بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
طس، یہ قرآن اور کتاب روشن کی آیتیں ہیں
تفسیر سورة النمل آیت 1 سے 6 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو قرآن کی عظمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے اور ایک ایسی دلیل بیان کرتا ہے جو اس کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے، چناچہ فرمایا : (تلک ایت القران وکتائب مبین) ” یہ قرآن اور کتاب واضح کی آیات ہیں۔ “ یعنی یہ سب سے بڑی نشانی، سب سے قوی ثبوت اور سب سے واضح دلائل ہیں۔ نیز جلیل ترین مطالب، کو بیان کرنے والی، سب سے افضل مقاصد، بہترین اعمال اور پاکیزہ ترین اخلاق پر سب سے واضح دلیل ہے۔ یہ آیات ہیں جو سچی خبروں، بہترین احکام، تمام گندے اعمال اور مذموم اخلاق کی نہی پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات اپنے واضح اور ظاہر ہونے کے اعتبار سے روشن بصیرت کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے چشم بینا کے لئے سورج۔ یہ ایسی آیات ہیں جو ایمان پر دلالت کرتی ہیں اور ایمان تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ماضی اور مستبقل کے واقعات کی خبر دیتی ہیں۔ یہ ایسے آیات ہے جو رعب عظیم کے اسمائے حسنیٰ ، صفات عالیہ اور افعال کاملہ کے ذریعے سے اس کی معرفت کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے اولیاء کی پہچان کروائ اور ان کے اوصاف بیان کئے گویا کہ ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے ان آیات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، تمام معاندین حق نے ان کی راہنمائی کو قبول نہ کیا، تاکہ یہ آیات الٰہی ان لوگوں سے محفوظ ہیں جن میں کوئی بھلائی اور کوئی صلاح نہیں ہے جن کے دل طہارت سے بےبہرہ ہیں۔ ان آیات سے صرف وہی لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ مختص کیا ہے، جن کا باطن پاک صاف اور جن کے قلوب نور ایمان سے منور ہیں۔ اس لئے فرمایا : (ھدی و بشری للمومنین) ” مومنون کے لے ہدایت اور بشارت ہے۔ “ یعنی یہ آیات اہل ایمان کی صراط مستقیم کی طرف چلنے میں راہنمائی کرتی ہیں۔ ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتی ہیں کہ انہیں کس راستے پر چلنا چاہیے اور کس راستے کو ترک کرنا چاہیے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کی خوشبخبری دیتی ہیں جو اس راستے پر گامزن ہونے پر مترتب ہوتا ہے۔ بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ ایمان کے دعوے دار تو بہت زیادہ ہوتے ہیں تب کیا ہر اس شخص کی بات کو قبول کرلیا جائے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، یا اس پر دلیل ضروری ہے ؟ اور یہی بات صحیح ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : (الذین یقیمون الصلوٰۃ) ” جو نما زقائم کرتے ہیں۔ “ یعنی جو فرض اور نفل نماز ادا کرتے ہیں، اس کے تمام ظاہری ارکان، شرائط، واجبات اور مستحباب کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں نیز اس کے افعال باطنہ کا بھی خیال رکھتے ہیں اور افعال باطنہ سے مراد خشوع ہے جو کہ نما زکی روح اور اس کا لب لباب ہے جو اللہ کی قربت کے استحضار اور نمازی کا نماز کے اندر قراءت اور تسبیحات اور رکوع و سجود اور دیگر افعال میں تدبر و تفکر سے حاصل ہوتا ہے۔ (ویوتون الزکوۃ) ” اور (مستحق لوگوں کو) زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ “ (وھم بالاخرۃ ھم یوقنون) ” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ “ یعنی ان کے ایمان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ درجہء یقین تک پہنچا ہوا ہے۔ یقین سے مراد علم کا مل ہے جو قلب کی گہرائیوں میں اتر کر عمل کی دعوت دیتا ہے۔ آخرت پر ان کا یقین تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لئے پوری کوشش کریں، عذاب کے اسباب اور عقاب کے موجبات سے بچیں اور یہ ہر بھلائی کی بنیاد ہے۔ (ان الذین لا یومنون بالاخرۃ) ” جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ “ بلکہ وہ آخرت کو اور ان لوگوں کو جھٹلاتے ہیں جو آخرت کا اثبات کرتے ہیں۔ (زینا لھم اعمالھم فھم یعمھون) ” ہم نے ان کے عملوں کو ان کے لئے مزین کردیا، پس وہ حیران و سرگرداں پھرتے ہیں۔ “ وہ حیران و متردد ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو اس کی رضا پر ترجیح دیتے ہیں، ان کی نظر میں حقائق بدل گئے ہیں وہ باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگے ہیں۔ (اولئک الذین لھم سوا العذاب) یعنی ان کے لئے نہایت سخت، بدترین اور سب سے بڑا عذاب ہے۔ (وھم فی الاخرۃ ھم الاخسرون) ” اور آخرت میں بھی وہ بہت نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ “ خسارہ انہی کے ساتھ مختص ہے کیونکہ وہ خود اور ان کے گھر والے قیامت کے روز خسارے میں ہوں گے اور وہ ایمان کے بارے میں بھی خسارے میں ہیں جس کی طرف انبیاء نے ان کو دعوت دی ہ۔ (وانک لتلقی القران من لدن حکیم علیم) ” اور بلا شبہ آپ کو قرآن، حکیم وعلیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ “ یعنی یہ قرآن جو آپ پر نازل ہوتا ہے اور آپ اسے اخذ کرتے ہیں (حکیم) دانا ہستی کی طرف سے نازل ہوتا ہے جو تمام اشیاء کو انکے مقام پر رکھتی اور ان کے جگہ پر نازل کرتی ہے (علیم) باخبر ہستی کی طرف سے نازل ہوتا ہے جو تمام امور کے اسرار اور ان کے باطن کا اسی طرح علم رکھتی ہے جس طرح وہ ان کے ظاہر کا علم رکھتی ہے۔ چونکہ یہ قرآن دانا و باخبر ہستی کی طرف سے ہے اسے لئے معلوم ہوا کہ یہ تمام تر حکمت و دانائی اور بندوں کے مصالح پر مشتمل ہے اور کون ہے جو ان کے مصالح کو اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر جانتا ہو ؟
Top