Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
فَمَا كَانَ : سو نہ تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّا : سوائے اَنْ : یہ کہ قَالُوا : انہوں نے کہا اقْتُلُوْهُ : قتل کردو اس کو اَوْ حَرِّقُوْهُ : یا جلا دو اس کو فَاَنْجٰىهُ : سو بچا لیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِنَ النَّارِ : آگ سے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان رکھتے ہیں
تو انکی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اسے مار ڈالو یا جلا دو مگر خدا نے ان کو آگ (کی سوزش) سے بچا لیا جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
24۔ اوپر ایک جگہ یہ بات گزر چکی ہے کہ قرآن شریف میں جگہ جگہ پچھلے انبیا اور پچھلی امتوں کا ذکر جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہر ایک مقام میں تاریخی ثبوت کے طور پر اللہ تعالیٰ کو ایک نئی بات لوگوں کے ذہن میں ان قصوں سے جمانی منظور ہوئی ہے چناچہ یہاں اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اسلام لانے کے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کو جانچتا ہے تاکہ جانچ کے وقت وہ صبر کریں اور اس صبر کے اجر میں اللہ تعالیٰ ان کو بڑے بڑے رتبے عقبیٰ میں عنایت فرماوے اب حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) تک جانچ کے طور پر ان کی امت کے اچھے لوگوں کو یا خود انبیا کو طرح طرح کی تکلیفیں جو پہنچی تھیں ان کا ذکر اس لیے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی تسکین ہوجاوے اور پچھلے تاریخی حالات سے آپ کے ذہن میں یہ بات خوب اچھی طرح جم جاوے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کچھ جانچ کے موقع جو پیش آرہے ہیں یہ کچھ نئی بات نہیں ہے بلکہ جب سے اللہ تعالیٰ کی شریعت کے احکام روئے زمین پر پہنچے ہیں اور سب سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اہل زمین کی ہدایت شروع کی ہے اسی وقت سے یہ عادت الٰہی جاری ہے کہ ہر نبی کی امت کی سرکشی کے سبب سے ان انبیاء ( علیہ السلام) کو یا امت کے اچھے لوگوں کو طرح طرح کی تکلیفیں رہیں اور وہ تکلیفیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان انبیا کے حق میں ایک جانچ اور آزمائش تھی۔ آزمائش کے زمانہ میں جو صبر وثابت قدمی ان انبیاء نے کی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے ان کو عقبیٰ میں تو جدا ملے گا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خوش کیا کہ آزمائش کی مدت جو اللہ تعالیٰ کے حکم میں تھی اس مدت کے گزرنے کے ساتھ ہی اللہ کے رسولوں کا آخر بول بالا ہوا اور جتنے سرکش اور شریر لوگ ہر ایک نبی کی امت میں تھے وہ ایک دم میں غارت ہوگئے اللہ چاہتا تو وہ شریر لوگ شرارت ہی یا تو نہ کرتے تو شروع شرارت کے زمانہ میں ہلاک ہوجاتے لیکن جو کچھ پچھلے زمانہ میں ہوا اور نبی آخر الزمان کے زمانہ میں ہو رہا ہے اس میں یہی مصلحت الٰہی ہے کہ انبیاء کا رتبہ بلند ہو اور سرکشی کے سبب سے ایک زمانہ کے لوگوں کہ ہلاک ہوجانے کا حال سن کر دوسرے زمانہ کے لوگوں کو عبرت ہو چناچہ اس مصلحت الٰہی کے موافق ظہور ہوا کہ مدت آزمائش پوری ہوتے ہی وہ مکہ جہاں گلی گلی کفر اور شرک نظر آتا تھا جہاں کے کفر اور شرک کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو وہاں سے ہجرت کا حکم دیا تھا۔ اور جہاں سے ہجرت کرنا دین میں بڑا ثواب قرار پایا تھا وہی مکر ایسا دارالا من اور دارلاسلام ہوگیا کہ اور جگہ سے اہل اسلام وہاں ہجرت کر کے جانے لگے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے لوگوں کو قرآن شریف کے قصوں میں پچھلے زمانہ کے لوگوں کا حال سن کر وہ عبرت ہوئی کہ جن بستیوں میں ہزا رہا برس سے بت پرستی چلی آتی تھی کل تئیس 23 برس کے زمانہ نزول قرآن شریف میں ان بستیوں کی گلی گلی اہل اسلام سے آباد ہوگئی جو لوگ دین محمدی کے دشمن تھے وہی دین محمدی کے حامی اور مددگار بن گئے غرض ہر کام کا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے ہجرت سے پہلے تیرہ برس آنحضرت ﷺ مکہ میں رہے اور مسلمانوں کی تعداد سو سے زیادہ نہ بڑھی جب وقت مقررہ آگیا ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع میں بعضے صحابہ ؓ کی روایت سے سوا لاکھ اور بعض روایتوں سے اس سے بھی زیادہ مسلمان مکہ میں موجود تھے حاصل مطلب اس آیت کا یہ ہے۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی باتیں سن کر ابراہیم (علیہ السلام) کے مار ڈالنے یا آگ میں جلا دینے کا ارادہ کیا اور جب ان لوگوں نے اپنے ارادہ کے موافق ابراہیم (علیہ السلام) کا ننگا کر کے آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس آگ کے صدمہ سے بچا دیا جس کے سننے سے ایماندار لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے نازک وقت میں اپنے خلیل کی کیسی مدد کی کہ آگ جیسی چیز میں جلانے کی تائیر باقی نہ رہی اور اللہ کے خلیل سے جن لوگوں نے اپنے بتوں کے توڑنے کا بدلہ لنام چاہا تھا وہ لوگ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوئے اوپر گزر چکا ہے کہ پچھلے قصے قرآن شریف میں فقط قصوں کی طرح نہیں بلکہ تاریخی شہادت کے طور پر ذکر کئے جاتے ہیں اور اس ضرورت سے بعضے قصوں کو مختصر بھی کردیا جاتا ہے اس کی مثال ان آیتوں سے بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہاں جانچ کے بعد انبیاء کی مدد جو غیب سے کی جاتی ہے اس کا ذکر تھا اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ سے بچا دینے کا ذکر فرمایا جس سبب سے ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تھا وہ قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان لوگوں کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا صحیح بخاری مسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ نمرود اور اس کے ساتھیوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ننگا کر کے جو آگ میں ڈالا تھا اس جانچ کے صبر کے اجر میں قیامت کے دن سب سے پہلے ان کو کپڑے پہنائے جاویں گے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچا دینے کی دنیا کی مدد کا ذکر ہے اور حدیث 1 ؎ میں ابراہیم (علیہ السلام) کی اس مدد کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ان کو کپڑے پہنائے جاویں گے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب الحشر )
Top