرورت پڑے ۔ ہدایت فراہم کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس راستے پر چلو گے تو فلاح نصیب ہوگی ۔ یہاں پر ہدایت اور خوش خبری کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسری جگہ بینات اور ہدایت کا اکٹھا ذکر ہے ان للذین یکتمون ما انزلنا من البینت ولھدی ( البقرہ : 951) بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں بینات اور ہدایت کو بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کیلئے واضح چیز کو کہتے ہیں جسے ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور ہدایت وہ ہے جو استاد سے سیکھنی پڑتی ہے ، خود رومفسر یا گمراہ فرقے اسی لیے پیدا ہوئے ہیں کہ انہوں نے بغیر استاد سے سیکھے از خودسمجھنے کی کوشش کی ۔ امام بخاری (رح) نے کتاب الایمان 1 ؎ میں ذکر کیا ہے انما العلم بالتعلم یعنی علم سیکھنے سے آتا ہے ، خود بخود نہیں آجاتا ، اس کے لیے وقت ، محنت اور مال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سلف نے تو تحصیل علم کے لیے بڑ ی بڑی محنتیں کی ہیں اور اپنی عمر کا حصہ صرف کیا ہے تب جا کر علم کی دولت حاصل ہوئی ہے ۔ امام یوسف کا مقولہ ہے العلم لا یعطمک بعضہ حتی تعظیہ کلک جب تک تم اپنا سارے کا سارا علم کے لیے وقف نہ کرو ، علم تمہیں اپنا کچھ حصہ بھی نہیں دے گا ۔ علم اور عمل علم کا مقصود عمل ہے ، محض اسلامیات کرلیا ، مگر داڑھی صاف ، اور ویسا ہی بےنماز سو اس ڈگری کا کیا فائدہ اگر علم کے مطابق اعمال کا جائزہ نہیں لیا تو یہ علم محض پروفیسری کے لیے ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ، کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی سیرت پر عمل کرو ، غریب پروری کرو ، دوسروں کو مشورہ دیتے ہو مگر دولت مند ہونے 1 ؎۔ بخاری ص 61 ج 1 ( فیاض) کے باوجود خود ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ حضور ﷺ سادہ لباس پہنتے تھے ۔ تم کیوں تکلیف کرتے ہو ؟ آنحضرت (علیہ السلام) معمولی مکان میں رہتے تھے ۔ سادہ غذا استعمال کرتے تھے ، مگر تم نے پر آسائش مکان اور پر تکلف خوراک کا کیوں انتظام کررکھا ہے شادی اور غمی کی رسومات میں حضور ﷺ کی سیرت پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ دوسروں کو روزہ رکھنے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود چھوڑ دیتے ہو ؟ آخر یہ قول و فعل کا تضاد کیوں ہے ؟ جب تک علم کے ساتھ عمل نہیں ہوگا ، تمہارا علم تمہیں کچھ نفع نہیں دے سکتا ۔ ہمیشہ اپنا محاسبہ کیا کرو کہ کیا تم میں ایمان والوں کی فکر اور عمل کا جذبہ موجود ہے ؟ اگر نہیں ہے تو اپنا انجام خود سوچ لو۔ نماز اور زکوٰۃ فرمایا قرآن پاک ہدایت اور خوش خبری ہے ایمان والوں کے لیے اور ایمان والے وہ ہیں الذین یقیمون الصلوٰۃ جو کہ نما کو قائم رکھتے ہیں ، نماز اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اجتماعی عبادت ہے ، نماز کی ادائیگی سے تعلق باللہ درست ہوتا ہے جو شخص پانچ وقت خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے ، سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرتا ہے ، آئندہ کے لیے نیکی کا عہد کرتا ہے تو اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست رہے گا ، اگر ایسا نہیں ہے تو نہ صرف تعلق باللہ خراب ہوگا بلکہ دنیا میں مخلوق کے ساتھ بھی تعلقات بگڑ جائیں گے ، لہٰذا ایمان والے لوگ وہ ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں ، نماز کے لیے طہارت کی ضرورت ہے ۔ طہارت فکر کی بھی ہوگی جسم ، لباس اور مکان کی طہارت بھی ہوگی ۔ نمازی کو یہ چیزیں خود بخود حاصل ہوجائیں گی۔ پابندی وقت کا زریں اصول بھی نماز کا ثمرہ ہے ۔ قرآن کریم نبی کی ذات ، خانہ کعبہ اور نماز بڑے بڑے شعائر اللہ ہیں جن کی تعظیم ضروری ہے ، لہٰذا نماز کا احترام اور اہتمام ہونا چاہئے ۔ فرمایا ایمان والوں کی دوسری صفت یہ ہے ویوتون الزکوۃ کرو وہ زکوٰۃادا کرتے ہیں مکی زندگی میں زکوٰۃ قرض ہوچکی تھی مگر اس کا نصاب مقرر نہیں ہوا تھا جو کہ 3؁ھ میں مدنی زندگی میں ہوا بایں ہمہ زکوٰۃ کا ہم قرآن کی ابتدائی سورتوں میں بھی ملتا ہے جیسے سورة المزمل میں ہے واقیمو الصلوٰۃ الزکوٰۃ (آیت : 2) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، گویا مکی زندگی میں بھی کچھ نہ کچھ زکوٰۃ ادا کی جاتی تھی۔ آخرت پر ایمان فرمایا ، اہل ایمان کی تیسری صفت یہ ہے کہ فھم بالاخرۃ ھم یوقنون کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ توحید اور آخرت کا عقیدہ ہمیشہ ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں ۔ جہاں یومنون باللہ آتا ہے وہاں والیوم الاخر بھی آتا ہے ۔ اگر کوئی شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا ، بعث بعد الموت کو بر حق نہیں جانتا ، محاسبہ اعمال پر ایمان نہیں ہے تو اس کے سارے اعمال بیکار محض ہیں۔ ان کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ فرمایا آن الذین لا یومنون بالاخرۃ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ربنا لھم اعمالھم ہم نے ان کے اعال ان کے لیے مزین کردیئے ہیں ۔ ان کے برے اعمال بھی ان کو اچھے کر کے دکھائے جاتے ہیں ۔ اس مقام پر اللہ نے تزئین اعمال کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ، اس لحا ظ سے کہ تمام قوی اور خواہشات اللہ تعالیٰ ہی انسان میں پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف یہی کام شیطان کے ساتھ منسوب کیا ہے ۔ وزین لھم الشیطن ما کانوا یعملون ( الانعام : 34) اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے مزین کر کے دکھایا۔ ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی کی کہ تم جو کچھ دھوکہ ، فریب ، شرک ، بد عت ، کفر رسوم باطل ادا کر رہے ہو ۔ بالکل ٹھیک کر رہے ہو ۔ اسی میں تمہاری عزت و ناموس کا راز پنہاں ہے ، تو فرمایا کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ہم نے ان کے اعمال کو مزین کر کے دکھایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے فھم یعمھون کہ وہ سرگرداں پھر رہے ہیں۔ انہیں راستہ دکھائی نہیں دیتا اور وہ عمیق گمراہی میں بھٹک رہے ہیں ۔ منکرین معاد کے لیے عذاب ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا اولئک الذین لھم سوء العذاب کہ ان کے لیے بہت برا عذاب ہوگا ۔ وھم بالاخرۃ ھم الا خسرون اور وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے وہ آخرت کی تیاری کیا کریں گے اور پھر وہاں کامیاب کیسے ہوں گے ؟ ان کے لیے تو وہاں سراسر نقصان ہی نقصان ہوگا۔ آگے پھر نزول قرآن کے متعلق فرمایا وانک لتلقی القرآن من لدن حکیم علیم اور بیشک آپ کے خدا نے حکیم اور علیم کی طرف سے قرآن کریم کا تحفہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ قرآن ایسے پر حکمت خداوند قدوس کی جانب سے ہے جس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہی ہے ۔ قرآن پاک کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن کوئی معمولی چیز نہیں ہے یا کسی معمولی ذات کی طرف سے نازل نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس کو نازل کرنے والا حکیم اور علیم باری تعالیٰ ہے اور یہ ایسی کتاب ہے جس میں ہدایت اور خوش خبری ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لائے ہیں ، دوسرے لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
Top